محمد عالم آفریدی
ضلع خیبر وادی تیراہ حسین و جمیل پہاڑوں کے ساتھ زرعی پیداوار کیلئے بھی منفرد مقام رکھتا ہے۔ مقامی کاشتکاروں کے مطابق وہ اپنی زرعی زمینوں پر ہر سال موسم کے مطابق سبزیاں اور فصیلیں کاشت کرتی ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال وادی تیراہ میں سیلاب آتے ہیں جس سے زرعی شعبے کو کافی نقصان پہنچتاہے۔ رواں سال بھی سیلاب نے تیراہ کے زرعی زمینوں کو نقصان پہنچایا ہے جس سے کھڑے فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور کچھ زمین پانی بہا کر لے گئے ہیں۔
کاشتکاروں کے مطابق تیراہ کی زیادہ تر زمینیں پہاڑوں اور برساتی نالے کی سائیڈ پر ہیں جو بہتر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب میں زیادہ تر نقصانات پہنچ تھے ہے۔
پشاور سے 115 کلومیٹر کےفاصلے پر مغرب کی جانب واقع ضلع خیبر کے دور افتادہ علاقہ وادی تیراہ خوبصورتی لحاظ سے مشہور ہے۔ گنے جنگلات سر سبز و شاداب علاقہ وادی تیراہ سیاحت کے لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے ہر سال یہاں پر مختلف علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں
سردی میں برفباری اور گرمی میں خوشگوار موسم کی وجہ سے سیاح تیراہ کا روح کرتے ہیں۔ پشاور میں شدید گرمی اور درجہِ حرارت 42 سنٹی گریڈ تک پہنچاتا ہے لیکن تیراہ کا درجہِ حرارت 10 یا 12 تک ہوتا ہے جسے موسم کافی خوشگوار رہتا ہے۔
وادی تیراہ کے پینتیس سالہ محب اللہ آفریدی بتاتے ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے اپنی آبا و اجداد کے زمین پر کاشتکاری کررہا ہے اور ہر سال موسم کے مطابق سبزیاں اگاتا ہے لیکن رواں سال سیلابی ریلے کے ساتھ زمین کے زیادہ تر حصہ سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کی مجھے اپنے آباء و اجداد سے ڈیڑھ ایکڑ زمین وراثت میں ملی ہے اور یہ سارا زمین برساتی نالے کی کنارے واقع ہے۔ اس سال سیلاب میں زمین کی پچیس فیصد حصہ بہہ گیا ہے۔
60 سالہ عبداللہ نور وادی تیراہ ملک دن خیل کا رہنے والا ہے۔ اُن کے کمائی کا واحد زریعہ زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والا آمدن ہے لیکن ہرسال سیلاب کی وجہ سے اُن کے فصل کو نقصان پہنچنے سے اُن کے آمدن میں کمی آرہاہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ نقصانات سے بچاو کے لے حکومت کچھ نہیں کررہاہے اور حالیہ نقصانات کے حوالے سے اب تک کوئی سروے نہیں ہوا ہے ۔
تیراہ کے مقامی کاشتکاروں کے ایک رجسٹرڈ تنظیم ٹماڈو کام کررہاہے۔ تنظیم کے صدر فضل ربی آفریدی نے کہاکہ تیراہ کے 90 فیصد مقامی آبادی کے کمائی کا انحصار زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والے آمدن پر ہے تاہم پچھلے کئی سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھنے سے فصلوں پر بیماریوں میں اضافہ ہونے کے ساتھ سیلاب اور ژالہ باری سے کاشتکاروں کو بھاری مالی نقصان کاسامنا کرنا پڑتا ہے.
محکمہ زراعت خیبر کے عہدیدار شفقت بتاتے ہے کہ تیراہ کی زیر کاشت زمین کے کل رقبے کے بارے میں اعداد شمار اب تک کسی سرکاری ادارے کے پاس موجود نہیں ہے کیونکہ یہاں پر پہلے سے زمین کے ریکارڈ موجود نہیں۔ وہ بتاتے ہے کہ تیراہ زمینداروں کے ساتھ محکمہ زراعت اور امدادی اداروں کی تعاون سے کھاد ، پودے ، اور تحم تقسیم کرتے ہیں تاہم پچھلے کچھ عرصے سے محمکہ زراعت کے ساتھ اپنی کوئی فنڈز موجود نہیں ہے۔
زمینوں کی کٹاؤ کے ساتھ زرعی زمینوں میں کافی کمی آنا شروع ہوگئی ہے جس سے ہر سال فصلوں میں کمی آتی ہے اور زمیندار نے جو ٹارگٹ اپنے لئے مقرر کیا ہو وہ پورا نہیں ہوتا ہے ۔جس سے زمینداروں میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور زراعت چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
شفقت بتاتے ہیں کہ اس سے بچنے کا حل یہ بھی کی برساتی نالے سائیڈ زمینیں کو مضبوط سائیڈ وال بنایا جائے یا جہاں پر سیلاب زیادہ اور حطرناک آتے ہے وہ پر پودے ( جنگلات) لگایا جائے ۔جس کی وجہ سے زرعی زمینیں کافی حدتک بہچ سکتے ہیں۔