ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کا ایک بہترین زریعہ ہے اور اللّٰہ تعالی کے طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے کیونکہ اس کے وجہ سے سبزہ  اور زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور دیکھنے والے کے آنکھوں کو اس سے ٹھنڈک محسوس ہو تی ہے۔ اس سے نظر تیز ہو تی ہے اور جانداروں کو صاف ماحول میں مناسب خوراک میسرہو تی ہے۔ دنیامیں جس جگہ ڈیم موجود ہے تو وہاں پر انسان اور دوسرے جانداروں کی خا طر خواہ وآبادی رہائش پذیر ہو تی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سیا حت کے لئے بھی ایک صحت آفزاء جگہیں میسر آتے ہیں اورزرمبادلہ کمایا جاتا ہیں۔ ہمارے ملک میں باالعموم اور خیبر پختون خواہ اور ضم شدہ  اضلا ع  یعنی قبائلی علاقوں میں باالخصوص ڈیموں کے بنا نے کے لئے بہت سے موزوں جگہیں موجود ہیں جس پر چھوٹے بڑے ڈیم باآسانی  بنا ئے جا سکتے ہیں لیکن اس کو خا ص توجہ دینے کی ضرورت ہیں۔

اس سے نہ صرف سستی بجلی حاصل ہو گی بلکہ اس سے ارد گرد کے علاقوں کے سطح زمین کے اندر پانی کاسطح  انچی ہو گی ۔ جتنا ڈیم بڑا ہو تا ہے اتنا اس سے آ س پاس کے علاقوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ڈیموں سے جو ایک اہم فائدہ ماحول کو ہوتا ہے وہ سیلابوں کی روک تھام ہے۔ ہمارا ملک دینا کے ان دس ممالک کے فہرست میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے منفی  اثرات سے زیادہ متاثرہ ہورہا ہے۔یہاں پر  ہر سال غیرمتوقع بارشیں ہوتی  ہےجس سے غیر متوقع سیلاب آتے ہیں جس سے جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر فصلوں اور جنگلات کے تباہی ہوتی ہے۔ اس تباہی کے سامنے جو چیز روکاوٹ بن سکتی ہے  یعنی جس طریقے سے ہم سیلابوں کے تباہی روک سکتے ہیں تو وہ صرف  زیادہ تعداد میں ڈیموں کی تعمیر ہیں۔

جتنے زیادہ تعداد میں ہمارے ملک میں ڈیم ہو تو اتنی ہی ہم سیلا بوں کے نقصانات سے محفوظ ہو نگے۔ ایک طرف سیلابوں کے پانی کے تباہی سے ہم محفوظ ہو نگے تو دوسری طرف ہم زیادہ سے زیادہ مقدار میں پانی کو ذخیرہ کرینگے جو بعدمیں ہم ضرورت کے مطابق استعمال کرسکتے ہیں۔ ہمارے پاس پانی کے بہت بڑے ذخائر شمالی علاقہ جات میں گلیشئیرز کے شکل میں موجود ہیں جس کی غیر معمولی پگھلاؤ کی وجہ سے اس کی پانی   ضائع ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں چند ڈیموں کے علاوہ جو پاکستان بننے کے بعد بنے تھے اس کے بعد اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ہم نے تو زیادہ عرصہ اس پہ گزار کہ کالا باغ ڈیم  بننا چاہئے  اورنہیں بننا چائیے جس پر اب تک کوئی اتفاق رائے نہیں بنا۔ لیکن دنیا میں ترقیافتہ ممالک کے ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہاں پر پانی کی صحیح استعمال اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کرنے کے لئے وہاں پر انہوں نے ڈیموں پر بہت توجہ دی ہے اور بڑی تعداد میں ڈیمز بنائے ہیں۔

دنیا میں اگر ڈیموں کی تعداد پر نظر ڈالی جائے سب سے زیادہ ڈیم چین میں اسی ہزار اور امریکہ میں پچہتر ہزار ڈیم ہیں۔ جبکہ پاکستان میں کل ایک سو پچاس ڈیم موجود ہیں جس سے دونوں فوائد بجلی اور آبپاشی کا کام لیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں ڈیموں کے تعمیر کے لیے بے شمار موزوں جگہیں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے اس طرف توجہ نہیں دی جاتی اور ہماری قیمتی پانی کا وافر مقدار سمندر برد ہوتا ہے جو بہت تشویشناک بات ہے۔ ڈیموں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک ہر سال سیلابوں کا شکار ہو جاتا ہے جس سے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ہمیں اربوں ڈالر ز کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اور یہاں پر دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہیں لیکن پانی کے زخیرہ کرنے کے مناسب انتظام نہ ہونے کے وجہ سے ہمارے ملک میں اکثر زراعت کے لئے مناسب پانی کا وقت پر نہ ملنا ایک معمول بن گیا ہے جس کے وجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہورہی ہے اور ہم زراعت کے شعبے میں اب تک مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بھی چھوٹے پیمانے پر ڈیمز اور ہائیڈل پاور سٹیشن بنائے لیکن صوبوں نے اب تک اس میں کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا اب خیبر پختون خواہ میں ضلع دیر لوئیر میں خال کے مقام پر ایک ہائیڈل پاور منصوبے پر کام ہو رہا ہے اور اس سے توقع ہے کہ بجلی کی کمی پر قابو کرنے میں مدد ملی گی، اس کے علاوہ فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے طرف سے پورے ضم شدہ اضلاع میں چھو ٹے ڈیموں پر کام جاری تھا جس میں بارانی ڈیم بھی شامل تھے اور اس سلسلے میں ضلع باجوڑ میں تین ڈیم بن گئے تھے جس میں دو بارانی ہیں اور  ایک دریا پر بنا یا گیا ہے۔ دریا پر بننے والے ڈیم  مکمل ہو چکاہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک اس سے  نکالے گئے واٹر چینل ابھی تک مکمل نہیں کی گئی جس سے زراعت کے مد میں مطلوبہ فوائد ابھی تک حاصل نہیں ہوئے ۔

اسی طرح  دوسرے علاقوں میں بھی سمال ڈیمز  کے فیزیبلٹی  پر کام مکمل ہوا ہے اور اس پر کام کا جلد آغاز ہوگا۔۔ ان سب ڈیموں سے کئی فائدے حاصل ہونگے اس سے آبپاشی،زیر زمیں پانی کی سطح کی بلند ی اور سیلابوں کی روک تھا م میں مدد ملی گی اس کے علاوہ ضلع باجوڑ میں اور بھی کئی علاقے ہیں جہاں پر اسی طرح کے سمال ڈیمز بن سکتے ہیں ۔ حکومت  نے  چند سال پہلے  دو بڑے ڈیموں مہمند ڈیم اور دیامر بھاشاڈیم پر کام تیزری سے شروع کیا ہے جو  چند سالوں میں مکمل ہوگی جس سے کافی حد تک توانائی کا بحران حل ہوگی۔ ڈیموں کے بنانے کے لئے اگر چہ حکومتی سطح پر اقدامات ہو رہی ہے۔

لیکن وہ بہت کم ہے کیونکہ ڈیموں کے بنانے پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے ضرورت ہو تی اور وہ اکیلے حکومت وقت کی بس کی بات نہیں ہے اس لئے اس سلسلے میں حکومت کو چاہئے کہ ایشین بنک اور ورلڈ بنک کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صاحب حیثیت لوگوں کو اس طرف مائل کیا جائے اور اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ مراعات دیا جائے۔ کیونکہ حال ہی میں صوبہ پنجاب کے چکوال سے تعلق رکھنے والے ایک زمیندار نے اپنی مدد آپ کی تحت اپنے علاقے میں ایک  ڈیم بنایا ہے جس سے سو ایکڑ زمین سیراب ہوگی  جو ایک  قابل رشک اور حوصلہ آفزاء اقدام ہے  جو دوسرے زمینداروں کے لئے ایک  زندہ مثال ہے۔  اگر ایک طرف  ان ڈیموں کے پانی سے حاصل ہونے والی بجلی سستی ہے تو دوسری طرف  یہ ماحول کے صفائی اور پانی کی زخیرہ کرنے میں معاون ثابت ہو گی۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں