
اگر دیکھا جائے تو یہ بات بہت صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کو ایک خاص نظام کے تحت پیدا کیا ہے اور اس کے اندر چلا رہاہے۔ اگر اس میں تھوڑا خلل یعنی بے ترتیبی پیدا ہو جائے تو اس کے اثرات براہ راست ہر چیز پر دیکھا جا سکتا ہے۔ آج کل دنیامیں اگر ایک طرف سائنس نے بہت ترقی کی ہے اور نئی نئی ایجادات ہو رہی ہے جس سے انسانی زندگی کے کاموں میں بہت حد تک آسانیاں پیدا ہو ئیں ہیں تو دوسری طرف ان ایجادات اور آسانیوں سے انسانی زندگی مشکل میں پڑرہی ہے۔
کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی سے کئی تبدیلیاں پوری دنیا میں رونماہو ئی ہیں جس سے انسانوں اور جانداروں کےزندگیوں کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی بہت سے نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے ہمارے شمالی علاقہ جات میں جو برف اور گلیشئرزہے وہ تیزی کے پگھل رہے ہیں جس کی زندہ مثال پچھلے سال ہنزہ میں شسپیر گلیشئر کا اچانک پھٹ جانا تھا جس سے شاہرہ قراقرم کی احسن آباد کے مقام پر ایک اہم پل کا سیلابی پانی میں بہہ جانا تھا جس سے لوگوں کو آمد و رفت میں کافی مشکلات کا سامان کرنا پرا۔
دوسری طرف اس سے پانی کے زخائر میں کمی واقع ہوگی کیونکہ گلیشئرز پانی کے خزانے ہیں اگر وہ اسی طرح جلدی اور بے وقت پگھل جائے تو اس سے پانی کے ذخائرمیں کمی ہو جائیگی کیونکہ ہمارے پاس اتنے مقدار میں ڈیم نہیں ہے کہ یہ پانی وہاں پر جمع ہو جائے اور وہاں ہم اس کوکچھ وقت کے لئے ذخیرہ کر یں اور بعد میں اس کو استعمال کیا جا سکیں۔ اس لئے مو سمیاتی تبدیلی کے وجہ سے برف اور گلیشئرزکے اس پگھلاؤ میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے صحرائی علاقوں تھر اور چولستان میں اس کے منفی اثرات نمایاں طور پر ظاہر ہوچکے ہے اورہر سال وہاں پر سینکڑوں کی تعداد مویشی ہلاک ہوتےہیں اور پانی کی قلت کے وجہ سے مقامی لوگ نقل مکانی پر مجبور ہے۔ ان علاقوں میں مزید اسی طرح کی خشک سالی کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔اور اگر حالت اسی طرح جاری رہی تومو سمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کنٹرول کرنا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے بہت مشکل ہوگا۔ 2010میں تباہ کن سیلابوں سے پاکستان کے تاریخ میں پہلی بار کروڑوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے اور اس کے ساتھ زراعت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ یہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کی تاریخ میں بدترین سیلاب تھا اس کو سپر فلاڈ بھی کہتے ہے کیونکہ یہ 1902 کے بعد پہلی بار ایسابڑا سیلاب تھا۔
موسمیاتی تبدیلی کے بہت سے عوامل ہے لیکن دنیا میں آج کل جس چیز پرزیادہ زور دیا جارہا ہے وہ ہے گرین ہاوسسز گیسوں کا اخراج اور اس میں کمی کرنا۔ اس میں سب سے اہم گیس جو اس کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے پر زور دیا جارہاے وہ ہے کاربن ڈائی اکسائیڈگیس۔ کاربن گیس سے دنیا کے درجہ حر ارت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔
کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کیسے اور کہاں پر پیدا ہو تی ہے اور اس کو کس طرح کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ جدید دنیا میں زیادہ تر ممالک توانائی کے ضرورت کو پورا کرنے لئے مختلف چیزوں کا استعمال کرتی ہے جس میں تیل،گیس، لکڑی اور کوئلہ بنیادی چیزیں ہیں۔ ان چارچیزوں سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ آمد ورفت کے لئے گاڑیوں میں استعمال ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس سے کارخانے چلائے جارہے ہیں اور گھریلوں ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔
اگر ایک طرف اس سے لوگوں کے ضروریات پوری ہورہی ہے اور اس سے ا ن کوروزگار بھی میسر ہے۔ تو دوسری طرف اس سے پیدا ہونے والے کاربن گیس سے جانداروں کی زندگی متاثر ہو رہی ہے اور اس میں بہت سے نئی نئی بیماریاں جنم لے رہی ہے۔ ان بیماریوں میں لشمینیا، کینسر،آنکھوں کی بیماریاں۔ پھپھڑوں اور چمڑے کے بیماریاں شامل ہے۔
یہ سب بیماریاں ہمارے ملک اور علاقے میں زیادہ ہیں لیکن اس میں لشمینیا کی بیماری اب زیادہ تر ضلع خیبر اور دوسرے قبائلی اضلاع میں موجود ہے جس سے لوگ متاثر ہورہی ہے، لشمینیا ایک قسم کے مچھر سے لگتی ہے جو جانوروں کے ٖفضلہ میں ہو تی جو ضلع خیبر اور افغانستان میں زیادہ ہے یہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے ملیریا کے بیماری فریقہ اور ایشیاء میں ابھی بھی جان لیوا بیماری ہے۔اس سے ہر سال کروڑوں افراد متاثر ہو رہے ہے۔ اس کے علاوہ سرطان کا مرض بھی اس کے وجہ سے دن بدن پھیل رہاہے۔
ان سب مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے پچھلے کئی دہائیوں سے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی روک تھا م کے لئے کوششیں ہو ئی تھیں۔لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تھے جس کی بنیادی وجہ صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک کا کاربن گیس کے مقدار میں کمی نہ کرنا تھا۔لیکن موجود وقت میں موسمیاتی تبدیلی صرف عریب ملکوں کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس سے اب ترقیافتہ ممالک بھی متاثر ہونا شروع ہو گئے ہے اس لئے اب اس مسئلہ کے حل اور اس کے روک تھام کے لئے عالمی سطح پر سنجیدہ کو ششوں کا آعاز ہو ا۔دنیامیں زیادہ تر کاربن گیس ترقی یافتہ ممالک فضا میں خارج کرتی ہے لیکن اس سے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہی ہے۔
ایک سروے کے مطابق دنیا میں کاربن کا زیادہ حصہ چین اوربھارت فضا میں خارج کرتی ہے جس سے فضائی ا لودگی کے ساتھ ساتھ عالمی درجہ حرارت میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔پچھلے دہائیوں میں اس کے روک تما م کے لئے جو مختلف اجلاسیں ہوئے تھے تو اس میں متفقہ طور پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا لیکن اب دنیا نے محسوس کیا کہ اس مسئلہ کے روک تھام کے لئے کوئی نہ کوئی متفقہ حکمت عملی ہو نی چایئے جس میں ہر ایک ملک اپنی اپنی زمداری پوری کرسکے اور کوئی اس سے بری الذمہ نہیں ہوں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے 21.2015 نومبر کو فرانس کے دارلحکومت پیرس میں ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس میں دنیا کے 195ممالک کے سربراہان مملکت نے شرکت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اب وقت آگیاہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر گرین ہاوسسز گیسوں کی کمی کے لئے اپنا کردار ادا کرے اور اس سے اپنے اپ کو برالذمہ نہ سمجھیں۔
کافی غور خوص کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھاجس میں کہا گیا تھا کہ ہر ملک کاربن کی مقدار کو کم کریگی اور دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ کو دو ڈگری سے نیچے رکھا جائے گا اور کوشش کریگی کہ اس کو1.5 ڈگری تک محدود کریگا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہر پانچ سال بعد اس کا جائزہ لیا جائے گا اور 2020 میں ترقی پزیر ممالک کے لئے ایک سو ارب ڈالر امداد فراہم کریگی اور اس میں مستقل اضافہ کیا جائے گا۔اس معاہدے میں 2025کا ہدف مقرر کیا ہے کہ اس تک دنیا کا درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک کیا جائے گا 4/22/2016کو دنیا کے 170 ممالک نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اس تاریخی معاہدے پر دستخط کئے۔
جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ دنیا میں ایک نئے دور کا آعاز ہو گی اور جاندار ایک صاف ماحول میں سانس لیں گی۔ لیکن اس کے بعد بھی کئی کانفرنس آف پارٹیز (COPs) کا انعقاد ہوا تاہم ابھی تک عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جو تشویش کی بات ہے۔
پاکستان کا کاربن کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔لیکن بدقسمتی سے پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سےمتاثر ہ ممالک کے فہرست میں دنیا کے ان سات ممالک میں شامل ہے جو اس سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین موسمیاتی تبدیلی مطابق حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہر ایک فرد یہ اپنی زمداری سمجھیں اور یہ عہد کرے کہ وہ اپنی ماحول کو صاف رکھیں گے اور وہ زیادہ سے زیادہ درختوں کو لگائینگے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بے جا گیس،کوئلہ، لکڑی اور تیل کے جلانے اور استعمال سے اجتناب کرینگے۔ تاکہ اس ماحول کو مشترکہ طورپر جانداروں کے لئے رہنے کے قابل بنائیں۔