پچھلےسال پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خواہ کے جنگلات میں غیر معمولی طور پر آگ لگنے کے واقعات رونماہوئے تھے جس میں نہ صرف ایک وسیع رقبے پر جنگلات کو نقصان پہنچا بلکہ اس میں کئی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئے تھیں ۔ اس آگ کے کئی وجوہات تھے لیکن ماہرین کے مطابق اس میں سب سے اہم وجہ موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ تھا جس کی وجہ سے خیبر پختون خواہ کی شمالی علاقوں میں جنگلات میں آگ بھڑکنے کی واقعات پے درپے رونما ہوئے۔

قبائلی ضلع باجوڑ کے ریسکیو 1122 کے ترجمان عبداللہ کے مطابق باجوڑ میں 2020 سے اب تک جنگلات میں آگ لگنے کے 8 اٹھ واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں 5 ناواگئی تحصیل، 2 برنگ تحصیل اور ایک واقع تحصیل سلارزئی کے ماندلو ٹاپ کے جنگلات میں پیش آیا تھا۔ باجوڑ میں تحصیل ناواگئی کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے ایک شخص جاں بحق ہوا تھا۔

سال 2022 صرف جون اور مئی کے مہینوں میں خیبرپختون خواہ کے جنگلات میں آگ لگنے کے 402 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ محکمہ ریلیف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں 313 اور جون میں 89 مقامات پر جنگلات میں آگ لگی، جنگلات میں آگ لگنے کے سب سے زیادہ 129 واقعات ایبٹ آباد میں رپورٹ ہوئے ہیں تھے۔رپورٹ کے مطابق اسی طرح مانسہرہ 55، لکی مروت 29، ڈی آئی خان 39 اور سوات میں 24 مقامات پر جنگلات میں آگ لگی تھی۔

صوبہ خیبر پختون خوا کے انوارمینٹل جرنلسٹ کے لئے مئی 2024 میں منعقدہ ایک ورکشاپ میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سال 2023 میں خیبر پختونخوا میں جنگلات میں لگنے والی 210 سے زائد آگ کے واقعات نے 14 ہزار 430 ایکڑ زمین کو تباہ کیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ان میں سے 55 آگ مقامی لوگوں نے جان بوجھ کر لگائی تھی، اسکا حوالہ محکمہ جنگلات خیبر پختونخوا کی رپورٹ میں دیا گیا ہے۔

پچھلے سال کے اس غیر معمولی جنگلات کے آگ نے حکومت کے ساتھ ساتھ ماحول کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے لوگوں اور اداروں کو بھی تشویش میں مبتلا کیا تھا اور انہوں نے حکومت سے اس کے روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔

جنگلات میں چند سالوں سے آگ لگنے کے غیر معمولی واقعات کے بارے میں فارسٹ کنزرویشن کے ماہر حیات علی کے مطابق جہاں پر جنگل ہوگی وہاں پر آگ ہوگی ہے یہ دونوں لازم وملزوم ہے۔ انہوں نے ہمیں ان کے مختلف وجوہات بیان کئے اوراس کے روک تھام کے لئے وزارت جنگلات خیبر پختون خواہ کی اقدامات کا بھی ذکر کیا ۔

جنگلات میں آگ لگنے کے وجوہات :
آگ کا سیشن مئی کے وسط سے شروع ہوتا ہے اور جون جولائی اور اگست تک ہوتی ہے ۔ مئی اور جون میں پتوں کا گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ براڈ ہود اور نیڈل شیف فائن فارسٹ میں چیڑ کے درختوں میں زیادہ میں مقدار میں پتے گرنے شروع ہوتے ہے ۔ یہ جنگلات 25 سو فٹ سے لیکر زیادہ تر 3 ہزار سے لیکر 4 ہزار کے بلندی پر ہوتے ہیں اور یہ باجوڑ سے لیکر سوات ، کوہستان ، بٹگرام اور مانسہرہ تک ہوتے ہیں۔

جب اس سے پتے گرنے شروع ہو جاتے ہیں تو نیچے زمین پر اس سے ایک تہہ بن جاتا ہے ۔ پھر اس میں آگ لگنے کے لئی وجوہات ہوتے ہیں ۔اج کل موسمیاتی تبدیلی آئی ہے تو اس وجہ سے گرمی بھی زیادہ یوتی ہے ۔ اس میں اگ لگنے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ یہ پتے پھر اگ کے لئے بہت حساس ہوتے ہیں۔ تو جب پہاڑ سے بڑی پھتر گرتے ہے تو اس کے آپس میں ٹکرانے سے ایک چنگاری پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے اگ بھڑک اٹھتی ہے۔

اس طرح ایک آدمی کےجنگل میں گھومنے کے دوران سیگرٹ کے فیلٹر پیھنکنے سے اگ بھڑک اٹھی ہے۔ جبکہ آج کل وہ جنگلات تو نہیں ہے کہ اس میں آبادی نہ ہو کیونکہ آج کل تو جنگلات میں آبادی زیادہ ہوچکی ہے اس لئے جنگلات مین رہنے والے لوگ اپنے جانوروں کے لئے کبھی کھبی چارہ کے لئے گھاس میں جانور چرانے کے بعد اس کو جلاتے ہیں جس کے وجہ سے اس کے جانوروں کے لئے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس میں پھر اچھی گھاس اگتی ہے۔ لیکن کبھی کھبی یہ اگ اس سے بے قابو ہو کر پورے جنگل میں پھیل جاتا ہے۔جس کے وجہ سے جنگلات کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔

جنگلات میں آگ لگنے کے نقصانات:
جنگلات میں اگ لگنے کے کئی نقصانات ہوتے ہیں اس سے سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوتی ہے کہ اس سے جنگلات کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور جنگلات کا رقبہ کم ہوتا ہے جب کے دوسری طرف اس سے جنگلی حیات مر جاتے ہیں اوراس کے نسل ناپید ہوتے ہیں جو ماحولیاتی تنوع کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ جنگل کے اگ کے ماحول پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ ویسے بھی پاکستان میں جنگلات کا رقہ انتہائی کم ہے اور اگر اسی طرح اس میں اگ بھڑکنے کے وقعات ہوتے ہیں تو اس میں مزید کمی واقع ہوتی ہے اور موسم میں مزید شدت پید ہوتی ہے جس سے ہمارے زندگی کے ہر پہلو متاثر ہو رہی ہے۔

جنگلات میں آگ کے روک تھام کے لئے تدابیر:
اس کے روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر کئی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جس میں لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لئے اگاہی سیشنز کرائے جاتے ہیں ۔ مختلف قسم کے پمفلٹ تقسم کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاں پر جنگلات میں آگ لگنے کے وقعات کا خدشہ ہو ں تو وہاں پر فائر وال بھی بنایا جاتا ہے یعنی وہاں ہر ایک خندق بنایا جاتاہے تو پھر اگ اس سے اگے نہیں جاتا۔ اور اسی طرح اس پر قابو پایا جاتا ہے۔

جنگلات میں آگ لگنے کے مرتکب افراد کے خلاف قوانین:
اس کے لئے وہی قوانین استعمال کیا جاتا ہے جو جنگلات کی کٹائی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں مختلف قسم کے پرچے کٹے جاتے ہیں ۔ اس کے مرتکب افراد کو جرمانے کے ساتھ ساتھ دو سے تین سال تک سزائے بھی ہوتی ہے۔

اگر ایک طرف موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے پاکستان اور ملاکنڈ ڈویژن متاثر ہورہا ہے تو دوسری طرف اس سے نمٹنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے ماہرین نے ماحولیات و موسمیات کے مطابق اسی طرح کے اقدامات کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہیں اور اس میں مقامی کمیونٹی کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تاکہ جنگلات کی تحفط یقینی بنایا جا سکیں اور مستقبل میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کی سدباب ہو سکیں۔

محکمہ جنگلات کی اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 میں 815 ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات آگ کے مختلف واقعات کے وجہ سے خاکستر ہو گئے تھے۔

یاد رہے کہ 2021 اور 2022 میں جنگلات کے رقبے کو آگ سے پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں اعداد و شمار معلوم کرنے کے لئے محکمہ جنگلات کے ساتھ رابطے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں