
ضلع بونیر کے تحصیل چغرزئی جبگائے گاؤں کی رہائشی 60 سالہ سامیرون سیلابی ریلے کی وجہ سے ویران کمرے میں بکھرے سامان اور کیچڑ کو دیکھ کر زار و قطار رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ یہاں سے اس کی تین بیٹیوں اور تین نواسیوں کی لاشیں نکالی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے دن اس کی تین بیٹی اور تین نواسیں اس کمرے میں موجود تھے کہ اچانک پیچھے کی طرف سے سیلابی ریلی نے دیوار تھوڑ کر پانی اور بڑے بڑے پتھر گھر کے اندر داخل ہوگئے جس میں سارے موجود افراد موقع پر ہی پانی اور پتھروں کی وجہ سے جان سے چلے گئے۔
جبگائے گاؤں ضلع بونیر چغرزئی تحصیل کا وہ گاؤں ہے جہاں پر سب سے زیادہ 28 افراد میں جاں بحق جن میں 23 افراد ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جبکہ دس سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔
سامیرون کا سوتیلا بیٹا مسعود شاہ کہتا ہے کہ رواں سال 15 اگست کے دن تیز بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے بعد سے لیکر آج تک اس کے خاندان شدید ذہنی تناؤ سے گزر رہا ہے وہ اپنی ماں کو بیٹوں کی کمرے جہاں پر ان کی موت ہوگئی تھی کی طرف نہیں آنی دیتی اور وہاں پر باقاعدہ پردہ لگا کر اُس کو ڈھانپ لیا گیا ہے۔ سب کچھ کے باوجود وہ زبردستی وہاں آکر روتی ہے اور ذہنی مسائل کا سامنا کر رہی ہے کیونکہ وہ اپنوں کو یاد کرتے ہوئے عجیب قسم کی باتیں کرتی ہیں جبکہ بارش اور بادلوں سے ڈرتے ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے صوبائی ادارے کے مطابق خیبرپختونخوا میں سیلاب اور تیز بارشوں میں رواں سال اگست کے مہینے سے اب تک 415 افراد جاں بحق جبکہ 135 افراد زخمی ہوچکے ہیں جس میں سب سے زیادہ ضلع بونیر متاثر ہوا ہے جہاں پر ابھی تک 237 افراد جاں بحق اور 128 زخمی ہوچکے ہیں۔
ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر سردارعالم ضلع بونیر ڈگر میں نجی کلینک میں مریضوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب آنے کے بعد متاثرہ علاقوں کے زندہ بچ جانے والے ہر فرد کسی نہ کسی طریقے سے ذہنی طور متاثر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے کے نسبت اس وقت مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ شدید ٹرامہ سے گزر چکے ہیں جن کو ابھی ذہنی سکون کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا میں ضلع بونیر حالیہ سیلابوں میں سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ بونیر پیربابا ملک پور علاقے کے رہائشی شوکت علی کے گھر سیلابی ریلے نے مکمل طور پر تباہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سیلاب آیا تو وہ اپنے گھر پر موجود تھے، پانی کا بہاو اچانک تیز ہوگیا گھر کے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ وہ اپنے 13 افراد پر مشتمل خاندان کے ساتھ گھر کے چت پر چلے گئے اس وقت ان کی گھر کی چاردیواری پانی میں بہہ گیا تھا اور گھر کی صحن سے کئی فٹ اونچا پانی کا ریلا گزر رہا تھا۔ اُن کے بقول اس وقت ہم سب اللہ سے مدد مانگ رہے تھے ہم سب نے ایک رسی کے ذریعے سب کو ایک ساتھ باندھ لیا تاکہ اگر ہم مر بھی جائے تو ہم سب ایک ساتھ رہے جو قیامت کا منظر تھا جس کو ابھی بھی نہیں بول سکتا۔ انہوں نے کہا کہ وہی منظر بار بار یاد آتی ہے جس سے ذہنی سکون کھو چکا ہے۔ جبکہ اس کے خاندان والے خواتین اور بچے ڈر اور خوف کی وجہ سے ویران گھر کو نہیں آسکتے۔
ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شہاب اس وقت ایک غیرسرکاری ادارے کے ساتھ سیلاب متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو علاج کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بونیر میں سیلاب آنے کے بعد اکثر افراد ذہنی بیمار ہوچکے ہیں۔ ہر دوسرا شخص کوئی نہ کوئی ذہنی مسائل کی وجہ سے پریشان رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ روزانہ کے بنیاد پر سیلاب زدہ علاقوں میڈیکل کیمپس میں ڈیوٹی کرتے ہیں جس میں زیادہ تر مریض ذہنی مسائل کی وجہ سے دیگر مرض کی نشاندہی کرتے ہیں۔
شیلا افضل تحصیل ڈگر گاگڑہ کا رہائشی ہے ان کا گھر بھی سیلاب میں تباہ ہوچکا ہے اب ان کی رہنے کاجگہ بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خاص آمدنی ہے جس سے وہ اپنی گھر بنا سکی۔ انہوں نے کہا کہ لوگ بارش کیلئےدغا مانگتے ہیں لیکن وہ بارش کی بوند سے بھی ڈرتی ہے کہ کہی دوبارہ سیلاب نہ آجائے۔ انہوں نے کہا کہ دن کے وقت اپنے گھر میں مرمت کا کام کرتی ہے جبکہ رات کی تاریکی اور بارشوں سے ڈرنے کی وجہ سے رات گزارنے کیلئے رشتہ داروں کے پاس جاتی ہے۔
پینتالس سالہ صدیقہ پیر بابا ملک پور کی رہائشی ہے اور اس کا گھر سیلاب میں مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جو اب ایک ٹینٹ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکی ہے۔ صدیقہ کا ایک بیٹا فوت ہوچکا ہے جس کی بیوی اور تین بچیں ان کے ساتھ ٹینٹ میں رہتی ہے جبکہ ایک بیٹا لاہور میں محنت مزدوری کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کی شوہر اور وہ خود کھیتوں میں کام کاج کرتی تھی لیکن سیلاب نے ان کی فصل اور گھر مکمل طور پر تباہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارش کی بوند ہوتی ہی وہ قریبی مسجد یا رشتہ داروں کے پاس جاتی ہے کیونکہ اس جگہ سے اب ڈر لگتا ہے۔ دوسری جانب ٹینٹ میں رہنے کی سہولیات بھی نہیں ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر آمنہ خان کے مطابق فری میڈیکل کیمپوں میں علاج معالجے کیلئے خواتین اور بچے زیادہ اتے ہیں جن کا مسلہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اکثر مریضوں میں گبراہٹ اور پوری رات خوف کی وجہ سے نیند کا نا آنا اور بارش یا بادلوں سے ڈرنا شامل ہیں۔
اُنہوں نے کہاکہ ادویات کے ساتھ کچھ ایسے طریقے مریضوں کو بتایا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ گھر میں ذہنی دباو کو کم کرسکے۔
محکمہ صحت خیبرپختونخوا کے مطابق ضلع بونیر میں سیلاب کے بعد علاقے میں بہت سے بیماریوں نے جنم لیا ہے جس میں جلد، آنکھوں، ہیضہ، ملیریا، ڈینگی، نفسیاتی بیماریوں سمیت دیگر امراض شامل ہیں۔ مشیر صحت کے ترجمان عطاء اللہ کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں کو کم کرنے کیلئے حکومت نے فوری طور پر بونیر دیگر متاثرہ اضلاع میں ادویات اور دیگر طبی سہولیات فراہم کی ہیں اس کے علاوہ بہت سے سرکاری اور فلاحی اداروں کے جانب سے فری میڈیکل کیمپوں کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے۔
فلاحی ادارے کے فری میڈیکل کیمپ میں کام کرنے والی ڈاکٹر نادیہ کا کہنا ہے کہ پیربابا میں فری میڈیکل کیمپ میں اس کو ایک عورت آئی اور رو رہی تھی کہ اس سے پہلے اس کی تین بار حمل ضائع ہوچکا ہے اب چوتھے بار دوبارہ حمل ضائع ہونی کی ڈرتی ہیں کیونکہ اس بار اس کا شوہر بھی بےروزگار ہے اور سیلاب کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہوچکا جس کی وجہ سے وہ اپنی علاج کو جاری رکھنا ناممکن سمجھتی ہے۔ ڈاکٹر نادیہ نے بتایا کہ ہم نے اس کو بڑی تسلی دی لیکن اس کی آنکھوں میں خوف اب بھی بول نہیں سکتی ہو۔ انہوں نے کہا سیلاب کے بعد ذہنی مسائل کی وجہ سے درجنوں ماں اور بچوں کی صحت متاثر ہوچکا ہے۔
ذہنی مسائل کم کرنے کا طریقہ کار
انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں اکثر اس طرح مریض بھی اتے ہیں جن کا مسلہ بہت زیادہ ہوتا ہے جن کو باقاعدہ سیشن یا علاج کی ضرورت ہوتا ہے۔
فلاحی ادارے کے ساتھ کام کرنے والے سماجی کارکن سہیل خان ضلع بونیر پیر بابا کا رہائشی ہے وہ سیلاب آنے کے بعد علاقے میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ سیلاب زدگان کی مدد کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے لوگوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو زندگی گزارنے میں درپیش مسائل پریشان کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت ان کی کاروبارو شروع ہونے کے ساتھ جن افراد کی گھر مسمار ہوچکے ہیں ان کیلئے گھر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا سوچ بدل سکے اور روزگار میں مصروف ہوجائے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر آمنہ کا کہنا ہے کہ ذہنی تناؤ سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کھول کر اپنے مسلے کو بیان کرے اور اپنی دماغ پر بوجھ نہ ڈالے، اور ہمیشہ مثبت سوچ کرے جبکہ منفی سوچ سے باز انا ضروری ہے۔
ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات ڈاکٹر سید الیاس شاہ کا کہنا ہے کہ انسان کیلئے ضروری ہے کہ اس کو پرسکون ماحول میسر ہو اور تھکاوٹ کم ہو۔ خواتین پہلے سے بھی گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں جبکہ موجودہ حالات میں سیلاب جیسے بڑے سانحے نے مزید پریشان کر رکھے ہیں۔