قبائلی ضلع کرم شعیہ سنی فسادات میں مرنے والوں کی تعداد 31 جبکہ 70 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ تحصیل اپر کرم بوشہرہ اور احمدزئی میں ایک دوسرے کے حدود میں مورچیں بنانے کے تنازعات پر شروع ہونے والی جھڑپوں نے پورے ضلع کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے، دونوں فریقین کی جانب سے جاری جھڑپوں میں بھاری اسلحہ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چھ روز سے جاری جھڑپوں میں صدہ اور پاڑہ چنار شہر کو میں نامعلوم سمت سے آنے والے مارٹر گولے اور میزائل نے بڑے پیمانے مالی نقصان کیا ہے۔ مین شاہراہِ ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کر دی گئی ہے۔
وزیر اعلی خیبر پختونخوا سردار علی امین گنڈاپور نے اس واقعہ کا نوٹس لینے کے بعد محکمہ داخلہ و قبائلی امور، کمشنر کوہاٹ اور آر پی او کوہاٹ نے دونوں فریقین کے درمیان جرگہ منعقد کیا۔ لیکن جرگہ امن بحالی میں ناکام ہوگیا ہے اور تاحال جنگ جاری ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق اپر کرم کے گاؤں بوشہرہ قبائل جوکہ اہل سنت کا علاقہ ہے اور اہل تشیع کے گاؤں احمد زئی قبائل ایک دوسرے کے حدود میں مورچوں کی تعمیر کے تنازعے پر جھڑپ شروع ہوئی جو ایک ہی میں دن میں ضلع کرم کے مختلف علاقوں تک پھیل گیا۔
گزشتہ رات ضلع کے پیواڑ جوکہ اہل تشیع علاقے ہے اور تری منگل جو کہ اہلسنت کا علاقہ ہے اسی طرح بغکی اہل تشیع اور خومسہ اہلسنت، کننج علیزئی اہل تشیع اور مقبل اہل سنت اورسنگینہ بالیشخیل جوکہ اہل تشیع کا علاقہ ہے، خار کلہ صدہ جوکہ اہل سنت کا علاقہ ہے کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔
ضلع کرم سے منتخب ممبر قومی اسمبلی انجینئر حمید حسین نے حالیہ جھڑپوں کے حوالے سے کہا ہے کہ ضلع میں موجود تمام ذمہ دار ادارے چھڑپوں کو ختم کرنے اور فوری طور پر امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فوری اقدامات اٹھائے تاکہ مزید جانی نقصانات سے علاقے کو بچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ جنگ بندی میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے انہوں نے الزام عائد کیا کہ انتظامیہ نہیں چاہتی کہ کرم میں امن ہو۔
اسی طرح طوری بنگش قبائل کے رہنما اور سکریٹری انجمن جلال حسین بنگش نے علاقے میں بدامنی کے مرتکب اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کرنے والے عناصر کے خلاف اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ معمولی تنازعات پر ہونے والے فائرنگ کے واقعات ضلع بھر میں پھیلانے والوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑا چنار کے ایم ایس ڈاکٹر میر حسن کے مطابق پچھلے چھ دنوں سے اپر کرم کے مختلف جنگ زدہ علاقوں سے ڈی ایچ کیو کو 15 افراد جاں بحق جبکہ 41 افراد زخمی لائے گئے ہیں، جن میں متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک جن کو پشاور کے ہسپتالوں کو منتقل کرنا ضروری ہے لیکن راستوں کی بندش کی وجہ سے اننکا علاج پاڑہ چنار میں ہی جاری ہے۔ ان کا کہنا کہ ڈی ایچ کیو میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے تمام عملہ کے چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہے۔
تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال صدہ کے ایم ایس ڈاکٹر رحیم گل کے مطابق لوئر کرم میں جاری جھڑپوں میں اب تک ایک خاتون اور ایک پولیس کنسٹیبل سمیت 16 افراد جاں بحق اور پانچ خواتین سمیت 30 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں متعدد افراد کی حالت تشویشناک ہے۔
چھڑپوں کی وجہ سے ضلع کرم میں تمام تعلیمی ادارے اور بازاریں مکمل طور پر بند ہے۔ راستوں کی بندش کی وجہ سے علاقے میں اشیائے خورد نوش اور ادویات کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔
سدہ کے رہائشی عبدالقادر کے کہنا ہے کہ سدہ اور ساتین پر اب تک 400 سے زیادہ میزائل اور موٹر گولے داغے گئے ہیں جس کی وجہ سے پانچ گھروں میں محصور خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس میں اب تک 6 خواتین زخمی اور ایک حاملہ خاتون جاں بحق ہوگئی ہے اس طرح درجنوں مال مویشی بھی جان سے گئے ہیں۔
مقامی صحافی اسلام گل کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف گستاخانہ مواد شیئر کرنے کی وجہ سے حالات مزید خراب ہورہے ہیں انہوں نے کہا کہ دن کے وقت جرگہ عمائدین سیز فائر کے اعلانات کرتے ہیں جبکہ رات کو شدید لڑائی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق حکومت نے ابھی تک امن کی بحالی کیلئے سنجیدگی کے ساتھ اقدامات نہیں اٹھائے جس کی وجہ سے امن بحالی میں مشکلات کا سامنا ہے۔