پشاور کے قصہ خوانی اور شاہین بازار کے سنگھم پر ایک چھوٹی سے قراقلی ٹوپی کی دوکان میں ایک گدی پر گہرے سوچ میں ڈوباہوا بیٹھا 62سالہ سیف مہمند گاہکوں کا راہ دیکھ رہا ہے۔ سیف مہمند کو اپنے روزگار کی فکر لاحق ہے کیونکہ قراقلی ٹوپی کا استعمال ختم ہونے کے قریب ہے۔ تین عشرے پہلے پشاور میں 50تک قراقلی ٹوپی کے دوکانات تھے جو وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ کم ہو کر اب صرف 2 دو رہ گئے ہیں۔ قراقلی ٹوپی کے استعمال میں غیر معمولی کمی کے وجوہات مختلف لوگ مختلف بیان کر تے ہیں۔
ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والا ممتاز ماہر تعلیم اور پچھلے 60سالوں سے قراقلی ٹوپی کا استعمال کرنے والا حبیب رسول صافی کہتے ہیں کے اس کے قیمتوں میں انتہائی ضافہ ہوا جس کے وجہ اس اس جیسے شوقین بندے کے لئے بھی اس کا استعمال کرنا انتہائی مشکل ہوا ہے کیونکہ انہوں 100روپے سے لیکر 300روپے تک قرقلی ٹوپی خریدا ہے لیکن اب اس کے قمتیں پانچ ہزار سے لیکر 50ہزار تک ہے جو عام لوگوں کے قوت سے باہر ہیں۔
سیف مہمند کہتے ہیں کے قراقلی ٹوپی کے دو اقسام ہیں ایک کو جناح کیپ جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح استعمال کر تا تھا اور اسی وجہ سے اس کا نام جناح کیپ پڑا گیا جبکہ دوسری کو پشاوری ٹوپی کہا جاتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کے چند سالوں تک قبائلی علاقوں سے زیادہ تعداد میں لوگ آتے تھے کیونکہ وہاں پر قراقلی ٹوپی کا استعمال زیادہ ہوتا تھا اور وہاں کے مشران اور علماء اس کو فخرکے نشانی سمجھتے تھے۔ لیکن اب وہاں کے لوگوں نے بھی اس کا استعمال بہت حد تک کم کیا ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی طرح پنجاب سے بھی اس کے ہاں گاہک آتے تھے اور اس سے تھوک پر خرید تے تھے اور اس کو یورپ تک بھیجتے تھے لیکن وہاں سے بھی اب اس کا ڈیمانڈ نہیں آرہا۔
قراقلی ٹوپی کے تاریخی پس منظر کے بارے میں کسی کو صحیح معلومات نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کا استعمال روس اور ترکی میں ہوتا تھا اور وہاں سے یہ افعانستان کو منتقل ہوا اور وہاں کے سرداروں نے اس کا استعمال شروع کیا اور اسی طرح عام لوگوں میں اس کا رواج ہوا۔ اور پھر یہ پاکستان تک پہنچ گیا۔ روس اور ترکی میں قراقلی ٹوپی کا استعمال اس لئے زیادہ ہوتا ہے کہ وہاں پر سال کے اکثر مہینوں میں موسم ٹھنڈا ہو تاہے۔
قراقلی ٹوپی بھیڑ کے نوزائیدہ بچے کے چمڑے یعنی کھال سے بنائے جاتے ہیں جس کو لوگ پوست بھی کہتے ہیں۔ یہ پوست افغانستان کے شمالی علاقوں کندوز، بلخ اور فاریاب سے آتے ہیں۔ جب بھیڑ کا بچہ پیدا ہو جائے تو اس کو اسی وقت ذبح کیا جاتا ہے اور اس سے کھال یعنی پوست نکالا جاتا ہے جس کو قراقلی ٹوپی بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا۔ اسی وجہ سے بغض لوگ قراقلی ٹوپی کو ظلم کی نشانی سمجھتے ہیں لیکن حبیب رسول صافی کہتے ہیں کہ اگر اس پر اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ آمدن کا زریعہ ہے اور اگر یہ بھیڑ کا بچہ اگر بڑا ہو جائے اور پھر اتنی قیمتی نہیں ہوتی تو اس کو پیدائش کے دوران ذبح کرنا جائز ہے۔
قراقلی ٹوپی کے پوست پانچ مختلف رنگوں میں دستیاب ہیں جس پر قدرتی طور پر ایک مخصوص پھول جیسا ڈیزائن بنا ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ قیمتی اس کا بادامی رنگ ہوتاہے۔جو افغانستان کے شمالی علاقوں سے آتے ہیں وہاں پر اس کے لئے مخصوص بھڑیں ہیں جو اس کیلئے لوگ پالتے ہیں۔
جس طرح قراقلی ٹوپی کا استعمال انتہائی کم ہوا ہے اسی طرح اس کے کاریگر بھی اب نہیں ملتے۔
سیف مہمند کے مطابق اس کے پہلے زیادہ کاریگر تھے جو اب عمر رسیدہ ہوچکے ہیں اور کچھ نے یہ کام چھوڑ دیا ہے کیونکہ موجودہ مہنگائی کے دورمیں اس کے لئے اس میں حلال روزی کمانا آسان نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ انہوں اپنا یہ فن اپنے آئندہ نسلوں کو بھی منتقل نہیں کیا کیونکہ اس میں اس کا معاشی زندگی کچھ اچھی نہیں گزری ہے۔ موجود وقت میں اگر ایک طرف قراقلی کی قمتیں زیادہ ہوئی ہے تو دوسری طرف نوجون نسل میں اس کے استعمال کا رواج نہیں ہے۔