
وصال یوسفزئی
خیبر پختونخوا پاکستان کا سب سے بڑا تمباکو پیدا کرنے والا صوبہ ہے، جہاں نہ صرف تمباکو کی کاشت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے بلکہ اس کے استعمال کی شرح بھی خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تمباکو نوشی اور اس کے دیگر مضر اثرات صوبے کے صحت عامہ کے نظام پر ناقابلِ برداشت بوجھ ڈال رہے ہیں۔ تمباکو کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، اور ہسپتالوں میں ایسے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو تمباکو کے استعمال سے پیدا ہونے والی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
تمباکو کے استعمال کی وجہ سے دل کے امراض، پھیپھڑوں کے کینسر، سانس کی بیماریوں اور فالج جیسے مسائل بڑھ رہے ہیں، جو نہ صرف مریضوں کے لیے مہلک ثابت ہو رہے ہیں بلکہ صحت کے شعبے پر اضافی بوجھ کا بھی سبب بن رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا جیسے صوبے میں جہاں صحت کے وسائل پہلے ہی محدود ہیں، وہاں تمباکو سے جڑے صحت کے مسائل مزید پریشان کن صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ تمباکو کا دھواں صرف اس کے استعمال کرنے والوں کو ہی نہیں بلکہ اردگرد موجود لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے، خاص طور پر بچوں، حاملہ خواتین اور معمر افراد کے لیے یہ غیر ارادی طور پر ایک زہر آلود فضا پیدا کر رہا ہے۔
اس سنگین صورتحال کے باوجود، خیبر پختونخوا میں 2016 سے ایک اہم قانون سازی زیر التوا ہے جس کا مقصد غیر تمباکو نوش افراد کی صحت کا تحفظ اور عوامی مقامات پر تمباکو نوشی پر مکمل پابندی لگانا ہے۔ اس قانون کے تحت تمباکو کی تشہیر اور فروخت کو محدود کرنے، عوامی مقامات پر اس کے استعمال پر سختی سے عملدرآمد کروانے اور اس کے خلاف خلاف ورزی کرنے والوں پر سخت سزائیں نافذ کرنے کی تجویز دی گئی تھی، مگر بدقسمتی سے، گزشتہ آٹھ سالوں سے یہ قانون مختلف وجوہات کی بنا پر منظور نہیں ہو سکا۔ اگر یہ قانون نافذ ہوتا تو تمباکو نوشی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی تھی اور عوامی صحت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا تھا۔حالیہ برسوں میں خیبر پختونخوا کے تین اضلاع کو تمباکو فری زون قرار دیا گیا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کے عملی نفاذ کے لیے ایک موثر مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کا نظام نہایت ضروری ہے۔ اعلان کرنا کافی نہیں، جب تک کہ سخت نگرانی اور خلاف ورزی پر فوری کارروائی نہ کی جائے، تب تک یہ فیصلے حقیقی معنوں میں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی تمباکو فری زونز بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پورے خیبر پختونخوا میں تمباکو نوشی کے خلاف ایک مضبوط حکمت عملی بنائی جا سکے۔
اگرچہ تمباکو کنٹرول بنیادی طور پر محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام متعلقہ محکموں، سول سوسائٹی، میڈیا، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تمباکو کے نئے رجحانات، جیسے ای سگریٹ اور ویپنگ، نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جو مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اگر ان نئے خطرات کا فوری سدباب نہ کیا گیا تو آنے والے سالوں میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
میڈیا اور سول سوسائٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو اجاگر کریں، عوامی شعور پیدا کریں، اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ تمباکو کے استعمال کو کم کرنے کے لیے مؤثر پالیسی سازی کرے۔ خیبر پختونخوا میں تمباکو کی پیداوار اور استعمال میں اضافے کے باعث نہ صرف صحت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ یہ معیشت اور معاشرت پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا تو نہ صرف صحت کا شعبہ مزید دباؤ میں آ جائے گا بلکہ تمباکو کے خلاف عالمی سطح پر کیے گئے وعدے بھی پورے نہیں ہو سکیں گے۔حکومت کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ اس مسئلے کو نظر انداز کرے۔ خیبر پختونخوا کے عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، کو ایک صحت مند مستقبل دینے کے لیے فوری اور سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ صرف بیانات اور رسمی کارروائیوں سے تمباکو نوشی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ تمباکو کنٹرول کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے، اور اس پر مزید تاخیر انسانی جانوں کے نقصان اور صحت کے شعبے پر اضافی بوجھ کا باعث بنے گی۔