
خیبر پختونخوا کے مشیر صحت احتشام علی نے صوبے میں اب تک کانگو وائرس سے تین افراد جاں بحق ہونے کی تصدیق کیا ہے، جبکہ ایک مریض حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں زیر علاج ہے۔ اس کے علاوہ، چھ مشتبہ مریض بھی داخل ہیں اور ان کی تشخیصی کارروائیاں جاری ہیں۔
انہوں نے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کانگو وائرس کی وجہ سے قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔
مشیر کے مطابق، ہلاک ہونے والے دو مریضوں کا تعلق کرک ضلع سے تھا جو گزشتہ رات وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے، جبکہ ایک تیسرا مریض، جو شمالی وزیرستان سے تھا، 16 جون کو فوت ہوا ہے۔ انہوں نے حالیہ وبا کی وجہ کو عید کی تقریبات کے دوران احتیاطی تدابیر کی کمی قرار دیا، کیونکہ صوبے بھر میں مویشی منڈی قائم کیے گئے تھے۔
یاد رہے کہ پچھلے ہفتے، دو مریض جو کانگو وائرس سے متاثر تھے، ہسپتال میں داخل ہوئے تھے اور ان کی حالت ابتدائی طور پر خطرے سے باہر بتائی گئی تھی۔
ہسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کرک سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ اعجاز کو 14 جون کو ہسپتال میں انتہائی تشویشناک حالت میں لایا گیا۔ ایک اور 23 سالہ مریض، صافیان، بھی کرک سے، 15 جون کو داخل ہوا۔ طبی علاج کے بعد، دونوں مریض اب مستحکم ہیں اور مزید خطرے میں نہیں ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ دونوں متاثرہ افراد مویشیوں کی دیکھ بھال میں کام کرتے ہیں۔
کانگو وائرس ہے کیا؟
دراصل کانگو وائرس کو کریمین کانگو ہیمورہیجک فیور (سی سی ایچ ایف) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس کریمیا میں 1944 میں سامنے آیا تھا اور اس وقت اس وائرس کی موجودگی براعظم افریقہ کے ملک کانگو میں بھی نظر آئی تھی جس کی بنیاد پر اس کا نام (سی سی ایچ ایف) رکھا گیا تھا۔
جس کے بعد دنیا کے دیگر ممالک میں یہ وائرس پھیل گئی اس وقت پاکستان میں بھی یہ وائرس پایا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کانگو اصل میں جانوروں کے جسم میں ایک چھوٹا سا کیڑا جسے (ٹک) کہتے ہیں وہ اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو اس سے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ کسی جانور کو یہ بیماری لاحق ہو اور یہ کیڑا اس کا خون چوس رہا ہو تو وہ انسان کوکاٹنے کے بعد اس وائرس کو خون میں منتقل کردیتا ہے۔
دوسری صورت میں یہ جانوروں کے خون سے بھی براہ راست منتقل ہوسکتا ہے خاص طور پر قربانی کرتے وقت جب جانور کا خون جب انسان کے ناک، منہ یا آنکھ میں چلا جائے تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔
متاثرہ جانور کی کھال میں چھپے یہ کیڑے (ٹک) قربانی کے وقت جانور کی کھال اتارنے کے دوران انسانی جلد پر چپک کر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اس سے کوئی انسان متاثر ہوجائے تو پھر ایک انسان سے دوسرے میں وائرس منتقل ہونا عام بات ہے۔ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں خون، لعاب یا پسینے سے منتقل ہوسکتا ہے۔
کانگو وائرس کی علامات
میڈیکل آفیسر ڈاکٹر ذاکر خان کا کہنا ہے کہ انسان کو کانگو وائرس لگنے کے بعد تیز بخار، نزلہ، گلے، جوڑوں اور ریڑھ کی ہڈی میں درد شروع ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونا کے ساتھ آنکھیں بھی سرخ ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان علامات کے بعد مریض کے پلیٹیلٹس میں کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے قوتِ مدافعت کم ہو جاتا ہے اور ممکنہ طور پر ناک، منہ یا پیشاب کی جگہ سے خون آنے لگتا ہے۔ اس طرح مریض کو فوری طور پر پلیٹلیٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔
بیماری سے بچاؤ
ماہرین کے مطابق جانوروں کو قریب جانے سے پہلے اس بات کی تسلی کرے کہی اس کے چمڑے میں ٹک تو موجود نہیں ہے اگر کہی دیکھا جائے اس کو فوری طور پر حفاظت کے ساتھ دور کرنا چاہیے۔ اس کے علاہ مویشیوں کو ذبح کرتے وقت گلاوز اور ماسک کا استعمال کرنا چاہئے اور اس کے ساتھ انسانی جسم پر خون بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اپننا چاہئے خاص طور پر خون زخم، آنکھوں یا منہ میں داخل ہونے سے بچنا ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق پکائے جانے والا گوشت کھانے سے یہ وائرس انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اگر کوئی جانور اس سے متاثر ہے تو اس کے کچے گوشت کو ہاتھ لگاتے وقت احتیاط لازم ہے۔ ایسے جانور یا فرد جن میں یہ وائرس ہو ان سے دور رہنے اور احتیاط کرنے سے ہی اس وائرس سے بچاؤ ممکن ہے۔
روک تھام کیلئے سرکاری اقدامات:
مشیر صحت احتشام علی نے عوام سے اپیل کی کہ وہ کانگو وائرس کی روک تھام کے لیے محکمہ صحت کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور مویشیوں کے ساتھ احتیاط برتیں تاکہ مزید جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صحت کا محکمہ مربوط بیماریوں کی نگرانی اور رسپانس (IDSR) نظام کو کانگو وائرس کے کیسز کی بروقت نگرانی اور جواب دینے کے لیے فعال کر چکا ہے۔ متاثرہ علاقوں کے ضلعی صحت کے افسران کو مطلع کیا گیا ہے، اور ہلاک شدگان کے گھروں میں رابطہ ٹریسنگ اور صفائی ستھرائی کے اقدامات جاری ہیں تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔
<span;>اپریل میں، پاکستان کے قومی ادارہ صحت (NIH) نے کریمین کانگو ہیمرجک فیور (CCHF) کے خطرات کے بارے میں عوامی صحت کے مشورے جاری کیے تھے۔