پچاس سالہ سید محمد کا تعلق خیبر پختونخوا کے قبائیلی ضلع اورکزئی کے آپر تحصیل ماموزئی سے ہے۔ اُنہوں نے تیسری بار عوامی نمائندوں کے انتخاب کے لئے رواں سال فروری میں عام انتخابات میں اپنے علاقے سے دور کوہاٹ میں اپنے ووٹ کا استعمال اس اُمید سے کیا کہ پندرہ سال بعد اُن کی واپسی اپنے گھر کو ممکن ہوجائیگی۔ اورکزئی کے بے گھر افراد اپنے عالقوں کو واپسی پہلے کے نسبت اب زیادہ مایوس دکھائی رہے ہیں کیونکہ قومی اسمبلی میں ُن کے علاقے کی نمائندگی ختم ہوچکی ہے جبکہ صوبائی اسمبلی میں ایک نمائندہ موجودہے۔
رواں سال آٹھ فروری کے عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نئے حلقہ بندیوں کے تحت خیبرپختونخوا کے سات ضم قبائلی اضلاع کے بارہ میں سے چھ قومی اسمبلی نشستیں کو ختم کر دئیے گئے جن میں ضلع اورکزئی کا واحد قومی اسمبلی کا نشست بھی ختم ہوچکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق اورکزئی کی آبادی 3لاکھ 87ہزار تھی جس کے وجہ سے ضلع اورکزئی کو ضلع ہنگو کے ساتھ ملا کر ایک قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 36 بنایا گیا۔ ضم قبائلی اضلاع میں اورکزئی واحد ضلع ہے جن کا قومی اسمبلی میں نمائندگی ختم ہوگئی جبکہ ایک صوبائی نشست ان کے حصے میں آیا ہے۔ یہ سب کچھ سال2018 میں پچیسویں آئینی ترمیم کے بعد ہوا جن میں سات سابق قبائلی ایجنسیز اور چھ ایف آرز کے علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنا کر پہلی بار ملک کے آئین اور دیگر قوانین کی توسیع ان علاقوں کو ہوئی۔
عوامی نیشنل پارٹی ضلع اورکزئی کے صدر مثل خان اورکزئی اور سابق ممبر قومی اسمبلی غازی گلاب جمال نے اپنے علاقے کے قومی اسمبلی کے نشست بچانے کے لئے پشاورہائی کورٹ میں چھٹی مردم شماری میں علاقے کے کم آبادی کے خلاف ایک پٹنشن دائر کردی ہے جس میں عدالت نے ساتویں مردم شماری کے اعداد شمار تک اورکزئی کے قومی اسمبلی کے نشست بحال رکھنے کا حکم جاری کردیا لیکن ساتوں مردم شماری میں اورکزئی کے آبادی ایک لاکھ33ہزار261اضافہ ہوکر کُل آبادی 3لاکھ 87 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ قومی اسمبلی کے ایک نشست کے لئے کل آبادی آٹھ سے دس لاکھ لازمی ہے۔ مثل خان اورکزئی نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ اپر اورکزئی کے سب سے بڑے دو قبیلے ماموزئی اور علی خیل اب تک اپنے علاقوں کو واپس نہیں جاچکے ہیں جبکہ نادرہ نے ضلع اورکزئی کے ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ باشندوں کو شناختی کارڈ جاری کردیاہے جس سے اس بات کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اورکزئی کے آبادی دس لاکھ کے قریب ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اورکزئی کو ہنگو کے ساتھ ملاکر ایک قومی اسمبلی کے نشست دینا دونوں اضلاع کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہے، کیونکہ ایک تو آبادی جبکہ دوسرا قبہ بھی بہت زیادہ ہے جو ایک ممبر قومی اسمبلی کے لئے سنبھالنا اور فنڈ کے مناسب تقسیم ممکن ہی نہیں۔
بسم اللہ آفریدی قبائلی علاقوں کے انضمام کے خلاف فاٹا قومی جرگے کے سربراہ ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ مئی 2018سے اب تک انضمام کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور یہ مقامی لوگوں کے رائے نظر انداز کرکے مقتدار قوتوں نے فیصلہ کرکے بڑی ذیادتی کی۔ اُنہوں نے کہا کہ انضمام کے ساتھ کیں گئے وعدوں میں ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ اُن کے بقول دہشت گردی سے تباہ شدہ علاقے بنیادی سہولیات کے تعمیر نو، نیشنل فنانس کمیشن میں دس سال تک تین فیصد حصہ اورسالانہ ترقیاتی فنڈ میں اضافہ شامل تھا تاہم بدقسمتی ہے قومی اسمبلی کے بارہ میں سے چھ جبکہ سینٹ کے آٹھ نشستوں کا خاتمہ کردیا گیا جس سے اورکزئی اور چھ ایف آرز کی قومی اسمبلی میں بالکل نمائندگی ختم ہوگئی۔ اُن کے بقول انضمام کے خلاف مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
ضلع اورکزئی کے مسائل
سماجی کارکن خیال زمان اورکزئی کا تعلق اپر اورکزئی تحصیل ماموزئی قبیلے سے ہے جبکہ پچھلے کئی سالوں سے پشاور میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پزیر ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ باقی ضم اضلاع کے نسبت اورکزئی کے مسائل زیادہ ہے جن میں بے گھر افراد کے اپنے علاقوں میں واپسی، دہشت گردی سے متاثرہ بنیادی سہولیات کے بحالی وتعمیرنو، تباہ شدہ مکانات کے معاوضوں کی آدائیگی اور معیشت کے بحالی شامل ہیں۔
قبائلی خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم کارکن نوشین فاطمہ کا کہنا ہے کہ اورکزئی میں مقامی آبادی کے کمائی کا بڑا نحصار زراعت پر ہے جبکہ کاشتکاری میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام خواتین ہی کرتے ہیں لیکن بدامنی کے لہر میں زرعی شعبے کو بہت بڑا نقصان ملا ہے اور لوگوں نے اپنے مد د آپ کے تحت انتہائی مشکل سے فصلوں کے کاشت کے لئے بحال کردیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ باقی قبائلی اضلاع کے مقابلے میں اورکزئی میں نوجوانوں کے لئے معاشی مواقعیں نہ ہونے کے برابر ہے جس کی بنیادی وجہ اورکزئی کے جغرافیائی حیثیت ہے کہ ان کے افغانستان کے ساتھ سرحد نہیں۔
سید محمد کا کہنا ہے دہشت گردی کے لہر میں بڑی تعداد میں لوگوں کے گھر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ مسائل کے بناء پر لوگ اُس کو دوبارہ تعمیر نہیں کرسکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہ ضلعی انتظامیہ کے جانب سے 2021 متاثرہ گھروں کے سروے ہوئی جس کے تحت مکمل تباہ شدہ مکان کے مالک کو چار لاکھ جبکہ جزوی نقصان کے مد میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے دینے تھے لیکن اب تک کسی کو معاوضہ نہیں ملا۔ اُنہوں نے کہا کہ علاقے میں امن وامان، سکول، ہسپتال، سڑک، پینے کے پانی جیسے بنیادی سہولیات اورکزئی کے اپر تحصیل اور دیگر علاقوں میں موجود نہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ ہر گاؤں کو ایک یا دو خاندان واپس جاچکے ہیں جبکہ باقی لوگ ابھی تک دوسرے علاقوں میں مجبوری کے تحت مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔
موجودہ وقت میں اورکزئی کا اہم مسئلہ ضلع کے ہیڈکواٹر کے لئے مقام کا تعین ہے، کیونکہ شروع سے ضلعی ہیڈکواٹر ضلع ہنگومیں قائم ہے تاہم مقامی آبادی اس بات پر متفق ہے کہ عوام کو درپیش مسائل کے بناء پر ڈپٹی کمشنر کا دفتر یہاں سے منتقل کردیا جائے لیکن مقامی رائے مختلف ہے۔ معلومات کے مطابق ایک اسٹنٹ کمشنر کلایہ جبکہ دوسر علجو میں قائم دفاتر میں کام کرتے ہیں لیکن ان کے حاضری ہفتے میں دو دن ہوتا ہے جس کے وجہ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ مثل خان اورکزئی کا کہنا ہے کہ اپر اورکزئی کے نسبت لوئر میں زندگی کے بنیادی سہولیات کافی بہتر ہے۔ اُن کے بقول لوئر میں بے گھر افراد کی واپسی جلد شروع ہوئی اور نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ امدادی اداروں نے بھی دوبارہ آباد کاری میں کافی ہاتھ بیٹھایا۔ اُنہوں نے کہاکہ آگر ضلعی ہیڈکواٹر اپرتحصیل منتقل کیاجاتاہے تو اس سے ایک پسماندہ علاقوں کے دوبارہ آبادی اور بے گھر افراد کے واپسی کا عمل تیز ہوجائیگا جبکہ دوسرے جانب اس کا فائدہ پوری ضلع کو ہوگا۔
قومی اسمبلی کے نشست کے خاتمے سے اورکزئی پر اثرات
ادارہ شماریات کے مطابق ساتویں مردم شماری کے مطابق ضلع ہنگو کی آبادی پانچ لاکھ 29ہزار ہے جبکہ ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 26 ہزار ہے۔ ضلع اورکزئی کے آبادی تین لاکھ 87ہزار 561جبکہ رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 30ہزار 109ہے۔ ضلع اورکزئی پہلے سے ایک پسماندہ اور مسائل کا شکار تھا جبکہ ان کو قومی اسمبلی کے حلقے میں ہنگو کے ساتھ ملا کر درپیش مسائل کا حل مزید پیچیدہ کئے۔ مثل خان خان اورکزئی نے کہا کہ انضمام کے بعد قبائلی اضلاع کے پسماندگی دورکرنے کی اُمید پیدا ہوئی تاہم نئے حلقہ بندیوں کے سبب اورکزئی کو بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا۔ اُن کے بقول قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 36سے ممبر قومی اسمبلی کا تعلق ہنگو سے ہے اور وہاں پر اُن کا سیاسی حلقہ اخباب ہے تو لازماً وہ وہاں پر زیادہ توجہ دینگے جبکہ ضلع اورکزئی کا اتنا بڑا علاقہ ہے کہ سال میں دو دفعہ بھی ان کے علاقوں کا دورہ نہیں کرسکے۔
نوشین فاطمہ نے کہاکہ اس سے پہلے بھی عوامی نمائندوں کے کارکردگی اطمیان بحش نہیں تھی البتہ اپنے علاقے سے تعلق کے سبب جب بھی کسی مسلے کی نشاندہی کی تو فوری طور پر ممبر قومی و صوبائی اسمبلی اُس پر ایکشن لیکر عملی اقدامات کرلیتے اب تو سال ہونے والا ہے ہم نے اپنے قومی اسمبلی کے نمائندے کو دکھا تک نہیں ہے۔
خیال زمان اورکزئی نے کہا کہ انضمام کے ساتھ جو وعدیں کیں گئے اُن میں کسی ایک بھی پر عمل نہیں ہوا ہے جس سے مقامی آبادی کے سات دہائیوں کے محرومی دور ہوسکے جبکہ دوسرے جانب اُن تمام اقدامات پر عمل درآمد کیا گیا جس سے مقامی آبادی کے لئے نقصان کا سبب بن گیا ہو۔ اُن کے بقول انضمام میں سابق قبائلی علاقوں کے لئے نیشنل فنانس کمیشن میں تین فیصد حصہ دینے کی بات ہوئی جوکہ سالانہ 120ارب روپے بنتی ہے تاہم اب تک مرکز سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا لیکن اگر مستقبل میں قبائلی ضلاع کو یہ حصہ دیا جاتا ہے تو کیا اورکزئی کے پیسے ہنگو میں بھی خرچ ہونگے۔
اس حوالے سے اورکزئی سے صوبائی اسمبلی کے ممبر اورنگزیب خان اور قومی اسمبلی کے ممبر یوسف خان کے موقف لینے کے لئے اُن سے کئی بار رابطے کی کوشش کی تاہم اُن کے طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوسکا۔
فرروی 2024کے عام انتخابات کے لئے نئے حلقہ بندیاں
الیکشن کمیشن نے رواں سال 27ستمبر کو پوری ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے نئے حلقہ بندیوں کا اعلان کر دیا تھا جس کے تحت سابق قبائلی علاقوں کے بارہ قومی اسمبلی کے نشستیں کم کرکے چھ کردی گئی جبکہ سینٹ کے آٹھ نشستیں مکمل طورپر ختم کردی گئی۔ یہی سات قبائلی اور چھ نیم قبائلی علاقے مئی 2018کو پچیسویں آئینی ترامیم کے بعد خیبر پختونخوا کاحصہ بن گئے جبکہ ملک کے آئین میں ان کا خصوصی حیثیت ختم ہونے کے ساتھ مذکورہ علاقوں میں پہلی بار جولائی 2019میں صوبائی اسمبلی کے 16 جنرل نشستوں پر انتخابات ہوئے جبکہ2021-22 میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے۔
نئے حلقہ بندیوں سے پہلے 2018کے انتخابات میں باجوڑ میں دو، مہمند ایک، خیبر میں دو، اورکزئی ایک، کرم دو، شمالی وزیر ستان ایک، جنوبی وزیر ستان دو جبکہ نیم قبائلی علاقوں سے ایک قومی اسمبلی کی نشست تھا تاہم فروری 2024 کے انتخابات میں باجوڑ ایک، مہمند ایک، خیبر ایک، کرم ایک، شمالی اور اپر و لوئر جنوبی وزیر ستان ایک ایک قومی اسمبلی کے نشست رہ گئے ہیں جبکہ اورکزئی کو ضلع ہنگو جبکہ چھ نیم قبائلی علاقوں کو قریب اضلاع کے ساتھ شامل کردیا گیا ہے۔
15مارچ 2017کو ادارہ شماریات نے چھٹی مردم شماری کے مطابق سابق قبائلی علاقوں کے آبادی پچاس لاکھ بتائی جبکہ 5اگست 2023کو ساتویں مردم شماری کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق قبائلی اضلاع کی آبادی بڑھ کر 69لاکھ ہوگئی تاہم ان میں چھ سابق نیم قبائلی علاقوں کے آبادی کو شامل نہیں کی اگیا ہے۔ خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کے ایک نشست کے لئے آباد ی 9نولاکھ سات ہزار 913جبکہ صوبائی نشست 3لاکھ 55ہزار270 آبادی پردیا جاتاہے جس کے مطابق ضم اضلاع کے حصے میں چھ قومی،ایک صوبائی نشست بڑھ کر سترہ جنرل، خواتین کے لئے چار اور اقلیتی برداری کے لئے ایک صوبائی نشست مختص کردی گئی۔
کیا اورکزئی کے قومی اسمبلی کے نشست بحال ہو جائی گی
13مئی 2019کوشمالی وزیرستان سے سابق ممبر قومی اسمبلی اور ڈیموکریٹک موومنٹ کے سرکردہ رہنماء محسن داوڑ نے چھبیسواں آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کیاتھا۔ جن میں قومی اسمبلی میں ضم اضلاع کے بارہ نشستوں کو برقرار کھنا اور صوبائی اسمبلی کے پہلے سے مختص سولہ جنرل نشستیں بڑھاکر بیس کرنے کا تجویز پیش کیا گیا تھا۔ آئینی ترمیمی بل 2019 کے حق میں 288 اراکین نے ووٹ دیا۔ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار تھی کہ کسی آزاد رکن کی جانب سے پیش کردہ آئینی ترامیمی بل کو حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے منظور کیا ہو۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے قبائلی علاقوں کو زیادہ نمائندگی دینے سے متعلق آئینی ترامیمی بل پر تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے کو خوش آئند قرار دیا تھا اور کہاتھا کہ قبائلی علاقوں کے عوام بہت مشکل وقت سے گزار رہے ہیں۔
چھبیسوایں آئینی ترامیمی بل کے حوالے سے محسن داوڑانے کہا کہ قبائلی عوام کے مسائل ملک کے باقی حصوں کے نسبت زیادہ ہے اور 2018میں پچیسویں آئینی ترامیم کے ساتھ قبائلی علاقوں کے مخصوص حیثیت کے خاتمے اور وہاں پر 1901سے نفاذ فرنیٹر کرائم ریگولیشن کے خاتمے کے بعد وہاں پر الیکشن کمیشن کے قانون کے مطابق آبادی کے بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ بندیوں سے نہ صرف قومی اسمبلی کے نشستیں کم ہوئے بلکہ بعض علاقوں کے نمائندگی ختم ہوئی جبکہ سینٹ کے آٹھ نشستیں مکمل طورختم کردئیے گئے۔ اُنہوں نے کہاکہ قبائلی اضلاع کے صوبائی اسمبلی کے سولہ جنرل اور پانچ محسوس نشستیں بھی کم ہیں اس وجہ سے آئینی ترمیم میں کہا گیا کہ جنرل نشستوں کی تعداد مذکورہ علاقوں کے لئے بیس کردیا جائے۔ اُنہوں نے کہا چھبیسویں آئینی ترامیی بل قومی اسمبلی سے بھاری اکثریت سے منظور ہونے کے باوجود بھی سینٹ نے چار سال میں اس پر بحث نہیں کی جوکہ ایک کروڑ قبائل کے ساتھ ناانصافی ہے۔
اورکزئی سے سابق پارلیمنٹرین غازی گلاب جمال کا کہنا ہے کہ الیکشن ٹریبونل اور پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹشن میں ہمارا موقف واضح تھا کہ ایک تو نادرہ نے ساڑھے سات لاکھ سے زائد اورکزئی کے مقامی باشندوں کے کارڈ جاری کردی ہیں جبکہ دوسرا یہ اور دونوں مردم شماری ایسے وقت میں ہوئی کہ ہمارے کے علاقے کے بہت بڑی آبادی اب بھی اپنے علاقوں سے باہر تھی۔
اورکزئی میں معاشی مواقعیں
ماسوائے اورکزئی کے باقی تمام اضلاع کے افغانستان کے ساتھ سرحد موجود ہے جس کی وجہ سے ان اضلاع کے نہ صرف جغرافیائی اہمیت بلکہ وہاں پر روزگار کے مواقعیں بھی زیادہ ہے۔ اورکزئی کے مقامی لوگوں کے آمدن کا بڑ ذریعہ معاش بھنگ کے کاشت ہے۔ بھنگ کے قانونی کاشت کے حوالے سے کیں گئے سروے کے مطابق سب سے زیادہ کاشت اور پیدوار اورکزئی میں ہوتاہے۔ مثل خان اورکزئی کے نے کہاکہ بھنگ کو قانونی حیثیت دلایا جائے اور پراسسنگ کے لئے کارخانے بھی ان علاقوں میں لگانا چاہیے تاکہ مقامی نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقعیں بڑھ سکے۔
خیال زمان اورکزئی کے مطابق پوری ضلع اورکزئی قدرتی حسن اور گنے جنگلات کے لئے پوری ضم اضلاع میں ایک منفرد حیثیت رکھتاہے اور موجودہ وقت میں سیاخت پوری دنیا میں ایک انڈسٹری کی حیثیت رکھتاہے جس حوالے سے صوبائی اور مرکزی حکومت نے کئی منصوبوں کا اعلان بھی کیا تھا لیکن عملاً اُس پر کچھ نہیں ہوا۔
نوشین فاطمہ کے مطابق دہشت گردی کے لہر میں ضم قبائلی اضلاع میں گھر کے کمائی والے مرد مارے گئے یا معذور ہوئے یا جبری طور پر گمشدہ ہوگئے جس کی وجہ سے گھر کے ضروریات پورا کرنے کے لئے خواتین پر ذمہ داریاں بڑھ گئی ہے۔ اُن کے بقول اورکزئی میواجات اور راویاتی خوراک کے لئے کافی مشہور ہے لیکن ان کو مارکیٹ کرنا اور کمائی کا ذریعہ بنانے کے لئے خواتین کو تربیت، رہنمائی، آسان شرائط پر قرضے فراہم کرنے کے ساتھ مارکیٹ سے جوڑنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
بہت ہی authentic معلومات اور دلائل کیساتھ تحریر لکھی ہے۔
بہت کچھ سیکھنے کو ملا
گو ڈ جاب سر