
محمد یونس
دریائے باڑہ ضلع خیبر کی سرچشمہ تحصیل باڑہ کے علاقے وادی تیرا ہ اور ضلع اورکزئی کے دریا مستورہ سے لیتاہے۔تیراہ اور اورکزئی سے آنے والے ممانڑی کے علاقے میں ملتے جوکہ آگے جاتے ہوئے سپرہ بندہ سے گزرتے ہوئے کابل ریور کینال سے جا ملتا ہے، جو ورسک ڈیم سے نکلتا ہے، اور پشاور شہر کی جانب دوبارہ داخل ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ شمال مشرقی رخ اختیار کرتے ہوئے ضلع نوشہرہ کی طرف بہتا ہے اور آخرکار اکبرپورہ کے قریب کیمپ کورونا کے مقام پر دریائے کابل میں ضم ہو جاتا ہے۔
اپنی بلند سطحِ ارتفاع کی وجہ سے، دریائے باڑہ میں کششِ ثقل کے ذریعے بہاؤ والے علاقوں کی مقدار انتہائی محدود ہے، جس کے باعث اس کے پانی تک رسائی کا انحصار زیادہ تر بارشوں اور دیگر ذرائع پر ہوتا ہے۔ یہ دریا نہ صرف مقامی آبادی کے لیے زراعت اور گھریلو ضروریات کا اہم ذریعہ ہے، بلکہ خطے کے ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
دریائے باڑہ کی موت
دریا باڑہ پر ابتک کوئی ڈیم تعمیر نہیں ہوئی جبکہ سپر ہ کے مقام پر ایک بندھ بنایا گیا جودریا میں بہنے والے پانی کے روخ کو موڑ دیتاہے اور پانی نہری نظام میں منتقل کردیتاہے۔
محکمہ آپباشی خیبر کے مطابق تحصیل باڑہ کے سپاہ، شلوبر قمبر خیل، بر قمبر خیل، ملک دین، اکاخیل اور جمرود تحصیل کے شاکس کے زرعی زمینوں کوسیراب کرنے کے لئے باڑہ بازار سے مغرب کے جانب 14کلومیٹر کے فاصلے پر سپر ہ کے مقام پر 1965میں دریا باڑہ پر ایک بند کی تعمیر شروع ہوئی جو 1975 میں مکمل ہونے کے بعد1978میں باقاعدہ نہروں میں 278کیوسک پانی کی ترسیل شروع ہوئی جس سے 44ہزار ایکڑ زمین سیراب کیاجاتاتھا تاہم پچھلے کئی سالوں سے پانی مقدا ر بتدریج کم ہوکرر 120 کیوسک رہ ہی رہ گیا جس سے موجودہ وقت میں 18ہزار 224 ایکڑ زسے زمین سیراب ہوتاہے تاہم مقامی آبادی مزکورہ اعداد شمار سے اتفاق نہیں کرتے اور اس کو دس ہزار ایکٹر سے بھی کم زمین سیراب کا دعوا کرتاہے۔محکمہ زراعت کے ایک اعلی عہدیدار کے مطابق موجودہ قت میں دو ہزار پانچ سو ایکڑ ز زمین سیراب ہوتاہے۔
دریائے باڑہ کی خشک ہوتی رگوں نے نہ صرف مقامی آبادی کو بلکہ پورے خطے کے ماحولیاتی توازن کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ صرف پانی کی کمی کا مسئلہ نہیں، بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک خوفناک نتیجہ ہے جو انسانی لاپرواہی اور فوسل فیول کے بے تحاشہ استعمال سے جنم لے رہا ہے۔ تیراہ ویلی، اپر باڑہ، اور باڑہ کے میدانی علاقوں میں رہنے والے افراد اب اپنے گھروں کو ”موسمیاتی پناہ گزینوں ” کی طرح چھوڑ رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی: دریا کی موت کا اصل قاتل
ڈاکٹر عائشہ رحمان، جو اسلام آباد میں موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق کر رہی ہیں، کہتی ہیں: ”گزشتہ دو دہائیوں میں خیبر پختونخوا کا اوسط درجہ حرارت 1.8 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ بارش کے انداز بدل گئے ہیں۔ کبھی موسلا دھار بارشیں، تو کبھی طویل خشک سالی۔ دریائے باڑہ کا نظام اِن غیر یقینی تبدیلیوں کے سامنے بے بس ہو چکا ہے۔”
مقامی کسان شکیل احمد بتاتے ہیں: ”پہلے ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ مارچ میں بارش ہوگی، اپریل میں دریا بھر جائے گا۔ اب تو موسموں کا کوئی پتہ نہیں۔ کبھی سیلاب، کبھی خشک سالی۔ ہماری فصلیں اِس افراتفری کا شکار ہو رہی ہیں۔”
گلیشیئرز کی تیزی سے کمی
دریائے باڑہ کا پانی بنیادی طور پر ہندوکش پہاڑی سلسلے کے گلیشیئرز سے حاصل ہوتا تھا۔ ماحولیاتی رپورٹس کے مطابق، گزشتہ 30 سالوں میں خطے کے 40% گلیشیئرز پگھل چکے ہیں۔ ڈاکٹر سلیمان شاہ، جو مقامی ماحولیات کے ماہر ہیں، کہتے ہیں: ”گلیشیئرز کی کمی نے دریائے باڑہ کو ”نیم خون” کی طرح چھوڑ دیا ہے۔ 2050 تک یہ دریا مکمل طور پر خشک ہو سکتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کو ہوا دینے والے عوامل
تیراہ ویلی کے 60 فیصد جنگلات گزشتہ دہائی میں کاٹ دیے گئے، جس سے زمین کی نمی کم ہوئی۔ باڑہ کے میدانی علاقوں میں 500 سے زائد غیرقانونی بورنگ مشینیں زیر زمین پانی کھینچ رہی ہیں۔ 80 فیصد کاشتکار اب بھی پرانے نہری نظام پر انحصار کرتے ہیں، جس سے 50 فیصدپانی ضائع ہو جاتا ہے۔
موسمیاتی مہاجرین: گھر چھوڑتی انسانی لاشوں
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے غربت اور ہجرت کو جنم دیا ہے۔ تیراہ ویلی کے گاؤں ”میرانڈہ” میں رہنے والے 50 خاندانوں میں سے 30 نے اپنے گھر چھوڑ دیے ہیں۔ 55 سالہ رسول خان، جو اب پشاور کے کچی آبادی میں رہتے ہیں، کہتے ہیں: ”دریا مر گیا تو ہم بھی مر گئے۔ اب ہم شہر کی گندگی میں سانس لے رہے ہیں۔”
عالمی بینک کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2030 تک 7 ملین افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ دریائے باڑہ کے کنارے آباد لوگ اِس کا ابتدائی نمونہ ہیں۔
صحت پر تباہ کن اثرات
خشک سالی اور گندے پانی نے صحت کے بحران کو جنم دیا ہے۔ اپر باڑہ کے ہسپتال میں ڈاکٹر نجمہ بی بی بتاتی ہیں: ”ہمیں روزانہ 20 سے 30 ایسے مریض ملتے ہیں جنہیں ہیضہ، ٹائیفائیڈ، یا جلد کی بیماریاں ہیں۔ 80 فیصد کیسز گندے پانی سے جڑے ہوتے ہیں۔بارہ سالہ ثناء، جو گندے تالاب سے پانی لاتی ہے، اب خون کی کمی کا شکار ہے۔ اُس کی ماں کہتی ہے: **”ڈاکٹر نے کہا ہے کہ پانی میں زہریلے مادے ہیں، لیکن ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔
موسمیاتی انصاف کی جدوجہد
مقامی نوجوانوں نے ”کلائمیٹ جسٹس فورم” بنا کر آواز بلند کی ہے۔ 25 سالہ طالب علم اور سماجی کارکن احمد خان کہتے ہیں: ”ترقی یافتہ ممالک فوسل فیول جلا کر ہمارے دریا مار رہے ہیں۔ ہماری آواز کو بین الاقوامی سطح پر سنا جانا چاہیے۔”ماہرین کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو گی۔موسمیاتی زراعت: خشک سالی برداشت کرنے والی فصلیں جیسے باجرا اور جوار کو فروغ دیا جائے۔ گلیشیئرز کی بحالی: کاربن اخراج کم کرنے کے عالمی معاہدوں پر عملدرآمد کیے جائیں۔ مقامی تعلیم: دیہاتوں میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی مہم چلائی جائے۔ بین الاقوامی دباؤ: پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے لیے ہونے والے عالمی فنڈز تک رسائی دلائی جائے۔