شام ساڑھے پانچ بجے کا وقت ہے۔آٹھ سالہ محمد ریاض نے دو کلومیٹر پیدل سفر طے کر کےتھکے ہوئےصدیق آباد پھاٹک بازار میں دودھ فروش کے دوکان پر پہنچ گیا ہے۔
بارش ہو یا سردی اور گرمی کا موسم، ریاض روزانہ صبح اور شام کے وقت گھرسے دوکلودودھ فروخت کے لئے لاتا ہے۔بعض اوقات وہ بہت تھک جاتے ہے لیکن وہ اس چھوٹی عمر میں بھی اپنی ماں گلزار بی بی کی مدد کررہاہے۔
گلزار بی بی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ کے گاوں لاشوڑہ سے ہے جن کی شوہر کا چند برس پہلے انتقال ہوا ہے۔
55 سالہ گلزار بی بی اب بیوہ کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہی ہیں اور گھر کی اخراجات سنبھالنے کا بیڑہ بھی اٹھایا ہے لیکن وہ کوئی سرکاری نوکری یا نجی ادارے میں ملازمت نہیں بلکہ گھر میں مال مویشی سے دودھ بیچ کر کماتی ہے۔
گلزار بی بی نے بتایا،’ شوہر کے انتقال کے بعد گھر کی اخراجات سنبھالنا میری ذمہ داری تھی تو میں اب گھر میں پالے ہوئی فارم نسل کی گائے سے دودھ بیچ کر گھر کا خرچہ چلاتی ہوں۔‘
گلزاربی بی کےمطابق وہ 30سالوں سےگھرمیں گائےپال رہی ہے اور کبھی کبھی تو اس کی تعداد تین تک پہنچ جاتی ہےجس سےوہ بہاراورگرمیوں میں پانچ سےچھ کلودودھ روزانہ فروخت کرتےہیں۔
گلزاربی بی نے بتایا،’سردی میں دوکلوتک دودھ روزانہ ہم بیچ دیتےہیں اور ساتھ میں اس سےگھرکی دودھ کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہے۔ ‘
گلزاربی بی تو دودھ بیچنےکی کمائی سے خوش ہےتاہم ان کو اس بات کی شکایت ضرورہےکہ ان کی گھرسےدودھ کی سپلائی کےلیےکوئی باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سےوہ مارکیٹ ریٹ سےکم قیمت پردودھ بیچتی ہے۔
انھوں نےشکوہ کرتےہوئےبتایا،’بازارمیں آج کل فی کلودودھ کی قیمت تقریبا 701 روپے ہے لیکن میں دودھ130 سے140 روپے فی کلو دوکانداروں کو فروخت کرتی ہوں جس سے ماہانہ تقریبا آٹھ ہزار روپے کمائی ملتی ہے جس میں گھر کا خرچہ اور گائے کو پالنے کا خرچہ بھی پورا ہوجاتا ہے۔‘
گلزاربی بی کےخاندان15افراد پر مشتمل ہے اور ان کے مطابق اگرہم گھرمیں گائےنہ پالتےتوہماری دودھ اورجلانےکی ایندھن پرماہانہ 15سے 20ہزارروپےخرچ ہوتےجوہم جیسےعریب لوگوں کی قوت برداشت سےباہرہے۔
گلزاربی بی کودودھ مارکیٹ میں سپلائی میں کچھ مشکلات بھی در پیش ہیں جس میں ایک بازار تک دودھ لےجانےکےلئےٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام نہ ہوناہے۔
اسی حوالےسے ان کاکہناتھاکہ ہمارے گھرسےبازاردوکلومیٹرکی مسافت پر واقع ہےاورانکےچھوٹےبچے جب پیدل بازار دودھ لےجاتےہیں توان کومشکلات پیش اتی ہے۔
گلزارنے بتایا،’ پیدل دودھ لےجانےمیں مسئلہ یہ ہوتاہےکہ بچوں کےگرنےکاخطرہ ہوتاہےاورخاص کربارشوں کی موسم میں تو لے جانا بالکل مشکل ہوجاتاہے۔‘
گلزاربی بی کی طرح دیگر خواتین بھی قبائلی اضلاع سمیت خیبرپختونخواہ کے مختلف اضلاع میں گائےپالتےہیں تاہم گھروں سےمارکیٹ کوسپلائی کےلیےباقاعدہ حکومت کی جانب سےطریقہ کاروضع نہیں کیاگیاہے۔
ضلع دیرپائین میں گلزاربی بی کی طرح سمینہ بی بی بھی گھرمیں گائےپالتی ہے جس سےگھرکاخرچہ اٹھاتی ہے، تاہم ان کے مطابق سب سےبڑامسئلہ ہمیں مارکیٹ اور گاوں میں گھرانوں کوہے۔
سمینہ نے بتایا،’ میں مارکیٹ میں تو اتنی سپلائی نہیں کررہی لیکن زیادہ تر گاوں میں رشتہ داروں کودودھ بیچتی ہوں اور ان کوسپلائی کرنانہایت مشکل ہوتاہےکیونکہ یہ ایک قسم کی باقاعدہ ڈیوٹی ہےکہ روزانہ سپلائی کرنی پڑتی ہے۔‘
باجوڑمیں دودھ بیچنےسےدیگر خواتین بھی وابستہ ہے جس سےوہ اپنی لیےکماتی ہے اور وہ کسی پربوجھ نہیں بنتےلیکن گلزاربی بی کے مطابق حکومت کواس مد میں اقدامات لینےچاہیےتاکہ گھروں سےدودھ مارکیٹ میں سپلائی کرنےکاکوئی باقاعدہ طریقہ کار وضع ہوجائے۔‘
باجوڑکےمرکزی خاربازارمیں پچھلے15سالوں سےکام کرنےوالےدودھ فروش شال پاچہ جویومیہ 2000کلودودھ خریدتاہے، کہتےہیں کہ پہلےاسکاایک دوکان تھالیکن اب اس نےتین دوکانیں بنائےہیں اورکاروبارخوب چل رہاہے۔
شال نے بتایا،’باجوڑکےعلاقہ ماموند کےمختلف گاؤں سےوہ روزانہ کےبنیادپرگھروں سےدودھ اکھٹاکرتےہیں اس مقصد کےلئےانہوں نےتین چھوٹےگاڑیاں رکھےہیں تاکہ دودھ کوبروقت پہنچانےمیں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔‘
شال کایہ بھی کہناتھاکہ باجوڑمیں دودھ کاکاروباربہت خوب چل رہاہےاوران کوسارا دودھ گھروں سےسپلائی کیاجاتاہے۔
انھوں نے بتایا،’ 2000کلوتک دودھ میں روزانہ فروخت کرتاہوں اور یہ تمام سپلائی مجھےگھروں سےکیجاتی ہےلیکن پھربھی گاہک کاڈیمانڈ پورانہیں کرسکتےکیونکہ باجوڑمیں دودھ کا طلب زیادہ ہے۔‘
محکمہ لائیوسٹاک کےاعدادوشمارکےمطابق باجوڑمیں دودھ کی سالانہ پیداوارتین کروڑپچاس لاکھ لیٹرہیں جبکہ طلب13کروڑہیں۔
دودھ کی زیادہ طلب کےپیش نظرحکومت نے2011-12کوباجوڑمیں تحصیل خارمیں گیری کےمقام پرسولہ کنال اراضی پرایک ماڈل ڈیری فارم کی بنیادرکھ دی جسکو 2016-17 میں مکمل کیاگیاہےجس پرپانچ کروڑ70لاکھرروپےلاگت آئی ہے۔
شال کے مطابق اب اس ڈیری فارم سےدودھ کی پیداوارشروع ہوچکی ہےلیکن پھربھی دودھ کی طلب پوری نہیں ہوتی۔
سہ پہرکےتین بجےکاوقت ہےلیکن 26 سالہ شاہدخان صدیق آبادپھاٹک بازارمیں اپنےچائےکاہوٹل بندکرنےاورچھٹی کی تیاری کررہاہےکیونکہ انکےپاس دودھ ختم ہوچکی ہے۔
شاہدنےبتایاکہ وہ پچھلے دس سالوں سےچائےکاہوٹل چلارہےہیں اورروزانہ کی بنیادپرہوٹل میں 50کلودودھ استعمال کرتاہے۔
انکا کہنا تھا،’ میں روزانہ 50 کلودودھ چائےکےلیے استعمال کرتاہوں اور یہ سارا میں مضافاتی علاقوں کےلوگوں سےخریدتاہوں۔‘
انہوں نےکہاکہ کبھی کبھی وہ دودھ فروش کےدوکان سےبھی دودھ خریدتےہیں لیکن زیادہ ترمیں سہ پہرکےوقت چھٹی کرتاہوں کیونکہ بازارمیں بھی دودھ دستیاب نہیں ہوتے۔
انہوں نےمزید کہا کہ باجوڑمیں کھلےدودھ کی طلب زیادہ ہےکیونکہ یہاں پر لوگ پیکجڈ( ڈبے والا دودھ)کی دودھ استعمال نہیں کرتے، اور یہی وجہ ہےکہ انکوبعض اوقات دودھ کی کمی کاسامناکرناپڑتاہے۔
25سالہ عبداللہ گلزاربی بی کا بڑا بیٹا ہے جو والدہ کی مارکیٹ کودودھ سپلائی کرنےمیں مدد کرتاہے۔
انہوں نےبتایاکہ انکی والدہ گائےکی دیکھ بھال کاتجربہ رکھتی ہے اور گائےکوسردی اورگرمی کی شدت سےبچاؤکےلئےانکا بندوبست کرتی ہے۔
عبداللہ نے بتایا،’ ان کےساتھ اسکی خوراک کابھی خیال رکھتی ہےجس سےدودھ کی پیداوارمیں اضافہ ہوتاہے۔ نہ صرف یہ کےگائےکےدودھ کی فروخت کی وجہ سےانکوآمدن ہوتاہےبلکہ ضرورت کی وقت گائےکی بچھڑےفروخت کرکےاپنی مالی مشکل بھی حل کرتےہیں۔‘
عبداللہ نے بتایا کہ دودھ سپلائی کرنےمیں مشکلات ضرورہےکیونکہ بعض دفعہ مارکیٹ میں سپلائی کرنےکےلیےگاڑی کابندوبست نہیں ہوتا اور نہ گھرمیں کوئی موجود ہوتاہےکہ وہ دودھ مارکیٹ تک سپلائی کرے۔
ضلع باجوڑکےآبادی 2023 مردم شماری کےمطابق 12لاکھ87ہزار960ہےاورزیادہ ترلوگوں کی زراعت کےبعددوسراکمانےکاذریعہ لائیوسٹاک یعنی مویشی پالنےپرہے۔
محکمہ لائیوسٹاک باجوڑکےفراہم کردہ اعدادوشمار(بیس لائن سروے ) کےمطابق باجوڑمیں 2021 میں کی گئی مویشی اورپولٹری(مرغیوں) سروےکےتحت باجوڑمیں رجسٹرڈمویشوں اورمرغیوں کی تعداد10لاکھ24ہزارتھی جسمیں تین لاکھ سے زائد گائےاوربیل،10ہزارسے زائد بھینس،74ہزارسےزائددنبےاورایک لاکھ58 ہزار سے زائد بکریاں تھے۔
محکمہ لائیوسٹاک باجوڑکے ڈاکٹرفضل حق نےبتایاکہ باجوڑمیں ان کی محکمےکی طرف سےبیواہ خواتین میں خصوصی طورپراعلی نسل کے 546یونٹس بھیڑاوربکریوں کی تقسیم کئےہیں۔
فضل کے مطابق،’ ہریونٹ میں ایک میل اورایک فیمیل بھیڑاوربکریاں شامل تھیں۔ اسکی علاوہ حکومت پرائیویٹ پارٹنرشپ پرچھوٹےپیمانےپرڈیری فارم پرکام کررہی ہےاوراس سلسلےمیں 37فارمزمکمل ہوچکے ہیں اور مزید پر کام جاری ہے ۔‘
اسکےعلاوہ فضل حق کا کہنا تھا کہ ہمارا سٹاف باجوڑکی دوردرازعلاقوں میں لوگوں کومویشوں کی صحیح طریقےسےدیکھ بھال کرنےکیلئےتربیت اورمفید مشورےدےرہی ہے۔
انھوں نے بتایا،’ اگرچہ قبائلی علاقوں میں خواتین بھی گھروں میں مویشی پالنےسےوابستہ ہےتوانکی تربیت کےلئےابھی تک کوئی اسی طرح کا تربیتی کام نہیں ہوالیکن آئندہ اسکےلئےبھی تربیتی پروگرام کاہم کوشش کرینگے۔‘
گلزاربی بی کے جس طرح مارکیٹ میں قیمتوں کی توازن کےبارےمیں شکایت کی ہے، اسی حوالےسے فضل حق نے بتایا کہ دودھ فروش جب کسی گھرسےدودھ خریدتےہے تو اس کےلیےسرکاری طور پرکوئی نرخ مقرر نہیں ہے۔
فضل حق نے بتایا،’ چونکہ ایساکوئی طریقہ کار موجود نہیں ہےکہ گھروں میں گائےپالنےوالےخواتین سےدودھ خریدنےکےلیےکوئی نرخ مقرر ہوں، اس لیے خواتین یاکوئی بھی گھر والے دودھ فروش کےساتھ ایک قیمت فکس کرے اور اسی پردودھ بیچیں۔‘
گلزاربی بی کےمطابق ان کےگاؤں میں جن لوگوں کےپاس گائےہیں ان کی معاشی زندگی دوسرےلوگوں کی مقابلےمیں اچھی گزررہی ہے۔
انھوں نے بتایا،’ گھروں میں گائےپالناایک گھریلوکاروبارہےجسکوخواتین اپنےگھروں میں آسانی سےکرسکتی ہے۔حکومت کی طرف سےان کےساتھ اس مدمیں کوئی مددنہیں کی گئ۔ میں صرف اتنی درخواست کروںگی کہ ہماری دودھ کی سپلائی کےلیےکوئی باقاعدہ نظام بنایاجائے۔‘
فضل حق نےگھروں سےدودھ سپلائی کے موثر نظام نہ ہونےکےبارےمیں بتایا کہ ان کےپاس اتنے وسائل نہیں ہےکہ وہ اس کےلئےباقاعدہ ٹرانسپورٹ کابندوبست کریں ۔
انھوں نے بتایا،’بڑےدودھ فروش خود گھروں میں جاکردودھ خریدتےہیں۔ لیکن ہم کوشش کرینگےکہ اس مسئلہ کاکوئی حل نکال سکے۔ اس کےعلاوہ ہم ان کےلئےریٹ بھی فکس کرینگےتاکہ گائےپالنےوالےلوگ اور خصوصی طور خواتین کودودھ کی اچھی ریٹ مل سکے۔‘