
قبائلی ضلع باجوڑ کے تحصیل خار کے زرخیز زرعی زمین پر اپنے تین کنال قلعہ نما گھر کے تعمیر میں مصروف جمال خان (فرضی نام) جس کی چاردیواری تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ان کا اتنے بڑے رقبے پر گھر تعمیر کرنا نہ صرف پیسوں کا ضیاع ہے بلکہ خوارک کی کمی کے ساتھ ماحول کے آلودگی میں بھی اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔
جمال کے مطابق انہوں نے یہ زمین تین سال پہلے اپنے علاقے کے ایک زمیندار سے تیس لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے گھر کے تعمیرکے لئے خریدی تھی کیونکہ ان کا خاندان بڑا ہونے کی وجہ سے چھوٹے گھر میں ان کا رہنا مشکل ہوچکا ہے۔ ا گاہی نہ ہونے کی وجہ سے وہ نہیں سمجھتے کہ یہ زرعی زمین اور پیسوں کا ضیاع ہے بلکہ یہ اس کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں۔اور یہ ان کا درینہ خواہش تھی جو اب پوری ہونے کے قریب ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیات کو آلودہ کرنے میں دوسرے عوامل کے ساتھ ایک چیز بے ہنگم یعنی بے ترتیب تعمیرات بھی ہیں جس سے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر ایک طرف انسانی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف اس کے ساتھ تعمیرات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کے شہری علاقوں کے ساتھ باجوڑ میں پچھلے دس سالوں سے زرعی زمینوں پر تعمیرات میں بہت تیزی دیکھی گئی ہے۔ جس سے فوڈز سیکورٹی اور زرعی پیداوار میں کمی کا اندیشہ ہے۔
نام نہ بتانے کے شرط پر تحصیل خار کے گاوٗں صدیق آباد پھاٹک کے ایک رہائشی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے ودکنال زرخرید زرعی زمین پر دو سال پہلے اپنا گھر تعمیر کیا ہے۔ اس دوکنال گھر کے تعمیر پر ایک کروڑ سے اوپر خرچہ آیا ہے جس کی وجہ سے اس کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے اور دوسری طرف وہ لوگوں کا لاکھوں روپے مقروض ہوچکا ہے۔
اس کو اب اس بات پر پچھتاوا ہے کہ کاش اس نے انجینئر کے مشورے سے دس مرلے پر چھوٹا گھر تعمیر کیا ہوتا تو اچھا ہوتا۔ کیونکہ اتنے بڑے گھر کو تعمیر کرنا ان کے ضرورت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان کے آس پاس موجود زیادہ تر گھر اسی نوعیت کے بنے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک بہت زرخیز زرعی اراضی سے ہم محروم ہوگئے ہیں۔
ضلع باجوڑ کا شمار خیبر پختون خوا کے قبائلی اضلاع میں رقبے کے لحاظ سے چھوٹے اضلاع میں ہوتا ہیں لیکن آبادی کے لحاط سے پہلے نمبر پر ہیں۔ اس کی آ با دی مردم شماری کے مطابق چودہ لاکھ کے قریب ہے۔ تاہم عوامی اندازوں کے مطابق یہ اٹھارہ لاکھ تک ہے۔
باجوڑ میں جس طرح آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح گھروں اور دوسرے تعمیرات میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یقینا بے ترتیب عمارتیں ماحولیات کے ساتھ ساتھ زراعت پر بھی بہت برے اثرات ڈال رہی ہے جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
ستر سالہ ملک نور نے پرانے قبائلی روایت کے بارے میں بتایا کہ تیس سال پہلے باجوڑ کے لوگ زیادہ تر گاؤں میں رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اور گاؤں میں اکٹھے رہنے کا جو پختونوں کا صدیوں سے پرانی روایت ہے وہ پہلے بہت مضبوط تھا لیکن اب یہ روایت بھی ختم ہورہی ہے۔ پہلے تمام بھائی ایک گھر میں رہتے تھے لیکن اب ہر ایک الگ الگ گھر میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
اس کے وجہ سے گاؤں سے لوگوں باہر زرعی زمینوں میں آگئے ہیں۔ ہر ایک اپنے مرضی سے اپنے لئے گھر تعمیر کر رہاہے۔جس کا دل زمین میں جس جگہ چاہتا ہے وہاں پر گھر کی عمارت کھڑی کرتی ہے۔ کسی کو زراعت اور ماحول کے اصولوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اگرکسی بندے کا پانچ مرلے کے گھر میں گزارا ممکن ہوں تو اس نے دو کنال زمین میں گھر بنایا ہے۔یہ صورتحال باجوڑ کے ہر علاقے میں عام دیکھائی دیتا ہے لیکن تحصیل خار میں یہ رجحان بہت زیادہ ہے۔
لینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2021
مذکورہ ایکٹ کے تحت صوبائی اور اضلاع کے سطح پر مختلف سرکاری محکموں کے ذمہ دار وں پر مبنی کمیٹیاں قائم کیں گئے ہیں جو کہ کسی بھی منصوبے کے اجازت نامہ یا این او سی جاری کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ زمین کا مختلف سرکاری اداروں کے ذ مہ داران معائنہ کرلیتاہے اور ہر ایک ادارہ الگ الگ جواب جمع کرنے کی پابند ہے۔
سب سے زیادہ ذمہ داری محکمہ زراعت کے پاس ہے کیونکہ تمام اداروں کے منظوری کے بعد سب سے آخر میں مذکورہ ادارے کے ضلعی آفسر اس بات کا جائزہ لیتاہے کہ مذکورہ زمین زرعی پیداوار دیتاہے یا مستقبل میں کوئی فصل اس پر کاشت ہوسکتاہے کہ نہیں۔ کوئی فرد یاکمپنی کو قانون کے خلاف ورزی کے صورت میں دس لاکھ روپے جرمانہ اورتین سے دس سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔
محکمہ زراعت توسیع باجوڑ کے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق باجوڑ میں کل رپورٹڈ شدہ زرعی زمین 129036ہیکٹرز ہے جن میں 77062 ہیکٹرز قابل کاشت جبکہ با قی بنجر ہے۔ 77062ہیکٹرز زمین میں سے 15970ہیکٹرز کے لئے پانی دستیاب ہے اور باقی بارانی ہے۔ لیکن بے ترتیب اورغیر ضروری تعمیرات کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہوچکی ہے اور مزید کمی کا خدشہ ہے۔
ضلع باجوڑ کے محکمہ زراعت توسیع خار کے زراعت آفیسر ڈاکٹر سبحان الدین نے یہ بات تسلیم کرتے ہوئے بتایاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ضلع باجوڑ کے زرعی زمینوں پر بہت تیزی کے ساتھ تعمیرات ہورہی ہے جو بہت تشویشناک بات ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو چند سالوں میں باجوڑ کے عوام ایک اہم زرعی اراضی سے محروم ہوگا جس کا پھر کوئی ازالہ نہیں ہوگا کیونکہ باجوڑ میں پہلے سے زرعی زمین کی کمی ہے۔
زرعی زمینوں پر تعمیرات کی روک تھام کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ صوبائی وزیر زراعت محمد سجاد بارکوال، سیکرٹری زراعت عطاء الرحمن اور ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت خیبر پختون خوا مراد علی خان کے اس حوالے سے واضح احکامات ہے کہ زرعی زمینوں پر کسی کو تعمیرات کی اجازت نہیں ہے۔
ان احکامات کی روشنی میں انہوں نے وقتا فوقتا ضلعی انتظامیہ کے توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ باجوڑ میں زرعی زمینوں پر تعمیرات کے روک تھام کے لئے اقدامات اٹھا یاجائے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی موثر اقدامات اٹھانے میں مشکلات درپیش ہیں۔کیونکہ پہلے تو یہاں پر ایف سی ار کا قانون تھا اور زرعی قوانین اس طرح نہیں تھے جس طرح صوبے کے دوسرے اضلاع میں ہے۔ لیکن اب چونکہ قبائلی اضلاع کا انضمام صوبے کے ساتھ ہوا ہے تو جو زرعی قوانین صوبے میں موجود تھے تو اس کا اطلاق اب یہاں پر بھی ہو رہا ہے اور اب اس میں بہتری کی امید ہے۔
جمال نے بتایا کہ انہوں نے اپنا گھر اس لئے بڑے رقبے پر بنایا ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے مستقبل میں رہائشی مسائل سے محفوظ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے میں صرف ان کا گھر بڑا نہیں ہے بلکہ وہاں پر ہر ایک کی گھر ا یک کنال سے زیادہ رقبے پر بنا ہے اور سب نے یہ زمینیں گھروں کے کے لئے خریدیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کی خواہش ہو تی ہے کہ اپنی پوری زمین پر گھر تعمیر کریں تاکہ مستقبل میں ان کے خاندان کو کوئی رہائشی مسئلہ درپیش نہ ہو۔
ماہرین جنگلات کے مطابق بے ترتیب تعمیرات سے ایک اور بہت بڑا نقصان جو ماحولیات کو ہو رہاہے وہ عمارتوں کے تعمیر کے لئے درختوں کی بے دریع کٹائی ہے۔ محکمہ جنگلات باجوڑ کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ضلع باجوڑ کا کل رقبہ 340000 ایکڑ ہیں جس میں 45000ایکڑ پر محکمہ جنگلات باجوڑ نے پچھلے 30سالوں سے جنگلات لگائے ہیں اسی طرح 40000ایکڑ رقبے پر پہاڑاور قدرتی جنگلات ہیں۔
پو رے ملاکنڈ ڈویژن اور ضلع باجوڑمیں عمارتوں اور سڑکوں کے تعمیر کے لئے درختوں کے کٹائی کا بے دریع عمل جاری ہے ایک طرف اس کو عمارتوں میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال ہورہا ہے تو دوسری طرف اس کو کاٹ کر اس کے جگہ پر عمارتیں بنائی جاتی ہے۔ پہلے لوگ گرمی سے بچنے کے لئے درختوں کے ٹھنڈی چھاوں میں چارپائی ڈال کر بیٹھتے تھے اور دوپہر کے وقت اکثر گاؤں کے لوگ وہاں پر سو جاتے تھے لیکن اب عمارتوں کے بہتات اور درختوں کے کٹائی کے وجہ سے وہ بھی ممکن نہیں رہا۔
برسوں سے اپنے جگہ پر کھڑے بڑے بڑے درختیں جو اکسیجن کے فراہمی کے کارخانے ہوتے تھے اور جو ہمارے اسلاف کی نشانیاں ہوتے تھے اس کو بھی ہمارے لوگوں نے اپنی دنیاوی خواہش کے تکمیل کے لئے زمین سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کئے جو نہ صرف ایک دردناک عمل ہے بلکہ ماحول دشمنی کے مترادف ہے۔
مراد علی خان محکمہ زراعت ڈائریکٹریٹ جنرل توسیع خیبر پختونخوا میں ڈائریکٹر فلڈ آپریشن کام کررہاہے۔ ان کے مطابق لینڈ پروٹیکیشن ایکٹ 2021کے تحت محکمہ زراعت کو مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنر کے سطح پر محکمہ زراعت کے آفیسر کو اجازت نامے کے حصول کے لئے دستاویزات بھیج دئیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مراد علی کے مطابق قانون کے منظوری کے بعد ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کیں گئے ہیں اور اس سلسلے میں محکمہ زراعت کے دفاتر کو باقاعدہ تعمیراتی منصوبوں کے اجازت نامے کے حصول کے لئے رابطہ کیاجاتاہے۔
اُن کے بقول دستاویزات میں واضح کیاگیا کہ زمین کا باقاعدہ معائنہ کیاجاتاہے اور اس بات کا جائز لیاجاتاہے کہ اس زمین سے موجودہ یا مستقبل میں زرعی پیداور حاصل کیاجاسکتاہے کہ نہیں۔ اُن کاکہنا ہے کہ اگر زیادہ نہیں اور کم فصل دیتا ہے تب بھی ہم کسی منصوبے کے تعمیر کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ کچھ آمد ن تو ہوتاہے اور آنے والے وقت میں جدید ٹیکنالوجی سے بڑی حد تک بنجر زمینوں سے فصل کے حصول ممکن ہے۔
ڈاکٹر سبحان الدین کے مطابق باجوڑ میں جس زمین پر بھی کوئی عمارت تعمیر ہو گی تو اس کے لئے پہلے سے محکمہ زراعت سے NOC لینا ضروری ہے بغیرNOCکے کسی کو بھی تعمیرات کی اجازت نہیں ہے اور کئی جگہوں پر زرعی زمینوں پر تعمیرات کو روکا بھی ہے۔
اس حوالے سے تمام محکموں کے سے ہم مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ محکمہ زراعت نے جگہ جگہ پورے باجوڑ میں لوگوں کے آگاہی کے لئے فلیکس لگائے ہیں اور دیواروں پر وال چاکینگ بھی کی گئی ہے جس پر زرعی زمینوں پر ہر قسم تعمیرات سے اجتناب کرنے اور بنجر زمینوں پر تعمیرات بنانے کے نعرے(پیغامات) درج کئے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ زمینداروں اور عام لوگوں کے ساتھ وقتا فوقتا آگاہی سیشنز بھی منعقد کئے جاتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اپنی قیمتی زرعی زمینوں کو تعمیرات کے نذر نہ کیا جائے۔ کیونکہ باجوڑ کے زمین انتہائی زرخیز ہیں اور اس میں ہر قسم فصلیں،سبزیات اور میوجات اچھی پیداوار دیتی ہے۔ اس لئے اس سے زراعت کے مد میں فوائد حا صل کریں۔
دوسری طرف عام لوگوں پر بھی یہ زمداری عائد ہوتی ہے کہ وہ زرعی زمینوں پر تعمیرات سے مکمل اجتناب کریں اور بنجر زمینوں پر تعمیرات کریں۔ اور ان کو چاہئے کہ اب وقت بدل چکا ہے ان کو گھر یا دوسری عمارت بنانے سے پہلے ماہر تعمیرات سے ضرور مشورہ کرنا چاہئے اور اس کے مشورے اور عمارتی نقشے کے بغیر ہر گز کوئی بھی عمارت تعمیر نہ کرے۔ اگر اس سے ایک طرف زرعی زمینوں کے کمی کو روکا جاسکتا ہے تو دوسری طرف ماحول دوست عمارت بھی بنائے جاسکتے ہیں۔
باجوڑ میں جس رفتار سے زرعی زمینوں پر تعمیرات جاری ہے اس کے مقابلے میں محکمہ زراعت توسیع باجوڑ اور ضلعی انتظامیہ کے اقدامات سست روی کا شکار ہے اس لئے اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت زرعی زمینوں پر بے ترتیب تعمیرات کی روک تھام ہوسکیں۔