Oplus_0

دنیا میں ہرمعاشرے کے اپنے اپنے اقدار ہوتے ہیں جو اس کو دوسرے معاشروں سے ممتازکرتی ہے ۔ اوریہی اقدار دوسرے معاشروں میں ان کی پہچان بن جاتی ہے۔ دنیا نے آج بہت ترقی کی ہے جس کے وجہ سے اگر ایک طرف دنیا ایک گاؤں بن گیا ہے تو دوسری طرف معاشرتی قدریں کمزور ہوگئی ہے ۔ اگرچہ اب اس قبائلی اقدار کے صرف ہمارے قبائلی معاشروں میں کچھ نہ کچھ جھلک ملتی ہے۔

ضلع باجوڑصوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کا ایک ضلع ہے ۔ جوایک قبائلی معاشرہ ہے اس میں بھی کچھ ثقافتی روایت اب بھی باقی ہے ۔ اس میں ایک روایت "اشر” کا بھی ہے۔ "اشر” کا مطلب ہے اکٹھے کام کرنا یعنی بہت سے لوگوں کا مشترکہ طورپر ایک کام کو سرانجام دینا "اشر” کہلاتا ہے۔

” آشر” میں شرکت کرنے والے بلامعاوضہ حصہ لیتے ہیں
ہمارےعلاقے میں جب کوئی بندہ اپنا کام اکیلے نہیں کرسکتا اوراس کو مدد کی ضرورت ہوتہ ہے۔ تواس کے ہاں گاؤں والے اوررشتہ دار جمع ہوکراس بندے کے ساتھ مشترکہ طور پر وہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ اس کام کے عوض وہ لوگ اس بندے سے کوئی معاوضہ نہیں لیتے تاہم کام کرنے پرخوش ہوتے ہیں کہ اس نے اپنے گاوں والے یا رشتہ دارکے ساتھ کام میں حصہ لیا اوراس کا مشکل حل کردیا۔

"آشر” کے چند اصول
دنیا میں ہرکام کے کرنے کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں اسی طرح "اشر” کے بھی کچھ اصول ہےاگرچہ یہ اصول کوئی طے شدہ یا حتمی نہیں ہے کہ اس کے پابندی”اشر” میں حصہ لینے والے لوگوں پرلازم ہے لیکن پھر بھی اگر کوئی اس کو اپنائے تو جس کام کے لئے وہ "اشر” میں جمع ہے تو وہ خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے ۔

پہلا اصول اس میں یہ ہے کہ "اشر” کرنے والا ایک دن، دو یا تین دن پہلے ان لوگوں کو اطلاع کرتا ہے کہ فلاں دن اس کا کام ہے اس کے لئے اپ "آشر” کے لئے آجائیں۔ تو وہ لوگ اسی دن اور جو وقت اس کو بتایا گیا ہے اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔

اشرمیں اکثر زیادہ تعداد میں لوگ حصہ لیتے ہیں تاکہ مطلوبہ کام ایک دن میں ختم کیا جائے اگر ایک دن میں نہیں تو دوسرے دن بھی لوگ اس کے لئے آتے ہیں یا کچھ دنوں کے وقفے کے بعد بھی لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کام کے ختم ہونے تک وہ اس میں حصہ لیتے ہیں اگر چہ اس میں لوگوں کے تعداد وقت کے ساتھ کم یا زیادہ ہو جاتا ہے۔

دوسری اصول یہ ہے کہ اس بندوں کے لئے کھانے پینے کا بندوبست اس میزبان گھر والے کی ذمداری ہوتی ہے لیکن ” اشر” میں حصہ لینے والے لوگ بھی اپنے گھروں سے بخوشی اگر کھانا وغیرہ لاتا ہے تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ میزبان "اشر” میں دیسی گھی،دہی اور لسی کے ساتھ ساتھ روایتی کھانوں کا اہتمام کرتاہے اوریہی "اشر” میں شریک لوگوں کا پسندید خوراک اورمطالبہ بھی ہوتاہے۔

تیسری اصول "اشر”میں ہرعمر کے لوگ حصہ لیتے ہیں اوراس میں عمر کے کوئی پابندی نہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک ایسا روایت ہے کہ اس میں ہرکوئی اپنی مرضی سے حصہ لیتے ہے۔ "اشر” گاؤں میں بھی ہوتا ہے اور دوسرے گاؤں میں بھی لوگ "اشر” کے لئے جاتے ہیں اگرکوئی ان کوآنے کےدعوت دیں۔ "اشر” کے روایت پشتون معاشرے میں صدیوں سے رائیج ہے۔

"اشر” کے شرکاء اکثردوگروپ بن جاتے ہیں جوآپس میں کام تقسیم کر کے ایک مقابلے کا اہتمام کرتا ہے اورجو گروپ اپنا کام پہلے ختم کرتا ہے تواس کو داد دیا جاتا ہے اور اس کے لئے کھانے میں خاص تواضع بھی کیا جاتا ہے اور لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
"آشر” کا اہتمام کن مواقعوں پر کیا جاتا ہے۔

"اشر” کئی مواقعوں پرہوتے ہیں جس میں مکانات بنانا، گاؤں کے لئے مشترکہ راستے بنانا، پانی کا بندوبست کرانا لیکن کچھ مواقعوں پراس کا خاص بندوبست کیا جاتا ہے جس میں فصلوں کی بویائی اوراس کے کٹائی شامل ہیں ۔ باجوڑ میں چاول کے فصل کے بویائی اور کٹا کے دوران اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ لوگ "اشر” میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔

Oplus_0

اسی طرح جب گندم کی کٹائی کا وقت ہوتا ہے تو اس دوران بھی اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ ان دونوں موقعوں میں "اشر” مین شریک لوگ گرپوں میں تقسم ہوتے ہیں اور ہر گروپ اسی کوشش میں ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام پہلے ختم کریں۔اسی دوران کھیت کے مالک کے طرف سے اس کے لئے علاقائی موسیقی کا بھی اہتمام ہوتا ہے اوروہ اس سے بھرپورطریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

"اشر ” میں روایتی موسیقی کا استعمال
"اشر” میں شریک لوگ آپس میں بھی موسیقی کا مقابلہ کرتے ہیں جس کو ہم لوکل زبان میں ٹپہ کہتے ہیں ۔وہ ٹپے گاتے ہیں اوراسی طرح لوگوں میں کام کا جذبہ بڑھ جاتا ہے اوروہ مزید تیزی سے کام کرتے ہیں۔ "اشر”ایک ایسی روایت ہے کہ اس کا پشتوزبان کے شاعری میں بھی گاہے بہ گاہے ذکر ملتا ہے اور شاعروں نے اس کو اپنے شاعری کا موضع بنایا ہے۔

پشتوں کے مشہور شاعر و ادیب رحمت شاہ سائل نے اپنے ایک عزل میں یوں بیان کیاہے جس کے چند مصرعے یہ ہے کہ
لو(کٹائی ) لہ بہ رازے جانان لولہ بہ رازے
پلی پٹی بہ راتہ ٹول خاستہ کوئے جانانہ
لولہ بہ رازے جانان لولہ بہ رازے
د ہر پٹی نہ چی ٹپی راخیجی بیدارا وی لو گری،،
د ٹپی واربہ راسہ وار پہ وار یگدے جانانہ
لولہ بہ رازے جانانہ لو لہ بہ رازے
ترجمہ: اپنے دوست یا جانان کو کہتے ہے کہ اپ گندم کے کٹائی کے لئے ضرور آؤنگے۔ تم ہمارے کھیتوں کو اپنے آنے سے خوبصورت بناؤیا خوبصورتی بخشو۔
پھر کہتا ہے کہ ہر کھیت سے کٹائی کے وقت ٹپی جو پشتوموسیقی کا مشہور صنف اس کی گائیکی کی آوازیں آرہی ہے جو لویعنی کٹائی کرنے والوں کو بیدار کرتاہے تو اپ بھی ہمارے ساتھ ٹپہ کا باری رکھیں گیں۔
اسی طرح بہت سے گلوکاروں نے اسکو اپنے خوبصورت آوازوں میں ریکارڈ کیاہے اور "اشر” کے دوران اس کو سنتے ہیں اس کے ساتھ روایتی ڈول اوررقص کا بھی اہتمام ہوتا ہے اوربیل اوردنبے بھی زبح کئے جاتے ہیں ۔ جس سے لوگ لو (کٹائی) کے دوران مزے لیتے ہیں ۔

"اشر میں حصہ لینے والے چند افراد کے روداد
باجوڑ کے تحصیل چارمنگ کے رہائشی ساٹھ سالہ گلاب جان نے کئی بار "اشر” میں حصہ لیا ہے ان کے مطابق ” اشر” کے دوران کبھی کبھی شریک لوگ ناخوشگوار واقعات کا بھی شکار ہوتے ہیں لیکن وہ اس سے کبھی ناراض نہیں ہوتے بلکہ اس بات کا افسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا ۔ اپنےگھروالے ایسے لوگوں کے بہت خاطرمدارکرتے ہیں ۔

گلاب کے مطابق ان کو ” اشر” میں بہت سے ایسے وقعات پیش آئے ہیں جوناخوشگوار ہیں۔ لیکن میں صرف ایک کا یہاں پر ذکر کرونگا کہ بیس سال پہلے ہمارے علاقے میں ایک پانی کا تالاب بن رہاتھا جس میں لوگ بیلوں کے زریعے کام کرتے تھے اس میں ایک شخص کا بیل دوسرے کے بیل پرچڑھ دوڑا جس سے اس دوسرے شخص کا بیل کافی زخمی ہوا اوروہ بندہ خود بھی زخمی ہوا لیکن اس نے اس کا کوئی پرواہ نہیں کیا اوردوسرے دن وہ زخمی شخص ایک نئے جذبے کے ساتھ "اشر” میں شریک ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ” اشر” میں اگر چہ کام کرنے والے کو کوئی معاوضہ نہیں ملتا لیکن پھر بھی لوگ بہت پیاراورمحبت سے کام کرتے ہیں ۔ اس میں لوگوں کا آپس میں بھائی چارے کا فضا فروع پاتا ہے۔ آج کل جس طرح دنیا میں کئی ثقافتی اقدار ختم ہوئے ہیں اور کچھ جگہوں پرکمزور ہوئے ہیں تو پشتون معا شرے میں بھی یہ اقدار متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ اقدار اب بھی موجود ہے اور لوگ اس کو زندہ رکھنے کے لئے پرجوش ہے۔

پچاس سالہ بہادرخان بھی بچپن سے "اشر” میں شریک ہوتے آرہے ہیں۔ کیونکہ ان کے والد اس کو”اشر” میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ماموں کے ساتھ چاول کے پنیری کے بویائی کے”اشر” میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہرسال حصہ لیتے تھے۔ جوان کے لئے تفریح کا باعث ہوتا تھا۔ کیونکہ ان میں چائے پراٹھوں اور دیسی کھانوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ہم عمرلوگوں کے ساتھ موج مستی بھی کرتا تھا۔

اورموسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے تاہم چند سالوں سے وہ "آشر ” میں پہلے کی طرح باقاعدگی سے شرک نہیں ہوئے جس کی بنیادی وجہ محنت مزدوری کے لئے اپنے علاقے سے باہر ہوناہے۔ لیکن یہ ایک اچھی روایت ہے جس کو اسی طرح زندہ رکھنا چاہئے۔

” آشر ” کے کمزور ہونے کی منفی اثرات
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے محقق اور سماجی امور کے ماہرانورنگار کے بقول پشتون معاشرہ اسی اقدارکے وجہ سے مشہور ہے کہ اس میں کمزور کے ساتھ مدد کیا جاتا ہے ۔ ہمارے علاقے میں جس جگہ پر یہ "اشر” کی روایت مظبوط ہے وہاں پر لوگوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا ماحول ہے۔ اورجس جگہ پر یہ روایت کمزور ہوا ہے وہاں پر مفاد پرستی کا ماحول ہے ۔

نگار نے بتایا کہ موجودہ وقت میں دنیا کہ لوگوں کے درمیان مفاد پرستی زیادہ ہوگئی ہے۔ اب کوئی کسی کا خیال نہیں رکھتا ہرایک اپنی اپنی فکرمیں ہے اور دوسرے کا کوئی نہیں سوچتا۔ اسی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ کا سماں ہے۔ اگر ہر علاقے اور معاشرے میں
” اشر” کی روایت کو زندہ اور مضبوط رکھا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔ ورنہ دنیا ہرشعبے میں بہت سے کمزورلوگ مقابلے کے دوڑ میں مزید پیچے رہ جائینگے اورمعاشرے ترقی کے بجائے زوال کا شکار ہونگے۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں