دسمبرکا سرد مہینہ اور جمعرات کی دن صبح کے گیارہ بجے کا وقت ہے ۔ضلع باجوڑ کے صدیق آباد پھاٹک بازار کے ایک ہوٹل میں کام کرنے والا گیارہ سالہ سدیس ایک عوامی پانی کےٹینکی سے دوسرے ساتھیوں سمیت پانی کے کینز ( ٹاپکے )بھرنے میں مصروف ہیں۔وہ روزانہ صبح سات بجے کام پر آتا ہے اور شام ساڑھے چار بجے چھٹی کرتا ہے۔یہ ان کے پچھلے آٹھ ماہ سےمعمول ہے۔ اگر چہ یہ سدیس کے سکول جانے کا عمر ہے لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے انہوں نے چوتھی کلاس میں پڑھائی چھوڑ کر چار سو روپے روزانہ اجرات پر کام شروع کیا ہے۔ وہ کام کرکے گھر کے مالی امور میں اپنے والد کا ہاتھ بیٹھاتے ہیں۔
سدیس نے بتا یاکہ ان کے تین بہنیں اور دو بھائی ہے ان سب میں وہ بڑا ہے ۔ ان کا والد ایک مزدور کار آدمی ہے جو محنت مزدوری کے سلسلے میں کراچی شہر جاتا رہتا ہے اور وہاں مسافری میں سال دو سال گزارکر پھر گھر آتا ہے۔ لیکن مہنگائی کے اس مشکل دور میں گھر کے آخراجات پورے کرنا مشکل ہے اس لئے انہوں نے تعلیم ادھورا چھوڑ کر کام کرنا شروع کیا ہے ۔
پورے باجوڑ میں چائلڈ لیبر کے شکاربچوں کے بارے میں مکمل ڈیٹا موجود نہیں ہے لیکن باجوڑ میں کام کرنے والے بچوں کے اعداد و شمار کے حوالے سے چائلڈپروٹیکشن یونٹ ضلع باجوڑ کےفراہم کردہ معلومات کے مطابق باجوڑ کے چند بڑے تجارتی مراکز خار، راغگان، پشت اور قذافی میں کرائے گئے سروے کے مطابق ان تجارتی مراکز میں چائلڈ لیبر میں مبتلا بچوں کی تعداد 196 تھیں ۔ تاہم عنایت کلے ، صدیق آباد پھاٹک، ناواگئ ، تنگی ،لوئی سم، لغڑئی، کمرسر اور برخلوزو بازار سمیت باجوڑ کے دیگر چھوٹے بازار اس سروے میں شامل نہیں ہیں۔
ضلع باجوڑ کے ڈسٹرکٹ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے آفیسر برہان سلارزئی نے بتایا کہ خیبر پختون خوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 کو صوبائی حکومت نے پاس کیا تھا۔جس کا پورے صوبے میں نفاذ ہوا تھا ۔ لیکن جب قبائلی علاقوں کا صوبہ خیبر پختون خوا کے ساتھ انضمام ہوا تو اس کا اطلاق ضم اضلا ع میں بھی ہوا ۔ باجوڑ میں جنوری 2023 سے وہ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لئے کام کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کے قانونی حقوق اور ان کے تحفظ کے حوالے سے مدد فراہم کرتےہیں ۔ اس حوالے سے جب ان کو کوئی درخواست دیتے ہیں تو چائلڈ پروٹیکشن یونٹ اس پر فوری کاروائی کرتے ہیں اور متعلقہ محکمے سے رابطہ کر کے اس مسئلہ کو حل کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔
برہان کے مطابق ان کے ساتھ پچھلے ایک سال سے پچاس کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جس میں بارہ خواتین اور باقی مرد وں سے متعلق تھے۔ ان میں اٹھارہ کیسسز حل کئے ہیں ۔ جس میں مجرموں کو سزائیں بھی ہوئے ہیں جبکہ اٹھائیس کیسسز عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ ان کے ساتھ رجسٹرڈ کیسسز میں لڑکیوں کے حقوق کے خلاف ورزی کے حوالے سے تناسب کم ہے جس کی بنیادی وجہ معاشرتی روایات اور آگاہی کی کمی ہے۔
باجوڑ میں زیادہ رجسٹرڈکیسسز پر بروقت کاروائی کرنے کے وجہ سے باجوڑ تمام ضم اضلاع میں پہلی پوزیشن پر ہیں۔ ان کے پاس پورے باجوڑ کے کیسسز رجسٹرڈ ہوئے لیکن زیادہ تر ان کے پاس تحصیل خار کے کیسسز ہیں کیونکہ خار کی آبادی دوسرے تحصیلوں کے مقابلے میں زیادہ ہے اور یہاں پرتعلیمی شرح بھی دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔
احمد خان بھی ان بچوں میں شامل ہے جو مالی مشکلات کے وجہ سے کم عمری میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ وہ بھی ہوٹل میں کام کررہا ہے اور اس کی زمہ داری بھی ہوٹل کے پانی کی ضرورت کو پورا کرنا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھی اپنے پانی کے کینز (ٹاپکے )بھرنے کے لئے عوامی ٹینکی کے سامنے اپنی باری کا انتظار کررہا ہے۔ احمد کی عمر تیرہ سال ہے اور انہوں نے بھی ساتویں کلاس میں پڑھائی ادھوری چھوڑدی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تعلیم حاصل کرکے کیا کرینگے کیونکہ مالی مشکلات کے وجہ سے والد کے کندھوں پر باری بوجھ ہے ۔ سکول سے تو اچھا ہے کہ اس کے ساتھ گھر کے مالی اخراجات میں مدد کر سکوں اور اپنے جیب خرچ کے لئے بھی پیسے کماؤ۔ اس لئے انہوں نے دو سال پہلے سکول چھوڑ دیا پہلے ان کو تین سو روپے ملتے تھے اور اب چھ سو روپے پر ہوٹل میں کام کررہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے علاقے کے کئی بچے ہیں جو ہو ٹلوں میں کام کرتے ہیں یا ہاتھ گاڑی (ریڑھی ) چلا کے چند روپے کما رہے ہیں۔
ضلع باجوڑ کے محکمہ لیبر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی اکبر نے باجوڑ میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے بتایا کہ لیبر ڈیپارٹمنٹ نے اگست 2023 سے باجوڑ میں کام شروع کیا ہے اور پچھلے 14 ماہ میں انہوں نے لیبر قوانین کے مطابق مختلف کارخانوں اور مارکیٹوں کا انسپیکشن کیا ہے۔ اور وہاں پر بھی دوسرے مزدور کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر میں ملوث لوگوں کو ضلعی انتظامیہ کو رپورٹ کیا ہے کیونکہ یہاں پر ابھی تک لیبر کورٹ نہیں بنے اس لئے ہم اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ انشاء اللہ دو تین ماہ میں لیبر کورٹ بنے گی تو پھر ہم اس کو لیبر کورٹ میں کاروائی کے لئے بھیج دینگے۔
اگر چہ سدیس اور احمد کم عمری کے وجہ سے ہم سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اس لئے ان کے دوسرے ساتھیوں اور چند دوکانداروں کے موجودگی میں ہم نے ان کے ساتھ باتیں کیں اور ان کے تصویر بھی نہیں بنائی تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود ان کے باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ بچے اس مہنگائی کے دور میں اپنے والدین پر بوجھ بننا نہیں چاہتے اس لئے کم عمری میں کم کرنے پر مجبور ہیں۔
باجوڑ میں سے صرف ہوٹلوں میں بچوں سے مشقت نہیں لیا جاتا بلکہ بچے مختلف دوکانوں ، سبزی منڈی، ہاتھ گاڑی میں ایک جگہ سے دوسرے جگہ وزن لے جانے اور روکشاپس وغیرہ میں معاشی مجبوریوں کے وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہے ۔
علی اکبر کے مطابق پورے صوبے میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے جو سروے ہوا ہے تو اس کے مطابق باجوڑ میں چائلڈ لیبر کا تناسب 7 فیصد بنتا ہے ۔ کیونکہ ان کے قوانین کے مطابق 14 سال سے کم بچے چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتے ہیں لیکن چائلڈ پروٹیکشن کے رو سے یہ 18 سال ہے تو پھر تو یہ تناسب بڑھ سکتا ہے۔ وہ لوگوں میں اس وقت آگاہی پیدا کرتے ہیں جب وہ کسی علاقے کا انسپیکشن کرتے ہیں کیونکہ مالی وسائل کی کمی کے وجہ سے وہ باقاعدہ اگاہی مہم نہیں چلانے سکتے ۔ تاہم اب باجوڑ کے لوگوں میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے کچھ نہ کچھ آگاہی آچکی ہے اور وہ اس سلسلے میں تعاون کررہے ہیں ۔
برہان نے بتایا کہ باجوڑ کے لوگوں میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے اگاہی کی کمی ہے اس لئے انہوں نے تحصیلوں کے سطح پر سٹیک ہولڈرز کے کمیٹیاں بنائے ہیں جو اپنے اپنے تحصیلوں میں آگاہی سمینار کراتے ہیں۔جبکہ اس کے علاوہ ان کے سٹاف کے اہلکار بھی مختلف علاقوں کے سکولز اور مساجد میں آگاہی سیشنز منعقد کراتے ہیں۔ جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔
یاد رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا سمیت ضم شدہ قبائلی اضلاع میں محکمہ محنت خیبر پختونخوا نے 2022،2023 کے مکمل شدہ چائلڈ لیبر سروے کا جامع رپورٹ جنوری 2024 میں جاری کیا تھا ۔ اس سروے کے مطابق خیبر پختون خوا میں 7لاکھ 45 ہزار بچے چائلڈ لیبر کا شکارہیں۔اس سروے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے میں 5 سے 17 سال تک کی عمر کے بچوں کی آبادی تقریباً 82 لاکھ 82 ہزار 673 ہے جن میں 43 لاکھ 88 ہزار 618 لڑکے اور 38 لاکھ 92 ہزار 911 لڑکییاں ہیں۔