دیال سنگھ کے پیدائش وادی تیراہ کے علاقے تر خو کس میں ہوا تھا جہاں پر آفریدی قوم کے قبیلہ کمرخیل آباد ہے۔2009ء میں جب علاقہ مکمل طور پر دشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کے وجہ سے خالی کرنا پڑا تو دیال اپنے خاندان کے ساتھ پہلے پشاور جبکہ بعد میں سکھ برادری کے روخانی شہرحسن ابدال منتقل ہوا جہاں پر کرائے مکان میں رہائش پریز تھا۔ پچھلے سال اُن کے ساتھ ملاقات میں معلوم ہوا دیال سنگھ کو مقامی لوگ اُس کو اُستاد کے نام سے جانتے تھے کیونکہ وہ نہ صر ف کاروبار بلکہ تعمیرات، زراعت اور دوسرے اُمور کے ماہر تھا اور علاقے کے لوگ اُن کے تجربات سے فائد لیتا تھا۔موجود وقت میں دیال سنگھ کے خاندان کے اسی زائدافراد پر مشتمل ہے۔
دیا ل سنگھ کے داد چتر سنگھ اُس وقت تیرا ہ میں آباد ہوئے جب 1675میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے سکھوں کے نویں گروتیغ بہادر کو گرفتار کرکے تختہ دار پر لٹکا دیا اور سکھوں کے خلاف مسلح مہم شروع کیا جس میں بڑے تعداد میں سکھ مذہب کے پیروکار مارے گئے اور کچھ پہاڑی علاوقوں میں جاکر آباد ہو گئے اور وہاں پر مقامی آباد سے پناہ کے درخواست کرکے زندگی کا آغاز کیا۔اُنہوں نے بتایا کہ ان کو تاریخ یاد نہیں البتہ داد سے سناتھا وہ تیر اہ قوم کمرخیل کے علاقہ قاضی کلے آیا تھا، اس کے علاوہ دوسرے سکھ برداری لوگ ماموزئی، علی شیرزئی اور تیراہ باغ میں آباد ہوئے۔ چونکہ مغل حکمران کے ساتھ پشتونوں کے بھی اختلافات تھے، لہذا ہمارے لوگوں کو یہاں پر بڑاخترم ملا۔ تیراہ جہاں پرسکھ آباد ہوگئے تھے تو ہاں پر زمینیں خرید لیں لیکن جو لوگ تیرا ہ میں قوم شلوبر قمبرخیل اور ملک دین خیل کے سنگم پر آباد ہوئے تو اُس وقت یہاں پر آبادی نہ ہونے کے برابر تھا تو مقامی لوگوں کے ساتھ سکھ برادری کے لوگوں نے بھی یہاں پر زمین قبضہ کرکے آباد ہوگئے۔
دیال سنگھ ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہواتھا جوکہ ٓافریدی کے آٹھ اقوام میں میں ہونے والے واقعات میں ان کا اہم کرادر رہا تھا اور آخری پشت میں اُن کوورثت میں اپنے خاندان کے سربراہی ملا۔
انگریز دور کے بارے میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پشتوں علاقوں میں اُن کو چھین سے کسی کو حکومت کرنے نہیں دیا گیا تو اُس نے پالیسی بنایا کہ ان لوگوں کو فوج، پولیس اور حاصداروں میں نوکریاں دلاکر باسانی کے ساتھ مسلح محالفت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔اور اُس وقت بڑی تعداد میں قبائل فوج، پولیس اور حاصدار میں بھرتی کرئے گئے۔فوج کے 24روپے، پولیس کے18روپے، ملیشاء کے 15روپے جبکہ حاصدار کے 13روپے تنخوا ہ تھا اور وہ حود بھی فوج میں بھرتی ہوا تھا لیکن خاندان والوں نے اجازت نہیں دیا اور کہا ایسا نہ ہوکہ کل آفریدی قوم کے طرف سے کوئی شکایت سامنے نہ آجائے اس کی وجہ سے اُنہوں نے نوکری چھوڑ دیا۔
تیراہ پر انگریز فوج کشی کے بارے میں اُن کا کہناتھا کہ 1920 کا زمانہ تھا کے ہنگوسے ہوتا ہوا اورکزئی کے سنگم پر واقع سیاحتی مقام سمانہ جوکہ آج کل وہاں پر فوجی چھاونی موجود ہے تیرا باغ تک پہنچ گئے جبکہ پھر دوئی تووئی(دوطعینانی) کو جب پہنچ گئے تو وہاں پر بڑی تعداد میں فوج نے ڈھیرہ ڈالا اور کئی مقامات پرآفریدی اقوم کے طرف سے مزمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دیال کے مطابق اُن داد چتر سنگھ نے انگریز وں کے ساتھ مزکرات شروع کیں اور اس بات پر متفق ہوگئے کہ انگریز افوج اور آفریدی ایک دوسرے کے خلاف کسی قسم کے کارؤئی نہیں کرئینگے۔قبائیلی روایات کے مطابق انگریز کے ساتھ فائر بند کے معاہد ے کے وقت داد نے اپنے خرچے پر دس دومبیں ذبح کئے اور بھی کچھ مزید بھی کچھ خرچہ ہوا۔ دوسراے اقوم نے اپنے حصے کے پیسے واپس کردئیں لیکن قوم قمبر،کمرخیل اور سپاہ کے پاس اتنا رقم نہیں تھا، تو اُس نے داد کو ترخوکس میں مشترکہ زمین جس کا رقبہ تین ایکٹر تک تھا دیا جس کوآج تک لوگ ہندؤ کس کے نام سے جانتے ہے تاہم دیال سنگھ نے پندارہ سال پہلے جب گورنر اور کورکمانڈار تیرا ہ آئے تھے اُس کو درخواست ان دینا چاہا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ہندوکس اُ ن باپ داد کا جائیداد ہے تاہم سیکورٹی پیش نظر اُس کو ایسے کرنے سے منع کیا گیا۔
دیال آفریدی اقوم میں کئی لشکرکشیوں کے عینی شاید تھے کسی بھی قسم کے قومی معاملات میں سکھوں نے کبھی بھی حصہ نہیں لیا۔ اُ نہوں نے اس حوالے کہا تھا کہ آکثر بے نمازیوں کے خلاف کارؤئی ہوتی تھی اور اُس کو کہا جاتا تھا کہ قوم امر لمعروف کررہے۔ تیراہ میں تحتکی کے مولانا سید حسن قومی سربہراہ تھا، اس کے ساتھ دین آحمد جو کہ قوم کمرخیل سے تعلق رکھتا تھااور محروم خانزادہ کا والد تھا اورعبدالباقی جو کہ قوم برقمبرخیل سے اُس کا تعلق تھالشکرکے سربہراہ ہوتے تھے۔ مجرموں کے گھر مسمار کرنا، علاقہ بدر، جائیداد ضبط اور جرمانہ وصو ل کرنا لشکر کے اختیار میں ہوتے تھے۔ حکومت کے طرف سے سڑک سکول اور ہسپتال کے تعمیر کے خلاف لوگ آکٹھے ہوجاتے تھے۔
پاکستان بنے کے بارے میں اُن کا کہناتھا کہ 1947میں انگریز کو باچاخان، ڈاکٹرخان،تاراہ سنگھ،مائرمان سنگھ اور تاجہ سنگھ نے ہندوستان سے نکلا ہے۔ دیال سنگھ بے جوانی میں باچاخان کو اُس وقت دیکھا تھا کہ پشاور میں گڑ منڈی میں دوکانوں پر بڑے لوڈ سپیکر لگے تھے جس پر آزاد ی کے نظمیں سنائے جاتے تھے۔ تقسیم ہندواقعات بیا ن کرتے ہو اُن کہناتھا کہ جب ہندؤستان اور پاکستان بن گئے تو مسلمانوں اور ہندؤں کا بڑا قتل عام ہوا۔یہاں شہروں سے ہندؤں اور سکھ تقریبا ساری چلے گئے کیونکہ یہ لوگ آپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے تھے اسطرح ہندؤستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔کوہاٹ میں بہت زیادہ تعداد میں سکھ اور ہندؤں آباد تھے، جب ان لوگوں کا گاڑیوں میں بٹیھایا گیا تو جھنڈ کے مقام پر وزیراور محسود قبائیل نے ان تمام افراد کو قتل کردیا۔ دیال سنگھ کو 1948ء میں کشمیر جنگ کے کہانی بھی یاد تھا۔ اُن کے بقول بڑی تعداد میں قبائل نے اُس جنگ میں شرکت کیا تھا اور ہندؤستان سے نہ صرف موجودہ آزادی کشمیر بلکہ مقبوضہ کشمیر علاقہ سرینگر تک یہ لوگ پہنچ گئے تھے۔ 1971ء کے واقعے کے سوال پردیال سنگھ نے کہاتھا کہ کہ وہ دن اسطرح یاد ہے کہ شاید یہ کل ہواہو۔اُن کہناتھا تیرنوی ہزار افراد جیل بھیج دیا گیا جس میں ہمارے گاؤں کے بھی آٹھ بندے تھے۔ یہ واقعہ حکمرانوں کے علط پالیسوں کے سبب سامنے آیا۔ تین سال بعد جب لوگوں کے رہائی ہوئی توہمارے ہمسایہ جو غیر تعلیم یافتہ تھے جیل میں دینی اور دعصر علوم حاصل کرچکے تھے ۔9/11کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے بارے میں اُنہوں نے کہا تھا کہ دوسرے کے جنگ اپنے گھر لانا ایک بڑی علطی تھی جس کی وجہ ملک کو بہت بڑا نقصا ن اُٹھنا پڑا۔سات پہلے حسن ابدال میں رہائش احتیار کرنے والا دیال سنگھ اس بات کے بڑا بے تاب تھا کہ جیسے ہی حالت بہتر ہوجائینگے تو وہ اپنے علاقے کو ضرور واپس جائینگے، لیکن زندگی اور حالت نے ساتھ نہیں دیا اور پچھلے روز ایک سو چھ سال کے عمر در فانی سے کوچ کرگیا۔
دیال سنگھ کے ولد قومی خدمات کے بنیاد پر علاقے کا ملک بھی منتخب ہوا تھا۔ نوٹ: دیاسنگھ 106سال کے عمر میں جولائی2018 میں وفات وفات پا گئے۔