انورزیب

آٹھائس فروی 2024 کو بننے والی خیبر پختونخوا اسمبلی تاحال اقلیتوں کی نمائندگی سے محروم ہے۔ 145 اراکین پر مشتمل ایوان میں 4 نشستیں اقلیتوں کیلئے مختص ہیں جو سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے درمیان رسہ کشی کے باعث ابھی تک خالی ہیں۔

ایوان میں نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے ہندو، مسیحی، سکھ، کیلاشی اور بہائی سمیت تمام اقلیتوں کے مسائل جوکہ توں ہیں۔ سابق معاون خصوصی برائے اقلیتی امور وزیر ذادہ کے مطابق گزشتہ دور حکومت میں جو منصوبے شروع کئے تھے ان تمام منصوبوں پر کام 2022 کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے پر رک گیا ہے۔ اقلیتی لوگ در بدر ہیں انکے کیلئے بولنے والا کوئی نہیں۔

"دسمبر 2022 میں جب حکومت ختم ہوئی تو اقلیتوں کے بچوں اور بیواووں کیلئے وظائف کا جو منصوبہ شروع تھا وہ بھی ختم کردیا گیا”۔

وزیر ذادہ کہتے ہیں تاریخ میں پہلی مرتبہ کیلاش میرج ایکٹ تیار کیا گیا جو کیلاش قبیلہ کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے تاہم اسمبلی میں اقلیتی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ بل لاء ڈیپارٹمنٹ میں پڑا ہے۔ یہی حال ہندو میرج ایکٹ کا بھی ہے۔

خیبر پختونخوا کے اقلیتوں میں سب سے زیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے اور اس برادری کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ بائس ستمبر 2013 کو ہونے والے آل سینٹس چرچ دھماکے کے متاثرین اقلیتی ارکان اسمبلی نہ ہونے کی وجہ سے مالی امداد سے محروم ہیں۔ اس دھماکے میں تقریبا 100 افراد جانبحق اور 80 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت کے صوبائی اور وفاقی حکومت نے متاثرین کیلئے 10، 10 کروڑ روپے کا اعلان کیا تھا جو اس وقت محکمہ اوقاف خیبر پختونخوا کے اکاونٹ میں پڑے ہیں۔

وزیر ذادہ نے بتایا کہ چرچ متاثرین کو رقم تب ملے گی جب اسمبلی میں اقلیتی ارکان ہونگے کیونکہ خیبر پختونخوا ریہیبلٹیشن آف مایناریٹیز انڈومنٹ فنڈ ایکٹ 2020 رولز کے مطابق اقلیتوں کے چار ایم پی ایز اس کمیٹی کے ممبرز ہونگے جو متاثرین کو امداد دینے کا فیصلہ کریگی۔ ایکٹ کے مطابق کمیٹی کا چئیرمین بھی مشیر، ایڈوائرز یا وزیر برائے اقلیتی امور ہوگا۔

سکھ رہنما اور الیکشن کمیشن کی جانب سے باقاعدہ اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والے بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں، گزشتہ کئی سالوں سے اقلیتی برادری نمائندگی سے محروم ہے۔ 2018 میں بننے والی حکومت بھی وقت سے پہلے ختم ہوگئی۔ پھر نگران حکومت میں بھی اقلیتوں کو خاطر خواہ نمائندگی نہیں ملی۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں اس وقت سب سے زیادہ مسائل کا سامنا سکھوں کو ہے، گزشتہ دو سال کے دوران اٹھارہ سکھوں کو ٹارگٹ کیا گیا، تین سو سے ذائد خاندان پشاور چھوڑ کر ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ 195سے ذائد خاندان مجبورا ہندوستان مائگریٹ ہوگئے، یہ مسائل تب حل ہونگے جب صوبائی اسمبلی میں اس پر بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے سیکھ اور ہندو برادری شمشان گاٹ سے محروم ہے اس طرح مسیحی برادری کو قبرستان کے مسئلے کا سامنا ہے۔ میریج ایکٹ سمیت بہت سارے مسائل ہیں جو قانون سازی کے بغیر حل نہیں ہونگے۔ گورپال سنگھ کے مطابق اقلیتی نشتوں پر نمائندے نہ ہو تو اسمبلی پوری نہیں سمجھی جاتی، نہیں معلوم کیوں آئین پر عمل دارآمد نہیں ہورہا۔

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم کے مطابق سپریم کورٹ نے اقلیتی نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ کیا ہے جس پر عمل دارآمد نہیں ہورہا۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا "اسمبلی ہم سب کا مشترکہ جرگہ ہاوس ہے، یہاں اقلیتوں کے نمائندے نہ ہونے پر افسوس ہے، یہ لوگ ایک آئینی حق سے محروم ہیں، وفاقی حکومت اور سپیریم کورٹ کو چاہئے کہ فیصلوں پر عمل درامد کریں،اقلیتوں کے مسائل اقلیتی نمائندے ہی حل کرسکتے ہیں”۔

اقلیتوں نشتوں کا معاملہ کہاں پر لٹکا ہے ؟

عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو پارٹی نشان نہیں ملا تاہم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت سے پاس ہوئے اور بعد میں سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے تاکہ مقررہ مخصوص نشتیں انکو مل سکے۔ تاہم سنی اتحاد کونسل نے خواتین اور اقلیت کی نشتوں کیلئے ترجیحی لسٹ جمع نہیں کی تھی جس کو جواز بنا کر الیکشن کمیشن نے نشستیں دوسرے سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق اقلیتوں اور خواتین کیلئے ترجیحی فہرست جمع کرنا ضروری ہوتا ہے۔

سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی حصول کیلئے 21 فروری کو الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔ تاہم چار مارچ کو الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کا فیصلہ سنا دیا۔

چار مارچ کو ہی الیکشن کمیشن نے چار میں سے تین اقلیتی نشستوں پر امیدواروں کا اعلامیہ جاری کردیا جن میں جمیعت علماء اسلام کے گورپال سنگھ، مسلم لیگ ن کے عسکر پرویز، اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بیری لال شامل ہیں

6 مارچ کو سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے الیکشن کمیشن کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تاہم 14 مارچ کو پشاور ہائیکورٹ نے یہ درخواست خارج کر دی۔

26 مارچ کو الیکشن کمیشن نے خالی اقیتی نشست پر جمیعت علماء اسلام کے گورپال سنگھ کی نوٹیفیکشن جاری کردی۔ تاہم یہ چار اقلیتی ارکان اسمبلی حلف نہیں لے سکیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے 2 اپریل سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس سننے کیلئے 31 مئی کو فل کورٹ تشکیل دیا۔ متعدد سماعتوں کے بعد 9 جولائی کو فیصلہ محفوظ کیا گیا فیصلہ 12 جولائی کو پاکستان تحریک انصاف کے حق میں سنایا گیا اور سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دینےے کا حکم دیدیا۔

سپریم اس فیصلے پر آج تک عمل درامد نہیں ہوا جس کے نتیجے میں خیبر پختونخوا اسمبلی اقلیتوں کی نمائندگی سے محروم ہے۔

2023 کے مردم شماری کے مطابق خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ 54 ہزار 927 ہیں۔ صوبے سب سے بڑی اقلیت مسیحیوں کی ہے جنکی تعداد 1 لاکھ 34 ہزار 884 ہیں۔ ہندو برادری کے 5 ہزار 473، سکھوں کی تعداد 4 ہزار سے ذائد ہے۔ مردم شماری کے مطابق پارسیوں، کیلاشیوں سیمت دیگر اقلیتوں کی تعداد 10 ہزار کے قریب ہیں۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں