
پہاڑوں کے دامن میں واقع ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کے ایک چرچ میں مقامی مسیحی برادری کرسمس کی خوشیاں منا رہی ہے اور مذہبی رسومات ادا کر رہی ہے۔ چرچ میں موجود بچے، مرد اور خواتین نئے لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، جبکہ بچوں کے ہاتھوں میں چرچ کی جانب سے دیے گئے تحائف ہیں جو اس موقع پر خصوصی طور پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
مسیحی برادری کے سربراہ ارشد مسیح نے بتایا کہ کرسمس کی تیاری کئی ہفتے پہلے خریداری سے شروع ہو جاتی ہے، تاہم تقریبات کا باقاعدہ آغاز 24 دسمبر سے ہوتا ہے۔ اُن کے مطابق رات بارہ بجے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں کیک کاٹا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 25 دسمبر کی صبح لوگ عبادت کے لیے چرچ جاتے ہیں، جس کے بعد رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اُن کے بقول مسیحی برادری اس موقع پر دنبے ذبح کرتی ہے اور بازار سے گوشت لا کر روایتی کھانے، جن میں پٹا تکہ، سیخ تکہ اور روسٹ وغیرہ شامل ہیں، خصوصی طور پر تیار کیے جاتے ہیں۔

لنڈی کوتل کینٹ میں مرکزی چرچ واقع ہے، جبکہ اندرونِ شہر اور بائی پاس کالونی میں بھی چرچز موجود ہیں جہاں مذہبی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاسٹر الیاس جارج کرسچن کالونی میں واقع چرچ کے پادری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کرسمس مسیحی مذہب میں انتہائی اہمیت کا حامل تہوار ہے، جسے بڑے جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اُن کے مطابق 24 دسمبر کی شام سے ہی چرچز میں مذہبی رسومات کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے، جن میں ہر عمر کے افراد شرکت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی اضلاع میں مقیم اقلیتی برادری کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔
راشد مسیح کا کہنا ہے کہ علاقے کے مسیحی اور مسلمان غم اور خوشی کی تقریبات میں ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور شرکت کرتے ہیں۔ اُن کے مطابق انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے ہے۔
لنڈی کوتل کے سماجی کارکن سید محمد شینواری نے بتایا کہ یہاں دہائیوں سے مسیحی برادری آباد ہے اور مقامی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات خوشگوار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود اور ان کے دوست خوشی اور غم دونوں مواقع پر مسیحی برادری کے گھروں میں جاتے ہیں، اور اسی طرح مسیحی خاندان بھی عیدین کے موقع پر ان کے ہاں آتے ہیں، جو بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال ہے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے ایک حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ صوبے بھر میں تمام مسیحی ملازمین کو 20 دسمبر تک تنخواہیں اور پنشن ادا کی جائیں، تاہم مسیحی برادری کا کہنا ہے کہ اس اعلان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ارشد مسیح نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مسیحی برادری کی اکثریت نوکر پیشہ یا ریٹائرڈ ملازمین پر مشتمل ہے اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تنخواہ یا پنشن ہی ہے۔ اُن کے مطابق کرسمس کی تیاری کے لیے رقم درکار ہوتی ہے اور بروقت ادائیگی سے ہی یہ خوشیاں وابستہ تھیں، مگر تاخیر کے باعث بعض افراد کو گھریلو ضروریات کے لیے قرض لینا پڑا۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا کہ جن محکموں نے حکم کے باوجود مسیحی ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن ادا نہیں کیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اقلیتی رکن بابا جی گورپال سنگھ نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ کے حکم کے مطابق بیشتر محکموں میں تنخواہوں کی ادائیگی کی گئی، تاہم اگر کسی محکمے نے اس پر عمل نہیں کیا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بار صوبائی حکومت نے منظم اور بہتر انداز میں کرسمس کی تقریبات کا انعقاد کیا، جس سے مسیحی برادری کی خوشیوں میں اضافہ ہوا۔ اُن کے مطابق 25 دسمبر کو صوبے بھر میں چرچز کی سیکیورٹی کے لیے 300 اضافی پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔ ضلع خیبر کے پولیس جانب سے چرچز پر پولیس بھاری نفری تعینات کردیاگیاہے۔

ضلع خیبر میں مسیحی برادری 1914 میں برطانوی دور میں ملازمت کے سلسلے میں آئی تھی۔ موجودہ وقت میں لنڈی کوتل میں تقریباً دو ہزار جبکہ جمرود میں 75 مسیحی خاندان رہائش پذیر ہیں۔



