ضلع باجوڑ کے تحصیل اتمانخیل کے گاؤں حیاتی کے زمیندار پچاس سالہ ملک صداقت خان وہ خوش نصیب زمیندارہے جس کی آٹھ ہیکٹئرز زرعی زمین پچھلے 5 سالوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ ہے۔ ان کا یہ زرعی قطعہ اراضی باجوڑ کے مرکزی خوڑ (دریا) کے کنارے پر واقع ہیں جو پہلے ہر سال سیلاب کے خطرے سے دوچار ہوتا تھا۔ لیکن اب انہوں نے اس کو ایک ایسے طریقے سے محفوظ بنایا ہے جس کو فطرت پر مبنی حل یا (نیچر بیس سلوشن ) کہا جاتا ہے۔ جس کے تحت انہوں نے اپنے زرعی زمین کے دریا والے طرف کو مختلف قسم کے پودے لگائے ہیں ۔ جس کے زریعے اب انہوں نے اپنی زمین کو ہر قسم سیلابی پانی اور کٹاؤ سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ہے۔

صداقت نے کہا کہ وہ اپنے آباواجداد کے وقتوں سے اپنی زمینوں میں زمینداری کرتے آرہے ہیں اور مال مویشوں کو بھی پالتے ہیں۔ اس کے کھیت میں وہ گندم ،جوار اور چاؤل کے فصل کاشت کرتے ہیں ۔ لیکن اس کی زمین بلکل دریائے کے کنارے ہونے کے وجہ سے ہر سال سیلابی پانی میں بہہ جاتا تھا اور جو بچ جاتا تھا تو اس میں پانی بہہ جانے کی وجہ سے کافی نقصان پہنچتا تھا۔ جس سے اس کو ہر سال لاکھوں روپوں کا مالی نقصان ہوتا تھا ۔ اس مالی نقصان کی وجہ سے نہ صرف وہ بلکہ پورا خاندان بہت پریشان تھے۔

صداقت کے مطابق  پانچ سال پہلے انہوں نے ایک دوست کے زریعے محکمہ جنگلات باجوڑ سے رابط کیا اور ان سے اپنا مسئلہ شریک کیا۔ پھر اس وقت کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر باجوڑ حیات علی نے ان کو مشورہ دیا کے اپنے زمین کے دریا والے طرف پودے لگائے محکمہ جنگلات اس میں آپ کی مدد کریگی ۔ پھر اس کے مدد سےجب سے انہوں نے اپنے زمین کے دریا والے طرف کو کیکر، سفیدار، توت، اور  ویلے(ولے) کے پودے لگائے ہیں تو اس وقت سے اب تک اللّٰہ کے فضل سے یہاں پر سیلابی پانی کا خطرہ ٹل گیا ہے اور اب وہ اپنے زرعی زمینوں سے سے اچھی پیدوار لیتے ہیں۔ اگر ایک طرف پودوں کے لگانے سے ان کی زرعی زمین محفوظ ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کی لکڑی فروخت کرنے سے ان کے نقد آمدن سے ان کو معاشی فائدہ بھی پہنچ رہا ہے۔
خیبر پختون خوا فارسٹ امور کے ماہر اور سابق ڈویژنل فارسٹ آفیسر باجوڑ حیات علی کے مطابق باجوڑ سمیت خیبر پختون خوا میں زمینی کٹاؤ اور سیلاب کے روک تھام کے لئے نیچر بیس سلوشن کئی حوالوں سے اہم ہے۔جو زیادہ موزوں اور کم خرچ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوسرے فوائد بھی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس پر عمل کاو جائے۔

حیات علی نے بتایا کہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے ساتھ ساتھ پورے خیبر پختونخوا اور پاکستان مں دریا ( خوڑ) موجود ہے جس کی اپنی ایک واٹر شیڈ ہے۔ اگر ہم اس میں انٹینسیو سرگرمی کریں یعنی اس میں ہم پلانٹیشن کریں تو ایک وہ کم لاگت ہونے کے ساتھ دیرپا بھی ہوگی۔ جبکہ اس کے ساتھ ماحول دوست بھی ہوگی اور جنگلی حیات کے لئے بھی موزوں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کی اس کی بہت اہمت ہے۔ لیکن ہم اس کے بلکل الٹ کرتے ہیں۔یہاں ہم دریاؤں کے واٹر شیڈز کو تقویت دینے کے بجائے ان کے اطراف میں حفاظتی پشتے بناتے جس پر کروڑوں اور اربوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن وہ پائدار نہیں ہوتے اور سیلاب کے روک تھام میں اسی طرح کار آمد نہیں ہوتے جس طرح نیچر بیس سلوشن ہوتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو کلام سے لیکر منگورہ تک دریا کے کنارے بہت زیادہ گنجائش ہے کہ اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہم پلانٹیشن کریں۔ تو اس سے خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ زمینوں کی بڑے پیمانے پر تحفظ ہوگی۔ حیات علی کے مطابق انہوں نے باجوڑ میں چند علاقوں مںے نیچر بیس سلوشن پر کام کیا ہے جس کے بہت اچھے نتائج آئے ہیں جس سے زمیندار بہت خوش ہے۔

باجوڑ کے تاریخی گاؤں لاشوڑہ کے رہائشی نور اللہ خان کا ماموند خوڑ میں سات کنال زمین ہے ۔ جو ہر سال مون سون کے موسم میں سیلاب کے خطرے سے دوچار ہوتا تھا اور ان کو ہر سال ہزاروں روپے کا نقصان ہوتا تھا۔ لیکن آٹھ سال پہلے انہوں نے اپنی مدد آپ کی تحت اپنی زمین کے دریا والے حصے کو مختلف قسم کے پودے لگائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اللہ تعالی کے فضل سے اس کی پوری زمین سیلاب سے محفوظ ہے اور وہ اب اپنی زرعی زمین سے خوب پیداوار حاصل کررہے ہیں۔

نور نے بتایاکہ یہاں پر خوڑ کے کنارے حکومت نے دو تین حفاظتی پشتے بھی بنائے تھے لیکن وہ سیلاب کے روک تھام میں کارگر ثابت نہیں ہوئے اور وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے۔ اور جب سیلاب آتا ہے تو اپنے ساتھ کھڑی فصلیں بھی بہا کے لے جاتا ہے جس سے زمینداروں کا کافی مالی نقصان ہوتا ہے ۔ تو اس لئے اب دریا کے کنارے جتنی بھی زمینداروں کی زمینیں واقع ہیں ان میں سے زیادہ تر نے پودے لگائے ہیں اور اپنے زمینیں محفوظ کئے ہیں۔ ان کے مطابق اس کے لئے وہ اپنے پودوں کا ذخیرہ بھی بناتے ہیں اور اس کے علاوہ بازار سے بھی کبھی کھبی پودے خریدتے ہیں کیونکہ یہ ایک آسان اور کم لاگت والی حل ہے ۔

حیات علی کے مطابق ہمارے پاس دو طرح کے دریا ہے جس میں ا یک فریینیل ہے جو ہر وقت بہتی ہے جبکہ دوسری خشک ہوتے ہیں جس میں صرف بارشوں کے موسم مںی سیلاب آتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے بے وقت بارشوں اور سیلاب کے وجہ سے زمینی کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس لئے زمین کی تحفظ اور کٹاؤ کو روکنے کے لئے نیچر بیس سلوشن انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے تما م دریاؤں کے کنارے پشتے بنائے جاتے ہیں جو ایک طرف کثیر لاگت ہے تو دوسری طرف زیادہ پائیدار بھی نہیں ہوتے ہیں اور اکثر سیلابی پانی کے روک تھام میں موثر ثابت نہیں ہوتے۔

پینساٹھ سالہ گل مست گجر ان بد قسمت زمینداروں میں شامل ہیں جس کی پانچ کنال زمین ہر سال ماموند خوڑ سیلابی پانی میں بہہ جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کو ہر سال ہزاروں روپوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ گل مست کے بقول ان کی زمین دریا کے کنارے واقع ہے جو ہر سال سیلابی پانی کے زد میں آتا ہے اور جب سیلابی پانی اتر جاتا ہے تو پھر اس کو دوبارہ قابل کاشت بنانے پر بھی ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

گل مست گجر نے بتایاکہ وہ بھینسیں پالتے ہیں اس کی یہ کھیت نہ صرف ان کے خاندان کے لئے خوراک کا زریعہ تھا بلکہ ان کے بھینسوں کے لئے بھی اس سے چارہ دستیاب ہوتا تھا ۔ تاہم اب اپنے بھینسوں کے لئے وہ دوسرے زمینداروں سے چارہ خریدتے ہیں جو اس کے لئے دگنی نقصان ہے ۔ چند سال تک میں نے یہ نقصان برداشت کیا لیکن اب میرے بس سے باہر ہے اس لئے اب صرف ایک بھینس اپنی ضرورت کے لئے رکھا اور باقی فروخت کیں ہیں ۔

محکمہ زراعت توسیع باجوڑ کے فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق باجوڑ میں کل رپورٹڈ شدہ زرعی زمین 129036ہیکٹرز ہے جن میں 77062 ہیکٹرز قابل کاشت جبکہ باقی بنجر ہے۔ 77062ہیکٹرز زمین میں سے 15970ہیکٹرز کے لئے پانی دستیاب ہے اور باقی بارانی ہے۔ جو قابل کاشت زرعی زمین ہے ان میں سے خوڑ (دریاؤں) کے کنارے واقع زمینوں کو ہر سال موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے  سیلابوں کے خطرے کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم ایک زرخیز زرعی قطعہ اراضی سے محروم ہورہے ہیں۔

صداقت نے کہا کہ جب سے انہوں نے اپنے زمین کو نیچر بیس سلوشن کے زریعے سیلاب کے تباہ کاریوں سے محفوظ کیا ہے تو اس کی معاشی زندگی میں واضح بہتری آئی ہے ۔ اور اب اس کا پورا خاندان معاشی طور پر مستحکم ہے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی اجناس کے مد میں مدد کر تے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے کے خوڑ میں ہزاروں ہیکٹئرز زرعی زمین ہیں جس کا بڑا حصہ سیلابی پانی میں بہہ جاتا تھا جس سے علاقے کے تمام زمیندار تشویش میں مبتلا تھے ۔ تاہم جب سے انہوں نے اپنی زرعی زمین اس طریقہ کار کے زریعے محفوظ بنایا ہے تو دوسرے لوگوں نے بھی ان سے مشورے لئے اور اب کچھ لوگوں نے اس کے زریعے اپنی زمین محفوظ کئے ہیں اور کچھ زمیندار اب اس پر عمل کررہے ہیں۔

صداقت موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے حوالے سے کچھ نہیں جانتے لیکن ان کے مطابق چند سالوں سے سیلابوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے لیکن اللہ کا فضل ہے کہ اب ہماری زمین سیلاب سے بالکل محفوظ ہے ۔انہوں نے باجوڑ سمیت خیبر پختون خوا کے تمام زمینداروں کو اپیل کی کہ اپنی زمیں نیچر بیس سلوشن کے زریعے سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ بنائیں۔

حیات علی نے نہ صرف باجوڑ بلکہ خیبر پختون خوا کے تمام ان زمینداروں کو درخواست کی دیا ہے کہ جن کے زمینیں دریاؤں کے کنار واقع ہیں کہ وہ نیچر بیس سلوشن کے زریعے اپنے زمینوں کو محفوظ بنائیں۔ ان کے دریا والے اطراف کو مختلف پودہ جات لگائے اس سے نہ صرف ان کی زمینیں سیلاب سے محفوظ ہوگی بلکہ پھر ان کے لکڑیاں فروخت کرنے سے بھی ان کو مالی فوائد حاصل ہوگی۔ اگر زمینداروں کو اس کے لئے پودہ جات کی ضرورت ہوں تو وہ اپنے علاقے کے محکمہ جنگلات سے رابطہ کریں وہ ان کی بھر پور مدد کریگی۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں