
گیارہ اور بارہ اکتوبر کے درمیانی رات افغانستان کے جانب سے پاکستان کے حدود میں سیکورٹی چیک پوسٹوں اور دیگر مقامات کو نشانہ بنانے کے بعد طورخم سمیت تما م سرحدی سرحد گذرگاہیں ہر قسم کے آمد و رفت کے لئے بند کردئیے گئے۔
حالت معمول پر لانے کے لئے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کے سربراہی میں افغان طالبان کے ساتھ قطر کے ثالثی میں مذکرات کا پہلا دور کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا جبکہ دوسرا دور ترکی کے شہر استنبول میں منعقد ہوگی۔
راستوں کے بندش کی وجہ سے تجارتی گاڑیوں اور عام لوگوں کے آمد و رفت کے ساتھ پاکستان سے واپس جانے والے افغان مہاجرین بھی جگہ جگہ پھنس چکے ہیں اور اس اتتظار میں ہے کہ سرحد کب کھول دیا جائیگا۔
حکومت کے جانب سے ضلع خیبرکے تحصیل جمرود اور لنڈی کوتل میں عارضی قیام کے لئے سہولت مرکز قائم کردیاگیا ہے۔ موجودہ وقت میں بیس کے قریب بڑے گاڑیاں کھڑے جن میں افغان مہاجرین کے کئی خاندانوں کے سامان اور افراد موجود ہے جو طورخم کھولنے کے لئے انتظارکررہے ہیں۔
عبدالحق نے اپنے خاندان کے ساتھ گیارہ دن پہلے چترال سے سفر شروع کیا تھا تاہم ابتک معلوم نہیں کہ وہ کب تک سرحد پار افغانستان جائینگے۔اُنہوں نے کہاکہ ہم ایک گاؤں سے سات مال بردار گاڑیوں میں کئی خاندانوں کے ساتھ جمرود میں قائم سہولت مرکز میں موجود ہے تاہم یہاں پر طویل انتظار کی وجہ سے ہمارے مشکلات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں۔
اُن کے بقول کے گاڑیوں میں خواتین، بچے، بوڑھے اور بیمار افراد موجود ہے جو طویل انتظار کے سبب کئی مسائل کاسامنا کررہے ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان اور افغان طالبان سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد طورخم سرحد کھول دی جائے تاکہ مختلف مقامات پر موجود افغان مہاجرین اپنے ملک واپس جاسکے۔
حکام کاکہنا ہے کہ جمرود کے سہولت مرکز میں افغان پنا گزینوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہے تاہم اس کے باوجود وہ اس بات پر اسرار کررہے ہیں اُن کو اس مرکز باہر جانے کی اجازت دی جائے اور کسی مقام پر سڑک کے کنارے قیام کرینگے۔
حکا م کاکہنا تھا کہ طورخم سرحد کے بندش کے بناء پر بھگیاڑی چیک پوسٹ سے آگے بڑے گاڑیوں کو جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے کیونکہ راستے میں کوئی ایسامحفوظ مقام نہیں کہ ان کو وہاں پر سہولت میسر ہو۔
تیس سالہ محمد آغاسہولت مرکز کے باہر دیگر افغان پناہ گزینوں کے ساتھ اس انتظار میں ہے کہ کب اُن طورخم کے طرف جانے کی اجازت ملتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ منڈی بہاؤ الدین سے کابل تک گاڑی کو کرائے کے مد میں تین لاکھ پندرہ ہزار روپے پر بات ہوئی تھی تاہم سرحد کے بندش کے بناء پر کرائے کے مد میں مزید اخرجات ادا کرنے ہونگے۔
اُن کاکہنا ہے ایک طرف پاکستان میں مزید قیام ایک مسلہ تھا جبکہ دوسرے جانب دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ سے مہاجرین کے مسائل میں مزید اضافہ ہوا ور گاڑیوں میں طویل انتظار ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
پچاس سالہ خان محمد چترال سے کابل جارہے ہیں اور آج اُن کاسفر میں گیارواں دن ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اُن کو اُمید ہے کہ آج طورخم سرحد کھول دیا جائیگاتاہم یہاں پر حکام کسی مرکز سے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔
اُنہوں نے کہ پاکستان اور افغان طالبان سے یہی مطالبہ ہے کہ راستے میں پھنسے افغان مہاجرین کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی ہمدردی کے بنیاد پر آمد ورفت کے لئے کھول دیا جائے
سرحدی حکام کے مطابق پاکستان سے افغان مہاجرین کے جار ی عمل سے طورخم پر لوگوں اور گاڑیوں کے آمد ورفت بڑھ گیا تھا۔ اعدد و شمار کے مطابق دس ہزار افراد اور پانچ سو سے زیادہ گاڑیوں کی آمد و رفت ہوتی تھی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے تجارت میں مسائل سے مال بردار گاڑیوں کے مالکان کافی پریشان ہیں اور دونوں جانب سے جلد ازجلد مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔
رحمان اللہ ٹرک کے مالک ہے اور لنڈی کوتل میں اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ سرحد کھولنے کے انتظار میں ہے۔ اُنہوں نے دونو ں کے درمیان خراب تعلقات کے سبب مال برادر گاڑیو ں کے مالکان کو بھاری مالی نقصان اُٹھنا پڑرہاہے۔ اُنہوں نے مال مالکان کے طرف سے کوئی اضافی پیسے ادا نہیں کی جاتے ہیں اور سارے خرچے اپنے جیب سے ہی پورا کرنے پڑتے ہیں۔
طورخم سرحد کے بندش کے بناء پر پاکستان سے جاری افغان مہاجرین کے انخلاء کا عمل بھی متاثر ہوچکا ہے تاہم دوسرے جانب سندھ اور پنجاب کے صوبائی وزراء نے بھیمہاجرین کے انخلاء کے عمل کو مزید تیزکرنے کے احکامات جاری کردئیے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے نئے منتخب وزیر اعلی سہیل آفریدی نے پہلے تقریر میں افغانستان کے تعلقات اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مرکزی حکومت کو اعتمادمیں لینے پر زرو دیا ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ جو بھی ملک، بشمول افغانستان، پاکستان پر حملہ کرے گا، اسے بھرپور اور مناسب جواب دیا جائے گا۔ اُنہوں نے بتایا کہ صوبے سے اب تک تقریباً آٹھ لاکھ افغان مہاجرین واپس جا چکے ہیں جبکہ بارہ لاکھ کے قریب اب بھی موجود ہیں۔
سہیل آفریدی نے کہا کہ افغان مہاجرین نے پاکستان میں طویل عرصہ گزارا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں باعزت طریقے سے اپنے وطن واپس بھیجا جائے۔ اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغانستان سے متعلق کسی بھی پالیسی کی تشکیل یا نفاذ کے وقت خیبرپختونخوا حکومت کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ اس حساس معاملے کو مؤثر اور منصفانہ انداز میں حل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق طورخم سرحد پر این ایل سی حکام نے مال بردار گاڑیوں کے چیکنگ کے لئے سکینر کے دوبارہ تنصیب کے ساتھ دیگر انتظامات میں مصروف ہے اُمید کی جارہی ہے طورخم سرحد گزرگاہ جلد آمد ورفت کے لئے کھول دیا جائیگا۔