عثمان خان

اپر دیر واڑی کے رہائشی محمد حسین دیر کی نہاگدرہ اور سلطان خیل کے پہاڑوں سے قدرتی طور پر اگنے والے مشروم لاکر بڑی محنت سے پکھاتے ہیں۔ جس کو کھانے کیلئے دور دور سے اس کے رشتہ دار اور دوست آئے ہیں۔ حسین کے مطابق مون سون کی بارشوں میں بارش ہونے کے بعد اکثر ان کے دوست یا رشتہ دار ان سے مشروم کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اور وہ یہاں ان کے گھر آکر اس لذیذ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

پہاڑوں میں پائے جانے والا یہ مشروم اپر دیر کا مشہور ڈش ہے جو کہ لوگ بڑے محنت سے بناتے ہے اور شوق سے کھاتے ہے۔ یہ مشروم صرف مون سون کے موسم میں اپر دیر کے نہاگدرہ، کارو درہ، سلطان خیل اور عشیرئی درہ کے پہاڑوں میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہ مشروم صرف مون سون کے موسم میں اگتے ہیں۔ جو جون اور ستمبر کے درمیان میں پہاڑوں میں زیادہ تر درختوں کے نیچے اگتے ہیں۔

اپر دیر کے پہاڑوں میں مشروم کی کئی قسمیں پیدا ہوتے ہیں ،لیکن لال اور سفید رنگ کا مشروم کھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے باقی مشروم زہریلے اور مضر صحت ہوتے ہیں۔

محمد حسین کا کہنا ہے کہ جو مشروم کھانے کے لئے استعمال ہوتے ہے وہ مقامی لوگ آسانی سے پہچانتے ہے۔ اور یہ کھانے میں دنبے کے گوشت سے زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں جو مہمان آتے ہے وہ بھی بڑی شوق سے یہ مشروم کھاتے ہے اور پھر اپنے ساتھ بھی لے جاتے ہیں ۔

تحقیق کے مطابق مشروم چائینہ میں بڑے مقدار میں پیدا ہوتی ہے جو پوری دنیا کو سپلائی کیا جاتا ہے لیکن اس میں زیادہ تر لوگ خود فارمز میں کاشت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھی مشروم کی کاشت دنیا کے بہت سے ممالک میں ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں بھی مشروم کی کاشت ایک صنعت کا درجہ اختیار کرتی جارہی ہے، امہرین کے مطابق مشروم ایک مزیدار اور مفید غذا ہے جس میں پروٹین اور غذائیت کے وہ تمام اجزاء پائے جاتے ہیں جو ہماری صحت کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

حسین کا کہنا ہے کہ اپر دیر میں قدرتی طور پر اگنے والے مشروم زیادہ تر شابلوط کے درختوں کے پتوں اور جرڑوں پر اگتے ہےاور ذائقے میں میٹھا ہوتے ہیں۔

اپر دیر کی مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ  اس قسم کے مشروم دوائیوں میں بھی استعمال ہوتے ہے اور یہاں اس موسم میں شہروں سے تاجر بھی لینے آتے ہے جو 1200روپے فی کلو لیتے ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ مشروم ذیابیطس کے مریضوں کیلئے بھی مفید ثابت ہوتی ہے اور ذیابیطس اور بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے یہ بہترین غذا ہے۔

اپر دیر واڑی کے رہائشی انور خان کا کہنا ہے کہ یہ اس مشروم کی حصول میں یہاں کے لوگوں کو بڑی محنت کرنا پڑتا ہے کیونکہ اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنا اور شابلوط کے درختوں میں کانٹوں سے بھی زخمی ہوتے ہے۔

انور خان کے مطابق اسکا پکھانا باقی کھانوں سے آسان ہوتا ہے اس کا بیرونی چلتا اتار کر گھی میں انڈے کے طرح کم وقت میں تیار ہوتا ہے اس کے علاہ پکوڑوں میں تیار جاسکتا ہے۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں