پختون معاشرے میں کچھ ایسی روایات ہیں جس کو دوسرے معاشرے میں ڈھونڈنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ایسے روایات میں ایک روایت” قلاہ” کا بھی ہے۔ ” قلاہ”   اس روایت کو کہتے ہیں جو ہمارے علاقوں میں گندم،جوار،چاول، مسو ر اور سرسوں وغیرہ کے فصلوں کے کٹائی کے بعد اس سے جب دانے الگ ہو تے تھے اور بھوسہ الگ تو غلہ (دانے) کے ڈھیر سے گاؤں کے بچوں کو جھولی اور ٹوپیوں میں غلہ کا مالک اپنی خوشی سے ہاتھوں کے پیمانے کے حساب سے ایک، دو اور تین تک پیمانے ایک ایک بچے کے جھولی یا ٹوپی میں ڈالتے تھے اور بچے خوشی خوشی وہاں سے جاتے تھے اور اس پر دوکانوں میں میوہ یعنی ٹافیاں وغیرہ خرید تے تھے۔

غلہ کے ڈھیر کے پاس موجود بڑے بھی خوشی طبعی اور مزاح کے طور پر بھی اپنی جھولی یا ٹوپی غلہ کے لئے پھیلاتے تھے اور غلہ کے مالک اس میں بھی کچھ غلہ کے دانے ڈالتے تھے۔ غلہ (دانے) دینے کے اس عمل کو” قلاہ” کہتے تھے۔” قلاہ” کا روایت صدیوں سے ہمارے پختون معاشرے میں چلا آرہا تھا اور اس کو ایک بنیادی اہمیت حاصل تھی۔

یہ روایت اسلامی اصولوں کے بھی مطابق تھا۔ ” قلاہ” کا نام بھی موجودہ وقت میں بہت سے لوگوں کے لئے ناآشنا ہوگا اوروہ اس سے واقف نہیں ہونگے۔ کیونکہ اب اس روایت کا شاید ہمارے دیہاتی علاقوں میں کچھ نشانی باقی ہوں۔ جب کے اکثر علاقوں میں یہ ختم ہوا ہے اور کچھ علاقوں میں یہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ بیس سال پہلے یہ روایت ہمارے گاؤں میں بہت عروج پر تھا اور سب بچے اس کا انتظار کررہے تھے کہ کٹائی کے بعد کب اور کس کے فصلوں سے پہلے دانہ الگ ہو گا کہ اس کو وہاں سے ” قلاہ” ملے۔

وہ ہر اس جگہ پر جاتے تھے جہاں پر فصلوں کو اکٹھا کیا گیا تھا جس کو ہم مقامی زبان میں درمند کہتے تھے اس وقت تھریشر نہیں تھے تو فصلوں کے ڈھیر کے اوپر ٹریکٹر اور یا بیلوں کو دوڑاتے تھے جس کو مقامی زبان میں غوبل کہتے تھے اور اس طرح غوبل کے زریعے اس سے بھوسہ الگ اور خالص دانے الگ کر تے تھے۔ تو جس کسی نہ پہلے یہ غوبل کا عمل مکمل کیا ہو تا تھا تو اس کے پاس بچے پہلے جاتے تھے اور اس سے قلاہ لیتے تھے اس میں کچھ بڑے بھی تفریح کے عرض سے حصہ لیتے تھے اور اس روایت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔  اگر میں یہ کہوں کہ یہ روایت بچوں اور بڑوں دونوں کے لئے یکساں تفریح کا باعث تھا تو بے جا نہ ہوگا۔

باجوڑنواں کلے سے تعلق رکھنے والا65سالہ محمد آمین ” قلاہ” کے بارے میں کہتے ہے کہ یہ روایت تو اس کے لئے عید کے طرح خوشی کا باعث ہو تا تھا کیونکہ اس کے وجہ سے اس کو دانے ملتے تھے جس پر وہ میوہ ،ٹافیاں اور دوسرے چیزیں خرید تے تھے وہ ٹولیوں کے شکل میں ہر کسان کے دانے کے ڈھیر پر جاتے تھے اور اس سے ” قلاہ” لیتے تھے اور اسی طرح ” قلاہ” لینے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا تھا۔جب تک گاؤں میں سارے غوبل ختم نہیں ہو تے تھے۔ہر کسان یہ اپنے اوپر بچوں کا حق سمجھتا تھا اور وہ خوشی خوشی ہر بچے کو ” قلاہ” دیتا تھا اور اس پر کبھی ناراض نہیں ہو تھا تھا۔

” قلاہ” کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ ذکواۃ  میں حساب ہوتا تھابلکہ ذکواۃ کو الگ دیتا تھا بلکل اسلامی اصولوں کے مطابق۔ اور ” قلاہ” کو ایک قسم صدقہ تصور کیا جاتا تھا۔ باجوڑ کے گاؤں ٹانگ خطاء کے رہائشی ملک گل شاد خان بیان کرتے ہے کہ ” قلاہ”  ایک اچھی روایت تھی جو نہ صرف ہمارے گاؤں میں بلکہ پورے ضلع باجوڑ میں پشت در پشت چلا آرہا تھا  اور یہ بچوں کے لئے خوشی کا موقع ہو تا تھا اور 1995ء تک یہ روایت زندہ تھی لیکن اس کے بعد یہ روایت کمزور ہوا اور اب بلکل ختم ہوا ہے۔ ملک گل شاد اس روایت کی ختم ہونے کی بڑی وجہ مفاد پرستی کو ٹھہراتے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لوگ مادہ پرست ہوچکے ہیں اور دن رات اس سوچ میں ہو تے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مال کمائے اور اس کو جمع کریں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ پہلے ہم روایتی طریقوں سے کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن اب جدید مشنری کا استعمال زیادہ ہوا ہے جس کے وجہ سے پیدوار بھی کئی گناہ زیادہ ہوا ہے۔ اب تھریشر کا استعمال ہوا ہے ہر کسان اس سے گندم و جوار وغیرہ کے بوری بھرتے ہیں اور اس کے منہ اسی جگہ پر بند (سیل) کرتے ہیں اور جلدی جلدی گھروں کو پہنچاتے ہیں۔ اب درمندکا رواج نہیں ہے جو پہلے ہو تا تھا جہاں پر غلہ کے ڈھیر ہو تے تھے اور وہاں سے بچوں کو ” قلاہ”  ملتا تھا۔ اب جدید مشینری کے استعمال کے وجہ سے” قلاہ” دینے کا تصور بلکل ختم ہوا ہے۔

78سالہ ملک ہارون خان آف ڈھیلی نے کہا کہ جب وہ بچہ تھا تو خود اس مرحلے سے گزرے ہیں یعنی ” قلاہ” کو کسانوں سے وصول کیا ہے وہ نہ صرف اپنے گاؤں میں” قلاہ” کو اکٹھا کرتے تھے بلکہ آس پاس کے گاؤں بھی جاتے تھے” قلاہ” لینے کے لئے اور کبھی کبھی کسانوں کو تنگ بھی کرتے تھے اور وہ ہم کو بھگاتے تھے۔ لیکن ہم پھر آتے تھے اور کسان خوشی سے ” قلاہ” دیتے تھے۔ ملک ہاروں خان کہتے ہے کہ اس وقت پیار ومحبت عام تھی اور ہر کسان گاؤں کے بچوں کو اپنے بچے تصور کرتے تھے۔

وہ  بتاتے  ہے کہ جب ہم جوان ہوئے تو اس نے بھی” قلاہ” دینے کی روایت کو جاری رکھا تھا لیکن پچلے 20سالوں سے یہ روایت اب بلکل ختم ہوا ہے۔ اس کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے مادہ پرستی کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ ” قلاہ” سے غلہ کے دانے کم نہیں ہو تے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور اللہ تعالی اس میں مزید برکت ڈالتا ہے۔ کیونکہ یہ قلاہ صدقہ ہے اور صدقہ سے مال میں برکت بڑھتا ہے۔ موجودہ وقت میں دنیا جس تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے تو اس تیز رفتاری کے دوڑ میں ہم نے بہت سے اچھے ثقافتی اقدار کو بھی اسی رفتار سے کھو دئیے جس کودوبارہ زندہ کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمداری ہے۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں