بارہ اکتوبر سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدہ تعلقات کے بناء پر پانچ سرحدی گزرگاہیں لوگوں کے آمد ورفت اور تجارت کے لئے بند ہوچکے ہیں۔افغان طالبان کے نائب وزیرِاعظم برائے اقتصادی اُمور ملا عبدالغنی برادر نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ تجارت کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا ہے۔ انہوں نے افغان تاجروں کو ہدایت کی کہ وہ پاکستان پر انحصار کم کریں اور آئندہ تین ماہ کے اندر متبادل تجارتی راستے اور ذرائع تلاش کریں۔ برادر کا کہنا ہے کہ پاکستان بار بار سرحدیں بند کر کے افغان تجارت کو نقصان پہنچاتا ہے اور ایسے حالات میں مستحکم کاروبار ممکن نہیں۔ انہوں نے پاکستانی ادویات کے معیار پر بھی شدید تنقید کی اور ان کی درآمد بند کرنے کی ہدایت دی ہے۔ برادر نے واضح کیا کہ اگر پاکستان تجارت جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے مضبوط اور قابلِ بھروسہ یقین دہانیاں دینا ہوں گی کہ مستقبل میں سرحدیں بلاجواز بند نہیں کی جائیں گی۔ ان کے مطابق افغانستان کو معاشی طور پر خود مختار ہونا چاہیے اور تجارتی معاملات میں پاکستان پر انحصار کم کرنا ہوگا۔

ملا غنی برادر کے بیان کے جواب میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر افغانستان پاکستان کے راستے تجارت کم یا بند کرتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوگا۔ ان کے مطابق افغان تجارت کا دیگر ممالک ایران، ترکی یا ترکمانستان کی جانب منتقل ہونا پاکستان کے لیے خوش آئندہے کیونکہ اس سے سرحد پر دباوکم ہوکر اسمگلنگ اور دہشت گردی کے خطرات میں بھی کمی آئے گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بڑی مقدار میں افغان سامان کراچی بندرگاہ کے ذریعے آتا ہے مگر لیکن پاکستان اسمگلنگ ہوکر پاکستان ہی میں فروخت ہوتا ہے، اس لیے اس رجحان کے ختم ہونے سے پاکستان کو معاشی نقصان نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرحدپرنقل و حرکت میں کمی سے پاکستان کو سیکورٹی اور انتظامی دونوں حوالوں سے فائدہ پہنچے گا۔

افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہے یعنی اُن ممالک میں شامل ہیں جن کے سمندر میں حصہ نہیں ہے،جس کی وجہ سے دنیا کے ساتھ تجارت کے لئے پاکستان کے بندرگاہوں پر انحصار کررہاہے۔ پاکستانی بندرگاہوں کے راستوں سے ہونے والے تجارت کو ٹرانزٹ ٹریڈ کہاجاتاہے۔ اس میں پاکستان کے سرزمین کو راہداری کے طورپر استعمال کیاجاتاہے تاہم پاکستان میں تیار ہونے والے مصنوعا ت اور زرعی اجنا س جبکہ افغانستان سے زرعی پیدوار کے ساتھ معدنیات کے برآمدات و درآمدت کے تجارت ہوتاہے۔حال ہی میں سرحدی گزرگاہوں کے بندش کے بعد پاکستان میں ٹماٹر فی کلو ریٹ سات سو تک پہنچ گیا تھا جبکہ انار، سیب اور انگور سمیت کھیرے کے ریٹ تاریخ کے بلند ترین سطح تک پہنچ گیا تھا۔

پاک افغان کشیدہ تعلقات کے وجہ سے پانچ سرحدیں گزرگاہیں جن میں طورخم، خرلاچی، علام خان،انگور اڈہ اور چمن تجارت سمیت لوگوں کے آمد ورفت کے لئے بند ہوچکے ہیں۔حالیہ کشیدگی سے پاکستان کے پیداوری یونٹ کو بھی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔فیضان احمد پچھلے بیس سالوں سے حیات آبا انڈسٹریل اسٹیٹ میں ماچس کے فیکٹری چلا رہاہے۔ تیار کردہ ماچس کو افغانستان اور وسطی ایشائی ممالک سمیت روس تک برآمد کررہاہے تاہم پاک افغان کشیدگی کے بناء پر بند سرحدی گزرگاہوں سے اُن کے مالی مسائل بڑھ چکے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ حیات آبا انڈسٹریل اسٹیٹ سمیت صوبے کے دیگر علاقوں میں قائم صنعتوں کا انخصار افغانستان اور وسطی ایشائی ممالک کو مصنوعات کے برآمد پر ہے۔ اُن کے بقول کارخانہ داروں نے آڈار کے مطابق مال تیار کیا ہے تاہم راستوں کے بندش سے لے جانا ممکن نہیں ہے۔

خیبر پختو نخوا کے مختلف علاقوں میں ڈھائی سوتک ادویات تیار کرنے والے کارخانے کام کررہاہیں۔ کامران خان حیات آباد انٹرسٹر اسٹیٹ میں ادویہ ساز کمپنی میں منیجر کے حیثیت سے کام کررہاہے۔اُنہوں نے پاکستان میں تیا ر ہونے والے ادویات کے لئے افغانستان ایک بہترین مارکیٹ ہے تاہم تجارت مین مسائل کے بناء پر مزکورہ شعبہ مالی مسائل کا شکار ہورہاہے۔ اُنہوں نے کہ دونوں ممالک کو دوطرفہ تجارت میں آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمد ات میں اضافہ ہو کر ملک کے خزانے کو فائدے کے ساتھ مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقعیں میسرآئینگے۔

تاجررہنماؤں کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی سرگرمیاں متاثر ہونا دونوں ممالک کے لئے نقصان کا سبب بنے گا۔ خیبر پختونخوا میں صنعتیں پہلے سے بدامنی اور دہشت گردی سے متاثر ہیں تاہم افغانستان کے ساتھ تجارت کے بندش سے پیداوری یونٹ کے مسائل میں مزید اضافہ ہورہاہے۔ صنعتی شعبہ متاثر ہونے سے ہزاروں کے تعداد میں لوگ بے روزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔

تاجر رہنماء محمد ولی کاکہنا ہے کہ چندسال پہلے صرف ماچس کے ستر ہزار کاٹن برآمد کیا جاتاہے جن میں زیادہ افغانستان اور وسطی ایشائی ممالک کو بھیجا جاتاہے تاہم وقت کے ساتھ دوطرفہ تجارت میں مسائل میں اضافے اور باربار سرحدوں کے بندش سے یہ مقدار کئی گنا کم ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارت کو نقصان پہنچانے سے دونوں ممالک متاثر ہونگے کیونکہ صنعت اورر زرعی اجناس کے درآمد ات اور برآمدت کے لئے قریب و آسان منڈیا ں رکھتے ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا کے صنعت پہلے سے دہشت گردی اور بدامنی سے متاثر ہے جبکہ افغانستان کو برآمدات کے بند ہونے نہ صرف کارخانہ دار بلکہ ہزاروں کے تعداد میں مزدور بے روزگار ہونے کے اندیشہ ہے۔

پاکستان سے افغانستان کو برآمد ہونے والی اشیاء میں خوراک، تعمیراتی سامان، ادویات، ماچس، پلاسکٹ کے بنے اشیاء اور صنعتی مصنوعات نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔مالی سال 2024–25 کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی افغانستان کو برآمدات تقریباً 1.05 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جن میں سب سے زیادہ برآمد ہونے والی کیٹیگری اناج کی ہے جس کی مالیت تقریباً 400.8 ملین ڈالر رہی، جن میں چاول سرفہرست ہے۔ اس کے بعد چینی اور شکر سے بنی مٹھائیاں تقریباً 235.4 ملین ڈالر مالیت کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں، جبکہ ادویات کی برآمدات 186.7 ملین ڈالر تک پہنچتی ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں سیمنٹ کی برآمدات کا حجم تقریباً 85.6 ملین ڈالر ہے۔ اسی طرح سبزیاں، جڑ والی سبزیاں تقریباً 75.3 ملین ڈالر اور پھل و گری تقریباً 61.3 ملین ڈالر مالیت کے ساتھ اہم برآمدات میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ خوراک سے متعلق دیگر تیار مصنوعات تقریباً 52.9 ملین ڈالر اور گاڑیوں و موٹر سائیکلوں کے پرزے تقریباً 45.3 ملین ڈالر مالیت کے ساتھ برآمد کیے گئے۔ مجموعی طور پر پاکستان سے افغانستان کو چاول، چینی، ادویات، سیمنٹ، سبزیاں، پھل اور مشینی پرزے بڑی مقدار میں برآمد ہوتے ہیں، اور مالی 2024 میں یہ مجموعی برآمدات تقریباً 1.51 ارب ڈالر تک ریکارڈ کی گئیں۔

پاکستان افغانستان سے بنیادی طور پر زرعی، معدنی اور خام صنعتی اشیاء درآمد کرتا ہے۔سال 2024 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی افغانستان سے مجموعی درآمدات تقریباً 658.72 ملین ڈالر رہیں۔ سب سے زیادہ درآمد ہونے والی شے کپاس ہے جس کی مالیت تقریباً 224.82 ملین ڈالر بنتی ہے، جب کہ سبزیاں اور جڑ والی سبزیاں جن میں پیاز، ٹماٹر اور دیگر روزمرہ استعمال کی سبزیاں شامل ہیں تقریباً 203.49 ملین ڈالر کے ساتھ دوسری بڑی درآمدی کیٹیگری ہے۔ پھل اور گریاں بھی ایک نمایاں درآمدی شعبہ ہیں جن کی مالیت 91.57 ملین ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ اس کے علاوہ پاکستان افغانستان سے منرل فیولز اور تیل سے بنی مصنوعات تقریباً 89.06 ملین ڈالر، چائے، کافی اور مصالحے تقریباً 17.13 ملین ڈالر، بیج اور اناج تقریباً 12.16 ملین ڈالر، جبکہ اناج تقریباً 4.33 ملین ڈالر مالیت کے درآمد کرتا ہے۔ دیگر کم مالیت کی درآمدات میں خام چمڑا (2.86 ملین ڈالر) اور2.42 ملین ڈالر تمباکو اور اس کی مصنوعا ت شامل ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان افغانستان سے کپاس، سبزیاں، پھل، تیل کی مصنوعات، مصالحے، بیج اور خام چمڑا جیسی متعدد بنیادی اشیاء درآمد کرتا ہے جن کا زیادہ تر تعلق کھیتی باڑی اور خام صنعتی شعبوں سے ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت گزشتہ بارہ اکتوبرسے مکمل طور پر معطل ہے جس کے باعث سرحد کے دونوں جانب پانچ ہزار مال بردار گاڑیا ں کھڑے ہیں جبکہ افغان چمبر آف کامرس کا دعوا ہے کہ افغان تاجروں کا پاکستان میں بارہ ہزار کینٹر پھنس چکے ہیں۔ دوسرے جانب پاکستانی تاجروں کا کہنا ہے کہ نہ صرف سے اُن افغانستان سے بلکہ وسطی ایشائی ممالک سے د رآمدی ایشاء کو بڑی تعداد میں ٹرک سرحدی گزرگاہوں کے بندش کے بناء پر سرحد پار کھڑے ہیں ۔ افغانستان گزشتہ سال پاکستان کی 8ویں بڑی برآمدی منڈی تھا اور رواں مالی سال میں برآمدات میں 31 فیصد اضافہ بھی دیکھا گیا تھا۔ غیر رسمی تجارت کے اعداد شامل کرنے سے پاکستان کی اصل برآمدات سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ سمجھی جاتی ہیں۔ چمن بارڈر سے روزانہ 300 کے قریب ٹرک پاکستانی مصنوعات لے کر افغانستان جاتے تھے، جبکہ واپسی میں آنے والی گاڑیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ پاکستان کا افغانستان کی اجناس مارکیٹ میں حصہ پہلے 95 فیصد تھا جو بھارت کی مداخلت کے بعد کم ہوکر 65 فیصد رہ گیا۔ دوسری جانب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا حجم مالی سال 2023 میں 6.5 ارب ڈالر سے زائد تھا جو 2024 میں کم ہوکر 2.3 ارب ڈالر اور 2025 میں مزید گھٹ کر 1 ارب ڈالر رہ گیا۔ افغانستان سے پاکستان کی سب سے اہم درآمد اعلیٰ معیار کا کوئلہ ہے، جو کم فاصلے کے باعث جلد پہنچ جاتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ تجارت کی بندش نہ صرف دونوں ممالک کی معیشتوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ مارکیٹ شیئر میں مزید تبدیلیوں کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں