محمد یونس

پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات، دھمکیوں اور دباؤ کے مسلسل واقعات کے بعد بالآخر 30 جون 2025 کو پارلیمنٹ نے ایک اہم قانون منظور کیا ہے جسے "جرنلسٹ پروٹیکشن بل 2025” کا نام دیا گیا ہے۔ اس بل کا مقصد صحافیوں کو پیشہ ورانہ تحفظ فراہم کرنا ہے، خاص طور پر اُن حالات میں جب وہ طاقتور عناصر کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، یا ایسی معلومات عوام کے سامنے لاتے ہیں جو ریاستی یا ذاتی مفادات کو چیلنج کرتی ہیں۔

یہ قانون صحافیوں پر جسمانی یا زبانی حملے کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیتا ہے۔ اگر کسی صحافی کو دھمکی دی جائے، اُس کے ذرائع معلوم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے، یا اس پر جھوٹا مقدمہ بنایا جائے، تو متاثرہ شخص فوری طور پر ایف آئی آر درج کروا سکے گا، اور پولیس فوری کارروائی کی پابند ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ صحافی کو اُس کے خبر دینے کے ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر مجبور کرنا، اب قانونی طور پر جرم تسلیم کیا گیا ہے۔

اس بل کے تحت حکومت نے اعلان کیا ہے کہ انسانی حقوق کی وزارت کے تحت ایک کمیشن قائم کیا جائے گا جو صحافیوں کی شکایات سنے گا، ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے سفارشات دے گا، اور اگر کہیں ریاستی ادارے یا طاقتور افراد صحافیوں کے حقوق پامال کرتے ہیں تو اُن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ کمیشن آزاد، خودمختار اور شفاف ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے—کم از کم قانون میں ایسا ہی لکھا گیا ہے۔

مگر یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی زمین پر بھی یہی کچھ ہوگا؟ اس خدشے کی جڑ ماضی کے وہ قوانین ہیں جو کاغذ پر تو بہت مضبوط نظر آتے تھے، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے اثر ہو گئے۔ 2021 میں بھی ایسا ہی ایک صحافی تحفظ بل منظور کیا گیا تھا، مگر آج تک اُس کے تحت کمیشن قائم نہ ہو سکا۔ وہ قانون کہاں گیا؟ شاید فائلوں میں کہیں دبا رہ گیا۔

صحافی برادری میں اس بل کو لے کر محتاط امید پائی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے مثبت قدم کہہ رہے ہیں، جبکہ کچھ کے نزدیک یہ ایک "علامتی اقدام” ہے—ایسا عمل جو کاغذی سطح پر تو نمایاں ہو مگر عملی میدان میں کچھ نہ دے۔ خاص طور پر وہ صحافی جو دور دراز علاقوں، قبائلی اضلاع یا تنازعات والے خطوں میں کام کرتے ہیں، ان کے لیے تحفظ صرف قانون سے نہیں، ریاستی عمل سے جڑا ہوتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس سال کے شروع میں حکومت نے "پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ” یعنی PECA میں کچھ سخت ترامیم کی تھیں، جن کے تحت سوشل میڈیا پر "فیک نیوز” پھیلانے کے الزام میں گرفتاری، قید اور بھاری جرمانے کی گنجائش رکھی گئی۔ ان ترامیم پر صحافتی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا، اور انہیں آزادیٔ اظہار پر حملہ قرار دیا۔ ایسے میں اب یہ نیا قانون صحافیوں کے حق میں ایک قدم محسوس ہوتا ہے، لیکن ماضی کے تجربات دیکھتے ہوئے اعتماد آسان نہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست پہلے ہی جمع ہو چکی ہے جس میں صحافیوں کے تحفظ کے کمیشن کی جلد تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عدالت نے اس درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیا ہے، اور حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حکومت نے اب بھی تاخیر کی تو معاملہ عدلیہ کی نگرانی میں آ سکتا ہے۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ اس بل پر لفظ بہ لفظ عملدرآمد ہو۔ صرف قانون سازی کافی نہیں، جب تک اس کے پیچھے ریاستی سنجیدگی نہ ہو۔ کیونکہ صحافی وہ فرد ہے جو عوام اور اقتدار کے بیچ سچ کی ایک کڑی بنتا ہے۔ اگر اس کڑی کو کمزور رکھا گیا تو نتیجہ صرف ایک شخص کی خاموشی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی بے خبری ہو گی۔

یہ قانون ایک موقع ہے—اپنے ماضی کی غلطیوں کو سدھارنے، اور اُن لوگوں کو عزت دینے کا موقع جو ہر دن آپ کو سچ بتانے کی قیمت ادا کرتے ہیں۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں