ضلع باجوڑ کے بلند و مشہور پہاڑی چھوٹی کیمورکے دامن میں بانڈہ نامی گاؤں میں رہائش پذیر 64سالہ گل محمد کے معاشی زند گی کا دارومدار آب ہوا کے ساتھ منسلک ہے۔ کیونکہ وہ پچھلے 42سالوں سے کیمور کے جنگلات میں بہار کے موسم میں جنگلی مشروم کی ایک قیمتی قسم(گچی) کو اکٹھا کر کے فروخت کر تے ہیں جس سے اس کو معقول معاوضہ ملتا ہے۔ لیکن چند سالوں سے خشک مو سم کی وجہ سے اس کے پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی آمدن میں 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

گل نے بتایا ” وہ 8 سال پہلے ایک سیزن میں 30 سے40 کلو گچی اکٹھا کرتا تھا اور فی کلو 12سے 13ہزار روپے میں فروخت کرتا تھا۔لیکن پچھلے سال میں انہوں نے 3 کلو گچی اکٹھا کیا ہے جو نہ صرف ان کی لئے بلکہ کے ان کی پوری خاندان کے لئے تشویش کی بات ہے”۔ ان کے کا کہنا تھا کہ اس کام میں ان کے ساتھ ان کے خاندان کے دیگر افراد جس میں بچے بھی شامل تھے حصہ لیتے تھے کیونکہ یہ گچی ہمارے گاؤں کے آس پاس کے جنگل میں ملتا تھا اور یہ ایک گھریلو کاروبار تھا جو ہمارے معاش کا ایک اہم زریعہ تھا۔

گل کے مطابق نہ صرف ان کا خاندان اس سے وابستہ تھا بلکہ ان کے علاقے کی آبادی تقریبا 500 گھرانوں پر مشتمل ہیں اور وہ سب لوگ گچی کو موسم بہار میں اکٹھا کرتے تھے اور ہر ایک گھرانے کو ایک لاکھ تک آمدن ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ گچی ہم گھروں میں کھبی کبھار ترکاری کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

صدیق آباد تحصیل خار کے رہائشی 55سالہ محمد اللہ نے ہمارے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو گچی کا کاروبار اپنے آبا آجداد سے وراثت میں ملا ہے۔ اس کا پوراخاندان خود بھی گچی جنگلات سے اکٹھا کر تا ہے اور دوسرے لوگوں سے بھی خرید تا ہے۔ چند سال پہلے وہ 400 کلو تک سالانہ گچی جمع کرتا تھا لیکن رواں سال انہوں نے کل صرف پانچ کلو گچی جمع کیا ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گچی ایک قدرتی خزانہ ہے۔ یہ پہاڑوں میں رہنے والے لوگوں کے لئے ایک گھریلو کاروبار تھا۔ لیکن اب یہ کاروبار بھی اسی طرح نہیں رہا۔ محمد کے مطابق "جنگلات کی رقبے میں کمی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ یہ زیادہ تر جنگلات میں اگتی ہے لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہم سے یہ خزانہ واپس چھین لیا ہے”۔

پاکستان میں گچی کی سب سے بڑی منڈی خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں ہیں۔ جہاں سے پھر اندرونی ملک اور بیرونی ممالک کو اس کی برآمد ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کے سالانہ پیداوار کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ ہم نے اس حوالے سے سوات میں گچی کے ڈیلروں سے جب رابطہ کیا تو انہوں نے اس بارے کچھ بتانے سے مغذوری ظاہر کی۔

تاہم باجوڑ خار میں 32سالوں سے گچی کا کاروبار کرنے والے حاجی آمیر رحمن نے بتایا کہ ان کا والد اور دادابھی گچی کا کاروبار کرتا تھا اس لئے یہ ان کا ایک خاندانی کاروبار بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ” پہلے سالوں میں وہ 400سے لیکر 450کلو تک ایک سیزن میں گچی خریدتا تھا جو ان کو باجوڑ کے علاقوں کمانگرہ، ماموند سپرے، سلارزوں سروونو، پشت، لیٹی، کیمور،برنگ سمیت دیگر علاقوں سے لوگ لاتے تھے اور وہ ان سے 14000ہزار روپے پر فی کلو خریدتا تھا اور ان کا کاروبار خوب چل رہا تھا لیکن پچھلے آٹھ دس سالوں سے اس میں کمی آئی ہے اور رواں سیزن میں انہوں نے صرف 30کلو گچی خریدا ہے جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں کافی کم ہے”۔

امیر کے مطابق موسم بہار کے گچی کی کوالٹی اچھی ہوتی ہے اور وہ ان کو 14000پر کلو خریدتے ہیں جبکہ گرمیوں کے سیزن کی گچی کو 8000ہزار پر خریدتے ہیں۔ امیر نے بتایا کہ مگوو رہ سوات میں اس کی بڑی منڈی ہے۔ہم وہاں فرخت کرتے ہیں جہاں سے پھر یہ بیرونی ممالک کو جاتا ہے۔ امیر نے کہا کہ باجوڑ کے دوسرے گچی کے کاروباری لوگوں نے یہ کاروبار چھوڑ کر دوسرے کاروبار شروع کئے ہیں جبکہ ان کا کاروبار بھی ختم ہونے کے قریب ہے لیکن اپنی بزرگوں کی نشانی ہونے کی وجہ سے انہوں نے گچی کا کاروبار جاری رکھا ہے۔

امیر نے مزید بتایا کہ ان کے خیال میں گچی کے قیمتی ہونے کی وجہ اسکا دوائی کے طور پر استعمال ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس اکثر لوگ آتے ہیں اور ہم سے گچی کے چند دانے مانگتے ہیں جب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کس چیز کے لئے آپ کو چاہئے تو وہ بتا تے ہیں کہ گھر میں آنکھوں کی بیماری ہے مریض کے آنکھوں میں اس کے پانی نچھوڑتے ہیں کیونکہ اس سے شفانصیب ہوتی ہے۔ تو گھروں میں لوگ رویاتی طور پر بھی اس کا استعمال کرتے ہیں۔

گچی کے بارے میں عام طور پرکہا جاتا ہے کہ کے اس کا استعمال صحت لئے بہت مفید ہے۔ اور مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے ادویات میں اس کاا ستعمال کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں جب باجوڑ کے ممتاز حکیم مشتاق احمدسے ہم نے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ گچی میں اللہ تعالیٰ نے کمال کی خصوصیات رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا استعمال نہ صرف طب یونانی میں ہوتا ہے بلکہ ایلوپیتھی کے ادویات میں بھی اس کا استعمال کیاجاتا ہے۔ مشتاق کے مطابق گچی کو ” پنسیلین، مردانہ طاقت، آنکھوں کی بیماریوں، کینسر اور دوسرے کئی ادویات میں استعمال کیا جاتاہے لیکن انہوں نے صرف معجون میں اس کا ااستعمال کیا ہے جبکہ دوسرے ادویات میں اس کا استعمال نہیں کیا "۔
دوسری بات یہ ہے کہ گچی اب بہت منگی ہوچکی ہے اس لئے اس کے دوائیاں بھی بہت منگی ہوتی ہے۔اور یہاں پر لوگوں مہنگے دوائیاں خرید نہیں سکتے۔

گل کو موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں لیکن ان کے بقول پچھلے 10سالوں سے آہستہ آہستہ گچی کی پیداوار میں کمی آرہی تھی اور اب حالت یہاں تک پہنچی ہے کہ رواں سال انہوں نے صرف آدھا کلو گچی اکٹھا کیا ہے اور یہی حالت سارے گاؤں والوں کا ہے۔ ان کے مطابق چیڑ کے درختوں سے جب پتے اور شاخیں گرتے ہیں تو اس سے نیچے قدرتی طور پر کھاد بن جاتی ہے اور جب بارشیں ہوتی ہے تو اس میں گچی زیادہ مقدار میں اگتی ہے لیکن اگر ایک طرف جنگلات کی بے دریع کٹائی سے اس کا رقبہ انتہائی کم ہوا ہے تو دوسری طرف پچھلے کئی سالوں سے بارشیں کم ہوئی ہے اور بے وقت ہوتی ہے جس کی وجہ سے پیداوار پر کافی منفی اثرات پڑے ہیں۔

سوات زرعی ریسرچ انسٹیٹو ٹ کے سینئرسوئل فرٹلٹی سائینٹسٹ و ماہرموسمیات ڈاکٹر روشن علی کے مطابق اگر ہم 2008 سے 2021تک ملاکنڈ ڈویژن کے موسم کا ڈیٹا لیں تو اس میں بہت فرق آیا ہے۔ پہلے یہاں پر درجہ حرارت کم ہوتا تھا اور بارشیں زیادہ ہوتی تھیں جس سے مو سم خوشگوار رہتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ان کے مطابق ” 2008تک بارشیں اپنی وقت پر ہوتی تھی اور1240mm ملی میٹر اوسطا بارشیں ریکارڈ کی گئی تھیں اورکم از کم درجہ حرارت 5C اورزیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15سے 19سنٹی گریڈ تک ہوتا تھا لیکن اس میں آہستہ آہستہ کمی آئی اور 2014میں 733.58mm بارشیں ہوئی اوررکم از کم درجہ حرارت منفی 1.03C اورزیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 21.37Cرہا۔ جبکہ 2021میں 394.7mm بارشیں ہوئیں،کم از کم درجہ حرارت-1C اورزیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 41.6C رہا۔”

ڈاکٹر رشن علی نے بتایا کہ مو سم میں اس غیر متوقع تبدیلی کے وجہ سے دوسرے فصلوں کے پیداوار کے ساتھ گچی کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے اور اس میں آئندہ مزید کمی کا خد شہ ہے۔

گل کا کہنا تھا کہ گچی ان کے لئے ایک گھریلو کاروبار تھا لیکن اب ان کو مالی طور پر کافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ اب نہ صرف وہ بلکہ گاؤں کے دوسرے افراد محنت مزدوری کے لئے کراچی، لاہور، راولپنڈی سمیت ملک دوسرے شہروں کو جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس مہنگائی کے دور میں گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔

گل نے مزید کہا کہ گچی کے کاروبار میں ان کو وسیع تجربہ ہے اس لئے حکومت ان کے ساتھ اس سلسلے میں مدد کریں۔ اس کے علاوہ حکومت کو چاہئے کہ کیمور اور دوسرے پہاڑوں میں قدرتی جنگلات کی تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائیں اور عوام بھی جنگلات کی کٹائی سے اجتناب کریں تاکہ گچی کی پیداوار میں اضافہ ہو سکیں اور ہمارا یہ گھریلو روزگار بحال ہو سکیں۔

ضلع باجوڑ کا کل رقبہ 1,290 km² ہیں۔ جس میں 470000ایکڑ رقبے پر محکمہ جنگلات باجوڑ نے جنگلات لگائے ہیں۔ اسی طرح 40000ایکڑ رقبے پر پہاڑاور قدرتی جنگلات ہیں۔ باجوڑ کے کیمور پہاڑ، ارنگ، علیزو بتائی، سلارزوں باٹوار، ماموند کے بالائی علاقوں اور چارمنگ کے پہاڑی علاقوں میں قدرتی جنگلات موجود ہے۔

ضلع باجوڑ کے ایک اہلکار کے نے بتایا کہ انہوں نے باجوڑ کے مختلف علاقوں میں قدرتی جنگلات کے تحفظ کے لئے علائی سطح پر کمیٹیاں قائم کی ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ جنگلات قدرتی جنگلات میں تخم ریزی بھی کررہا ہے تاکہ جنگلات میں اضافہ ہو۔ جس میں دوبارہ گچی کی افزائش ہو سکیں اور پیداوار بڑھ جائیں۔

ضلع باجوڑ کے محکمہ نان ٹیمبر فارسٹ پراڈکٹس (NTFP) کے سینئر سپروائزر گل بادشاہ نے بتایا کے اس میں کوئی شک نہیں کہ مو سمیاتی تبدیلی کے وجہ سے بارشوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور گچی کی پیداوار متاثر ہوئی ہے لیکن ہمارے علاقے میں جنگلات کی کٹائی بھی زیادہ ہوئی ہے جس سے ماحولیات پر منفی اثر پڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا نہیں ہے کہ پاکستان، خیبر پختون خواہ یا ضلع باجوڑ میں کتنے لوگ گچی کے کاروبار سے وابستہ تھے اور یا اب کتنے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے اس میں کمی آئی ہے جس کے وجہ سے لوگوں کی معاشی زندگی پر اس کے برے ا ثرات ہوئے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب ان کا محکمہ مشروم کے ایک ایسے قسم زمینداروں اور بے روزگار افراد میں تقسیم کررہے ہیں۔جس سے کم وقت میں زیادہ پیداوار لیا جا سکتا ہے۔

گل بادشا نے کہا کہ دو سال پہلے ا نہوں نے 300مشروم کے تخم کے تیار بیگز اور اس کے رکھنے کے سٹینڈز زمینداروں اور بے روزگار نوجوانوں میں تقسیم کئے جس نے اچھی پیداوار دی تھی تو ہم اب اس کو آئیندہ سال بھی دینگے اور ساتھ ہی بیگز کے تعداد بڑھائینگے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکیں۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں