
ساٹھ سالہ محمد سیلم اپنے بیٹے کے ہمراہ خیبر پختونخواکے ضلع سوات کے علاقے چار باغ میں دریائے سوات کے کنارے زرعی زمینوں میں بھینسوں کے ریوڑچروا رہاہے۔ اُنہوں نے چار دن تک اپنے مویشوں کو کھیتوں اور باغات سے دور رکھا کیونکہ کاشتکاروں نے بارش کے بعد کیڑوں کے حملے پیش نظر کیمیکل سپرے کا استعمال کیا تھا۔ اُنہوں نے بتایاکہ کئی بار سپرے کے فوری بعد کھیتوں سے مویشیوں کو چار ہ کھیلانے کے بعد وہ بیمار ہوگئے جن کو ادویات فراہم کی جبکہ کچھ اموات بھی واقع ہوئے۔
چالیس سالہ محمد جاوید نے چار باغ کے علاقے میں دو ایکڑ پر شفتالو اور ایک ایکٹر پر پیا ز کا فصل کاشت کیا جوکہ تیاری کے آخری مرحلے میں ہے۔اُنہوں نے کہاکہ زیادہ پیداور کے حصول اور بیماریوں سے بچاؤ کے لئے فصل، سبزی، باغ اور اجناس پر ماضی کے مقابلے میں کیمیائی کھاد اور کیڑے مار ادویات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ بیماریوں میں اضافہ ہے۔اُنہوں نے کہاکہ سیلاب، خشک موسم اور بارش کے بعد مختلف قسم کے بیماریاں اور حشرات کے حملے فصل پر ماضی کے مقابلے میں کافی بڑھ چکے ہیں جن کے روک تھام کے لئے کیڑے مار ادویات یاکیمکل کا استعمال کیاجاتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ شفتالو کے پودے پر سال بھر میں کم از کم آٹھ جبکہ زیادہ سے زیادہ چودہ سپرے کئے جاتے ہیں۔
محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف سویل اینڈ پلانٹ نیوٹریشن ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ زرعی پیداور پر کیڑے مار ادویات اور کھاد کے اثرات پر کام کررہی ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فریدہ انجم نے بتایاکہ موسیماتی تبدیلی کی وجہ سے فصلوں میں بیماری اور ماحول میں کیڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے جبکہ کیڑوں کی مدافعت بھی مظبوط ہوچکا ہے اب ان کیڑوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ہمارے زمیندار زیادہ مقدار میں کیڑے مار ادویات کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس عمل کی وجہ سے ادویات کی باقیات پودوں، مٹی اور پانی میں رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو استعمال کرنے سے جانوروں اور انسانوں کی جانوں کے لئے خطرے کا سبب بنتا ہے جس میں چھوٹے مسئلے خارش سے لیکر کینسر جیسے مرض کا سبب بن سکتا ہے۔
زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات کے استعمال کے حوالے سے پاکستان جرنل آف ایگریکلچر میں شائع تحقیق کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن کے کل 26 یونین کونسلوں سے 72 باغات پر تحقیق کیاگیا سے معلوم ہوا کہ شفتالو کی 12 اقسام کاشت کی جا رہی ہیں جن سے پیدوار کے حصول کے لئے کل 28 مختلف کیڑے مار ادویات استعمال ہو رہی ہیں۔ سروے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 98.6 فیصد کاشتکار اس بات سے ناواقف تھے کہ کیڑے مار ادویات کب استعمال کرنی چاہئیں۔معلوما ت میں مزید بتایا گیا کہ کیمیائی ادویات کے اثرات جلد اور سانس کے ذریعے جسم کے اندار داخل ہوتاہے جوکہ جلدسے لیکر کیسنر جیسے خطرناک بیماری کا سبب بن رہاہے۔زراعت کے مطالعے میں متبادل طریقوں سے بیماریوں پر قابو پانا اور کیڑے مار ادویات کے محفوظ استعمال سے متعلق آگاہی پروگرام شروع کرنے کی اہمیت کو اجاگرکیاگیا۔
شریف اللہ سوات کے تحصیل مٹہ میں کاشتکاروں کے تنظیم کے سربراہ ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ باقی علاقوں کے نسبت سوات میں موسیماتی تبدیلی کے اثرات زیادہ محسوس کی جاتی ہے جبکہ پچھلے چند سالوں میں درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ پورے علاقے میں سیب کے پیدوار ہی ختم ہوا کیونکہ اس کے لئے سرد آب ہوا کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔اُنہوں نے کہاکہ سیب کی جگہ شفتالو نے لی تاہم باقی پودوں کے نسبت ان میں زیادہ بیماریاں پیدا ہوتے ہیں اور ان کے پیداور جلد متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ اُن کے بقول پچھلے چند سالوں سے شدید قسم کے ژالہ باری ہوتی ہے جس سے کاشتکار کو بھاری مالی نقصان اُٹھانا پڑ تاہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ شفتالو پر سردی کے موسم میں تین جبکہ پھول لگنے سے لیکر پیداور کے حصول تک مزید پانچ سے آٹھ سپرے کیاجاتاہے۔
محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے مطابق پوری صوبے میں 83لاکھ 66ہزار 925ہیکٹرز زمین ریکارڈ پر موجود جن میں 18لاکھ 21ہزار749ہیکٹرز زمین زیر کاشت ہے۔ مذکورہ اعداد شمار میں 16ہزار 475ہیکٹرز پر سبزی اور 7ہزار 652ہیکٹرز پر میوجات کاشت کیں گئے۔ سالانہ 1لاکھ 80ہزار ٹن سبزی اور 60ہزار787ٹن میوجات پیدا ہوتے ہیں۔
کیڑے مار ادویات کے استعمال کے بارے میں آگاہی
صادق اللہ ایک کاشتکار ہے۔ اُنہوں بتایاکہ جب بھی فصل پر کسی بھی بیماری کا حملہ ہوتاہے تو وہ قریب بازار میں زرعی ادویات کے دوکان میں فصل کا نمونہ یا تصویر لے جاتے ہیں جہاں پر دوکاندار سپرے کے لئے دوائی تجویز کرلیتاہے اور طریقہ کار کے بارے میں بتاتاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اُن کو نہیں معلوم کے محکمہ زراعت اس حوالے سے اُن کے بہتر رہنمائی کرسکتاہے۔اُن کے بقول پودوں پر سپرے کرنے کے بعد اُن کو گلے میں شدید درد، جلد پر خارش، آنکھوں میں سوجن اور سر درد کو چند دونوں کے لئے محسوس ہوتا ہے جبکہ کھانے پینے کو بھی دل نہیں کرتا۔
شریف اللہ نے بتایاکہ کاشتکاربیماری کے خاتمے کے لئے اپنے قریب بازاروں سے ادویات خریدلیتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ یہ اصلی ہے نا نقلی، کیونکہ کبھی کبھار بیماری ختم ہونے کے لئے نہ صرف اُس میں اضافہ ہوتاہے بلکہ پودوں یا فصل کو مزید نقصان پہنچ جاتاہے۔
ڈاکٹر محمد شاہد سوات میں محکمہ زراعت کے شعبہ تحقیق میں آفسر کے حیثیت سے خدمات سرانجام دیں رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھادوں کے مناسب اور بروقت استعمال کے حوالے سے کاشتکاروں میں آگاہی کی کمی ہے۔ اُن کے بقول کہ جب کاشتکار کو کس بھی قسم کامسئلہ درپیش ہوتاہے تواُن کو چاہیے کہ محکمہ زراعت توسیع یا تحقیق کے شعبے کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے تاکہ اُن کے بہتر طریقے سے رہنمائی ہوسکے۔ اُنہوں نے کہاکہ عموماکاشتکار اپنے تجربے یا دوکاندار کے مشورے سے ادویات لیکر اُس کو استعما ل کرتاہے جوکہ فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتاہے۔اُنہوں نے کہاکہ دوکاندار کے پاس زرعی ادویات کے حوالے سے کوئی سند نہیں ہوتا اور ایک دوائی کے بجائے اپنے پیسوں کے لئے مزید ادویات بھی مہیاکردیتی ہے۔
زرعی پیداور پر کیمیائی کھاد او ر کیمیکل سپرے کا اثر
موجودہ وقت میں زرعی شعبے سے کمرشل پیدوار کے حصول کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھادو ں کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں ہے۔شریف اللہ نے بتایاکہ مارکیٹ میں ڈی اے پی ساڑھے تیراہ ہزر جبکہ یوریاپانچ ہزار وپے بوری ہے جبکہ ہمسایہ ممالک کے نسبت کافی زیادہ ہے۔اُنہوں نے کہاکہ کمزور مالی حالت کے بناء پر کاشتکار پچاس فیصد سے بھی کم کھا د کا استعمال کرتاہے۔اُن کے بقول شاید فصلوں او ر باغات میں بیماریوں کے اضافہ کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان میں بیماریو ں کے خلاف قوت مدفعت کم ہوتاہے۔اُنہوں نے دعویٰ کیاکہ مارکیٹ میں نقاص معیار کے کیڑے مار ادویات دستیاب ہونے کی وجہ سے نہ صرف بیماریوں کے روک تھام میں مسائل کاسامنا کرناپڑتابلکہ زرعی پیدوار کے معیار کو بھی شدید متاثر کردیتا ہے اور منڈی میں بہتر قیمت کے حصول کے بجائے بیوپاری اپنے مرضی کے قیمت لگالیتاہے۔
ملک عبداللہ خان پشاور کے بڑے سبزی اور فروٹ منڈی میں بیوپاری ہے۔ اُنہو ں نے بتایاکہ پاکستان میں پیداہونے والے میواجات اورسبزیوں پر مقرر حد سے کئی گنا زیادہ کیڑے مار ادویات کا استعمال کی وجہ سے ایک تو زرعی پیدوار جلدی خراب ہوجاتاہے جبکہ دوسرے جانب بیرونی ممالک برآمدات میں بھی بہت زیادہ مسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کے بقول یورپ، امریکہ اور عرب ممالک کے منڈیوں میں ہمارے زیادہ زرعی پیدوار لینے پر اس وجہ سے پابندی ہے کہ ٹیسٹ میں سبزی اور میوجات پر کیڑے مار ادویات کے زیاہ رپورٹ ہوتے ہیں اور انسانی استعمال کے لئے خطرناک ہوتے ہیں جبکہ باقی ممالک کے زرعی پیداور کو بہتر قیمت پر خرید ا جاتاہے۔
کیاکیڑے مار ادویات کے بغیر زرعی پیدوار کو بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے
محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے مطابق پاکستان میں ہر سال دو لاکھ 70ہزار میٹرک ٹن کیڑے مار ادویات (pesticides) استعمال کی جاتی ہیں۔ کیڑوں کے حملے اور بیماریوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداور 30فیصد سے زیادہ جبکہ سبزی اومیوجات 60فیصد سے زیادہ پیداور متاثر ہوکر کم ہوتاہے۔
محکمہ زراعت خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر فلڈآپریشن ڈاکٹر مراد علی خان کاکہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زرعی پیدوار پر بیماریوں کے حملوں میں اضافہ دیکھاگیا ہے۔ اُنہوں نے بتایاکہ محکمہ زراعت اس کوشش میں ہے کہ بیماریوں پر قابوپانے کے لئے ادویات کے استعمال کو کم سے کم کی جاسکے اور اس مد میں کاشتکاروں کو فلائی ٹرپ فراہم کیاجاتاہے جن میں حشرت آسانی کے ساتھ پھنس جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ نقصان دہ حشرت، جراثیم اور وائرس کے خاتمے کے لئے بائیوجیکل طریقے بنائے جاتے ہیں جوکہ بہت ہی موثر ثابت ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شاہد کاکہنا ہے کہ باغات، سبزیاں اور اجناس کو مختلف طریقوں سے بیماریوں سے بچایا جاسکتاہے جن میں بہتر اور آب ہوا کے لئے مناسب و مستند بیج کا انتخاب، زرعی زمین پر وقت کے ساتھ مختلف فصلوں کے کاشت، کھیت کو فصل کے باقیات سے صاف رکھنا، مناسب مقدار میں پانی لگانا، مناسب مقدار میں کیمیائی کھا د کا استعمال اور کسی بیماری کے علامات ظاہر ہونے پر فورنا زرعی تحقیق کے شعبے کے ساتھ مشورہ کرنا شامل ہے۔
محمد جاویدنے بتایا کہ علاقے میں روایاتی طورپر کھیت یا باغ کے ایک کونے میں گندم کے دانے کے برابر انجا رکھا جاتاہے جس کے بارے میں لوگوں کے خیال ہے کہ اس اقدام سے فصل بیماریوں سے محفوظ رہیگا۔
انسانوں، مویشوں اور ماحول پر کیڑے مارادویات کے استعمال کے اثرات
الشفاء میں کینسر کے ماہر ڈاکٹر فرقان نے بتایاکہ پاکستان اور بیرونی دنیامیں زرعی پیدوار کے حصول کے لئے استعمال ہونے والا کیڑے مار ادیات کے بارے میں ابتدئی تحقیق سے یہ بات سامنے آیا ہے کہ ان ادویات میں کچھ موادایسے ہیں جوکہ سپرے کرنے کے بعد یہ زرعی پیدوار میں شامل ہونے سے کھانے کے بعد انسان میں جلد کے بیماری سے لیکر کینسر جیسے خطرناک بیماری کا سبب بن رہاہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ (NIH) کے تحقیق کے مطابق مصنوعی طریقے سے پھلوں کو پکانے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز، خاص طور پر کیلشیم کاربائیڈ، صحت کے لیے کئی خطرات کا باعث بن سکتے ہیں جن میں منہ و ناک میں جلن،الٹی،جلد پر چھالے یا زخم،گردوں کو نقصان پہچانے کا سبب بنتا ہے۔کیلشیم کاربائیڈ جیسے کیمیکلز میں اکثر آرسینک اور فاسفورس جیسے خطرناک اجزاء موجود ہوتے ہیں، جو انسانی جسم پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
انورمنٹیل پروڈکیشن ایجنسی صنعتی شعبے سے پید اوہونے والے فضائی اور آبی آلودگی کے روک تھام کے لئے اقدامات کررہے ہیں۔ادارے کے ڈپٹی ڈریکٹرواجد علی خان کے مطابق زرعی شعبے میں کیڑے مار ادویات اور کیمیائی کھاد کے استعمال فضائی اور آبی آلودگی کا سبب بن رہاہے جس سے انسان، مویشی اور آبی حیات کے زندگی کو خطرات درپیش ہیں۔ اُنہوں نے کہ ادارہ اس کوشش میں ہے کہ زرعی شعبے سے پیدا ہونے والے ہر قسم کے آلودگی کے روک تھام کے لئے اقدمات شروع کرسکے۔
ڈاکٹر شاہد علی خان نے کہاکہ بیماری کے روک تھام کے لئے کیں جانے والے سپرے کے بعد کم از کم آٹھ سے بارہ دن تک کسی قسم کے فصل کے کٹائی نہیں کرنا چاہیے لیکن آگاہی نہ ہونے اور مالی فائدے کے حصول کے لئے کاشتکار آج سپرے کرلیتاہے اور کل کاٹ کرکے مارکیٹ میں بھیج دیتاہے۔