خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کے تحصیل ڈومیل کے کاشتکارجنید وزیر کا بارانی زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والازرعی آمدن رواں سال بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔اُنہوں نے چار ایکڑ زمین میں دو سو کلوگرام بیج کاشت کیاتھا جن سے اُن کو صرف بیس کلوگرام گند م حاصل ہوئی۔ ماضی میں آمد چار سے پانچ ہزار کلوگرام تھا لیکن وقت کے ساتھ یہ کم ہوکررہ گیا۔زرعی زمین سے آمدن کم ہونے کی بنیادی وجہ جنید کے نظر میں بارشوں کے مقدار میں کمی یا بروقت بارشوں کا نہ ہونا ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ رواں ربیع کے فصل یعنی پچھلے سال نومبر سے لیکر اپریل تک بارشیں بالکل ہوئی نہیں جس کے وجہ سے زرعی آمدن بری طرح متاثر ہوا ہے۔

محکمہ موسمیات خیبر پختونخوا کے ڈپٹی ڈریکٹرڈاکٹر محمد فہیم کے مطابق ربیع سیزن میں معمول سے کم بارشیں ریکاڈ کی گئی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ بارشیں کچھ حد تک ہوئی لیکن تیزاور کم وقت ہونے کے وجہ سے زرعی زمینوں کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوسکیں۔اُنہوں نے کہاکہ رواں سال جنوری میں 40 فیصد، فروری میں 15فیصداور مارچ میں 33فیصدکم بارشیں ریکاڈ ہوئی ہے جبکہ ان مہینوں میں درجہ حرارت بھی معمول سے زیادہ تھا جس کی وجہ سے بارانی زمینوں سے حاصل ہونے والے زرعی آمدن متاثر ہوا۔ اُنہوں نے کہاکہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلا ع میں زرعی زمینوں کاسیراب ہونے کا انحصار بارشوں پر ہے لیکن بدقسمی سے کاشت کے دوران یعنی نومبر اور دسمبر بھی خشک رہے جبکہ باقی مہینوں میں توقع سے کئی گناہ زیادہ بارشیں ہوئی۔

محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے مطابق رواں سال ربیع کے فصل جن میں گندم اور دالوں کے زرعی پیدوار ستر سے اسی فیصد کم ہوئی ہے۔ ادار ے کے اعد اد شمار کے مطابق صوبے میں 18لاکھ 21ہزار 734ہیکٹرز زمین زیر کاشت ہے جن میں نو لاکھ 69ہزار 467ہیکٹرززمین مختلف ذارئع سے سیراب ہوتاہے جبکہ باقی کا انحصار بارش پرہے۔ڈاکٹر مراد علی خان محکمہ زراعت میں آپریشنل ڈریکٹر ہے، اُن کے بقول ربیع کے سیزن میں نہ ہونے کے برابر بارشیں ہوئی جس کی وجہ سے گندم، دالیں اور سرسوں کے پیدوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ نہ صرف میدانی بلکہ پہاڑی علاقوں میں بھی معمول سے کافی کم بارشیں ریکارڈ کی گئی جس کے مقامی کاشتکاروں کے آمدن کافی کم ہوا ہے۔اُنہوں نے کہاکہ 2003سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زرعی شعبے پر ظہار ہونا شروع ہوگئے تھے جبکہ موجودہ وقت میں بڑے مسائل کاسبب بن گیاہے جن میں پانی کے مقدار کی کمی اور بیماروں میں اضافہ ہے جبکہ ان مسائل پر قابو پانے کے لئے نہ صرف محکمہ زرعت بلکہ دیگر متعلقہ ادارے تیزی کے ساتھ کام کررہاہے تاکہ ان مسائل کا مقابلہ کیاجاسکے۔

خیبر پختونخوا کی سالانہ گندم کی ضروریات تقریباً 50 لاکھ میٹرک ٹن ہیں، جبکہ صوبے کی سالانہ پیداوار 14 لاکھ میٹرک ٹن کے قریب ہے۔ صوبہ اپنی گندم کی ضروریات کا صرف 28% خود پیدا کرتا ہے اور باقی کمی کو پورا کرنے کے لیے پنجاب، پاسکو اور بین الاقوامی منڈیوں سے گندم درآمد کرتا ہے۔ ضلع کرک خوشحال بانڈہ کے چا لیس سالہ محمد یخی نے تین ایکڑزمین پر چنا کاشت کیاتھا تاہم بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے زرعی آمدن نے بیج اور ٹریکٹر کے اخرجات بھی پوری نہیں کی۔ اُنہوں نے کہاکہ پچھلے کئی سالوں سے زرعی زمینوں سے حاصل ہونے والے آمدن نے اتنا مایوس کردیا ہے کہ اب دل نہیں کرتاکہ کچھ کاشت کرسکے۔ اُنہوں نے کہاکہ ربیغ کے سیز ن میں بالکل ارادہ ہی تھالیکن سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہربانی ہوگی اور بارشیں ہو جائینگے لیکن ایسانہیں ہوا جبکہ ماضی میں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ چنا اور گندم کو بھیج کر گھر کے دیگر اخربات پوری کیں جاتے تھے۔

ڈاکٹر مراد علی خان نے بتایاکہ ایسے بیج کو متعارف کیاجارہاہے جو کم پانی سے بہتر پیداور اور شدید موسمی اثرات کا مقابلہ کرسکے۔اُنہوں نے کہا پچھلے چند سالوں سے شدید قسم کے ژالہ باری نہ صرف براہ راست فصلیں اور باغات متاثر کر رہاہے بلکہ زمین کے اُوپر ذرخیزسطح بھی تیز پانی کے ساتھ بہہ جاتا جس سے زمین کے ذرخیزی متاثر ہورہاہے۔ اُن کے بقول اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے کاشتکاروں کو کھیت کے ارد گرد پودیں لگانے کا مشورہ دیا جاتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ طویل مدت کے لئے زمین میں نمی کے مقدار برقرار رکھنے کے لئے ہل چلالنے کے دوران فصل کے باقیات کو مٹی کے ساتھ ملایا جاتاہے۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں