
ہرسال پاکستان سمیت پوری دنیا میں یکم دسمبر ایڈز کے عالمی دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔جس کا مقصد اس مہلک مرض کے حوالے سے لوگوں میں اگاہی پیدا کرنا اور اس بیماری کے متعلق بے بنیاد باتوں اور منفی معاشرتی رویوں کے سدباب کرنا ہوتا ہے ۔ کیونکہ خیبر پختون خوا کے دیگر اضلاع کی طرح قبائلی علاقوں میں اس بیماری میں مبتلا مریض اب بھی ان بے بنیاد باتوں کی وجہ سے بروقت تشخیص سے گریز کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایڈز کے مریضوں میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔
ایچ آئی وی، ہپٹائٹیس اور تھلیسیمیاں کنٹرول پروگرام خیبر پختونخوا کے مطابق رواں سال پچیس نومبر تک 1276نئے مریض رجسٹرڈ ہونے کے ساتھ صوبے میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 9ہزار 749تک پہنچ چکاہے جن میں 2ہزار454خواتین ہیں۔ پچھلے سال 1265مریض رجسٹرڈ ہوچکے تھے۔

خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی مجموعی تعداد 1,488 ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق شمالی وزیرستان میں سب سے زیادہ 383، خیبر میں 313،اور کرّم میں 242 باجوڑ میں 231، جنوبی وزیرستان میں 162 اور مہمند میں 88 جبکہ سب سے کم مریض اورکزئی میں 69 مریض رجسٹرڈ ہیں۔
ضم اضلاع ایڈز کنٹرول پروگرا م کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات کے مطابق مطابق جون2022سے تمام سات اضلاع میں تمام سرگرمیاں معطل ہیں۔ معلومات کے مطابق 2003-04سے ہر سال سابق فاٹاکے سالانہ ترقیاتی فنڈ سے”ایڈز کنٹرول پروگرام ان فاٹا "کے تحت فنڈ جاری کیاجاتاتھا تاہم جون2022میں پہلے سے موجود پی سی ون کے مدت ختم ہوئی۔انضمام کے بعد 2021میں پوری قبائلی اضلاع میں پروجیکٹ ملازمین کے مستقلی کے لئے صوبائی اسمبلی سے ایکٹ پاس کیاگیا جو چھ مہینے پہلے تمام کنٹریٹ ملازمین کو مستقل کردیا گیا۔
ذرائع کے مطابق مرکزی دفتر سمیت ضم اضلاع میں تعینات عملے کے بائیس ملازمین کو مستقل کردیا گیا ہے جن میں پروجیکٹ منیجر، لیب ٹیکنشن، کمپیوٹر آپرئٹر، ڈائیور اور نائب قاصد شامل ہیں۔ مذکوہ ملازمین نے مستقل ہونے کے بعد چھ مہینوں کے تنخواہ وصول کرلی ہے۔
ذرائع کے مطابق موجودہ وقت میں ضم اضلاع کے ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت ٹیسٹ اور ادویات سمیت تمام خدمات معطل ہیں جبکہ فنڈ کے حصول کے لئے محکمہ صحت کو پی سی ون بھیج دیا گیا ہے۔ معلومات کے مطابق تمام اضلاع کے ہیڈکواٹرز ہسپتالوں میں ٹیسٹ کے سہولت موجود ہے جن کے ماہانہ پورٹ ضم اضلاع کے ایڈز کنٹرول پروگرام کو بھیجا جاتاہے۔

صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق صوبے میں تیرا مراکز میں ٹیسٹ، ادویات اور ذہنی بحالی کے مفت سہولیات فراہم کیا جارہاہے۔ادارے کے مطابق ضم اضلاع کے باجوڑ خار ہیڈکواٹر ہسپتال، شمالی وزیر ستان کے میران شاہ ہیڈکواٹر ہیڈکوارٹر ہسپتال اور کرم میں پارہ چنار ہیڈکواٹر ہسپتال میں مراکزکام کررہے ہیں۔صوبای ایڈز کنٹرول پرگرام کے اعلی حکام کاکہنا ہے کہ جلد ضم اضلاع کے پروگرام کو صوبے میں ضم کرکے باقاعدہ سے دوبارہ فغال کیاجاینگا۔
ایڈز کنٹرول پروگرام ملاکنڈ کے ڈویژنل کوارڈینیٹر ڈاکٹر مرتضی کے مطابق ان کے ساتھ ملاکنڈ ڈویژن میں تقریبا 1400 ایڈز کے مریض رجسٹرڈ ہیں جس میں باجوڑ کے 141 مریض شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایڈز کے مریض اکثر اپنے ضلع کے بجائے دوسرے اضلاع میں اپنے آپ کو رجسٹر کرتے ہیں۔ تاکہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو۔جس کو بعد میں ہم ان کے اپنے اپنے علاقوں کو بھیج دیتے ہیں تاکہ اس کو علا ج میں آسانی ہوں ۔ اس لئے ہمارے ساتھ اعداد و شمار میں ردبدل ہوتی رہتی ہے۔ موجودہ وقت میں ان کے ساتھ باجوڑ میں 141 ایڈز کے مریض رجسٹرڈ ہیں جو باجوڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔
کیا ایڈزصرف غیر فطری جنسی تعلقات ہی سے پھیلتاہے؟
ہمارے معاشرے میں عام تاثر یہ ہے کہ ایڈز کی بیماری صرف غیر فطری جنسی تعلقات سے پھیلتا ہے ، اس حوالے سے ڈاکٹر مرتضی کاکہنا تھا کہ یہ تاثر بلکل غلط ہے کیونکہ ایڈز کی بیماری صرف غیر مرد یا عورت کے ساتھ جنسی تعلقا ت قائم کرنے سے نہیں لگتا بلکہ یہ دوسرے عام بیماریوں کی طرح ایک انسان سے دوسرے انسان کو مختلف طریقوں سے منتقل ہوتا ہے۔
اُنہوں نے کہاکہ علاج معالجے میں استعمال شدہ آلات کے کئی مریضوں کے لے استعمال کرنا،حجامت کے لئے نئے بلیڈ کا استعمال نہ کرنا، غیر محفوظ اور غیر فطری جنسی تعلقات، اور ایک عام مریض کو ایڈز سےمتاثر فرد کے خون کے انتقال سے یہی بیماری ایک صحت مند انسان کو متاثر کرسکتاہے۔

کیاایڈز لاعلاج ہے؟
ڈاکٹر مرتضی نے بتایا کہ کسی بھی بیماری سے خوف زدہ نہیں ہوناچاہیے اور ایچ آئی وی ایڈز بھی اُن بیماریوں میں شامل ہیں جس کے حوالے سے ماضی میں مختلف قسم کے پرا پیگنڈے کیں گئے ہیں جس کے وجہ سے مریض یا متاثر فرد خوف کی وجہ سے موت کے منہ میں چلا جاتاہے۔
اُنہوں نے کہاکہ سب سے پہلے اختیاط ضروری ہے تاکہ کوئی اس بیماری سے متاثر نہ ہوسکے لیکن آگر خود انخوستہ کسی کو یہ مسئلہ ہوجاتاہے تواُس کو چھپانے کے بجائے ملاکنڈ ڈویژن کے ہر ضلع میں قائم مراکز کے ساتھ اپنے آپ کو رجسٹرڈ کرکے باقاعدگی سے وہاں سے مفت معائنہ اور ادویات حاصل کرکے عام لوگوں کی طرف زندگی گزرسکتاہے۔

اُنہوں نے بتایاکہ ایڈز سے متاثر افراد کے بڑی تعداد اپنے کام کاج کرتے ہیں اور اپنا سماجی زندگی سکون کے ساتھ گزرتاہے لیکن ادویات کے استعمال میں غفلت کی بالکل بھی گنجائش موجود نہیں۔ان کے بقول ایڈز شوگر کی طرح ایک بیماری ہے جو ایک بار کسی کو لاحق ہو سکیں تو وہ ختم نہیں ہوسکتی لیکن اس کے علاج اورادویات کی باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے انسان نارمل زندگی گزار سکتاہے۔
ملاکنڈ ڈویژن میں ایڈز کے آگاہی کے لئے اقدامات
ڈاکٹر مرتضی کے مطابق پورے ملاکنڈ ڈویژن میں ایڈز کے حوالے سے وہ لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے لئے آگاہی سمینارز اور علاقوں کی سطح پر سیشنز کراتے ہیں جس میں علاقے کی مذہبی ،سیاسی،سماجی اور قبائلی عمائدین کو مدعو کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کی بات لوگ سنتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں اس لئے ہم ان مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں کے خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں اس بیماری سے متعلق جو غلط فہمی ہے وہ دور ہو جو جائے اوروہ علاج کیطرف آجائے۔
اس کے علاوہ ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر آگاہی واک کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ آج بھی اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال خارباجوڑ ایڈز کنٹرول پروگرام کے زیر اہتمام ایک آگاہی واک کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ایم ایس ڈاکٹر حیات آفریدی ، ڈی ایم ایس ڈاکتر نصیب گل اور دگر ہیلتھ سٹاف کے علاوہ مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔

ڈاکٹر مرتضی نے تمام لوگوں پر زوردیا کے وہ اس سلسلے میں صحت کے عملے سے تعاون کریں تاکہ اس موذی مرض کو پھیلنے سے روکیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس بیماری کو لوگ اسی طرح چھپاتے رہیں اور بروقت علاج کے لئے نہیں آتے تو خدشہ ہے کہ یہ بیماری ملاکنڈ ڈویژن میں تشویشناک حدتک پھیلی گی۔



