پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ دریادریا ئے کابل جو چترال سے شروع ہوکر دونوں ممالک کے پچاس کے قریب چھوٹے بڑے شہروں سے گزرتا ہے جو گندگی کو ٹھکانے لگانے کا بڑا اور آسان ذرائع کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔ خطے میں بد لتی سیاسی حالات کے ساتھ مستقبل میں دریائے کابل کے حوالے بھی دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تقسیم کا ایک اہم مسئلہ سمجھاجاتاہے۔

دریائےکابل اپر چترال کے تحصیل مستوج میں واقع چن تار گلیشیر سے سرچشمہ لیکرجس کا سلسلہ یار خون وادی سے شروع ہوتا ہے اور راستے میں ان کے ساتھ مختلف علاقوں سے نکلنے والے چھوٹے بڑے دریا شامل ہوجاتے ہیں۔مستوج کے حدود میں دریا کو دریا مستوج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یارخون سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر راستے میں اس کے ساتھ لاس پور دریا شامل ہوکر پانی کے مقدار میں کافی اضافہ کردیتا ہے۔

راستے میں ان کے ساتھ گروح کے مقام پر دریا ملوکو جبکہ مستوج کے حدود میں چترال شہر کے قریب آخری پانی گرم چشمہ سے نکلنے والے پانی دریا چترال میں شامل ہوتاہے جو شہر سے پانی کا کافی مقدار گزرتاہے۔ دریا کا پانی چترال میں 354کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے جنوب کی طرف آرندوں سے ہمسایہ ملک افغانستان کے صوبہ کنڑ میں داخل ہوتا ہے۔جغرافیا ئی تبدیلی کے ساتھ دریا کا نام بھی تبدیل ہوکر چترال سے دریائے کنڑہوجاتا ہے۔

دریا ئے چترال سے مقامی آبادی کوبہت ہی کم فائد ہ حاصل ہوتا ہے لیکن سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ضلع چترال کے تقریباً گیارہ مقامات کی نشاندہی ہوئی تھی جہاں پر چھوٹے پن بجلی گھر بنائے جاسکتے ہیں۔جس کے سروے مکمل ہوچکی ہیں اور دریا کے کنارے سفر کے دوران اُن کے نشانات بھی دیکھائی دیتا ہے۔

حکومت نے جنوری 2011میں چترال شہر سے تقریبا ً25کلومیٹر دور دریا مستوج کے ساتھ ملنے والاایک شاخ گولن گول دریا پر 30ارب کے لاگت سے 108 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے ایک منصوبے پر کام شروع کیا اور 3فروری 2018کو سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے منصوبے کا افتتاح کردیا۔

چترال کے زرعی زمینوں کیلئے دریا سے پانی مہیاکرنے کے لئے کوئی نہری نظام موجود نہیں البتہ مقامی آبادی نے دریا سے زرعی زمینوں کو پانی کے حصول کے لئے چھوٹے چھوٹے نہریں نکال کر اپنے ضروریا ت پورا کرتے ہیں۔ سیلاب کے وجہ سے اکثر اس عارضی نظام کو کافی نقصان پہنچتا ہے جو کہ بعد میں لوگ اپنے مدد آپ کے تحت انتہائی مشکل مرحلہ کے بعد نہری نظام بحال کیا جاتا ہے۔

محکمہ آبپاشی کے جانب سے نہری نظام کے عدم موجود گی کی ایک وجہ دریا کا آبادی کی سطح سے ا نتہائی گہرا ئی ہے لیکن دوسرے طرف ہرسال جون، جولائی اور اگست میں شدید بارشوں کی وجہ سے سیلابی ریلے نہ صرف دریا کے کنارے زرعی زمینوں کو ویران کردیتی ہیں بلکہ رہائشی علاقوں کو بھی کافی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔
عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے گرمی کے موسم میں گلیشئر تیزی کے ساتھ پگھل کر پانی میں تبدیل ہوکر نہ صرف سیلا ب کے شکل اختیار کرلیتا ہے بلکہ زمین اور پہاڑوں کی کٹائی کرکے بڑی مقدار میں مختلف اقسام کے معدنیا ت بھی ضائع ہوجاتے ہیں لیکن عام لوگ چترال میں دریا سے سونا نکالنے کا کام بھی کئی مقامات پر محدود پیمانے پر کرتے ہیں۔

دریائےکابل
چترال کے چشموں کا پانی دریا کی شکل میں آرندوں سے افغانستان کے صوبے کنڑ میں غازی آباد کے مقام پر داخل ہو کر آگے درہ شیگل آسمار، مرورہ اور کنڑکے مرکز اسدآباد سے گزکر سرکانڑی، نارنگ سے ہوتے ہوئے صوبہ ننگرہار کے مشرقی حصے میں قامہ (کامہ)کے مقام پر دریا کابل کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے۔ دریائے کابل میں پانی کا مقدار دریا کنڑ کے مقابلے میں کم ہوتاہے۔ جہاں سے دونوں دریا ملکر دریا کابل کے نام سے پکارا جاتاہے اور یہ گوشتہ، ممنددرہ، لعل پورہ سے ہوتے ہوئے دوبارہ پاکستان کے قبائلی علاقہ شلمان میں داخل ہوتاہے۔

امریکہ میں سابق افغان سفیر اور پانی کے امور کے ماہر سید طیب جواد کاکہنا ہے کہ دریا ئے کابل آفغانستان کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیو نکہ یہ پوری ملک کے سطح پر واحد دریا ہے جس میں پانی کا مقدار سب سے زیادہ ہے اور بہت بڑی آبادی کی ضروریات پورا کرتا ہے۔دریا کابل کا سرچشمہ سمنگان کے گلشیر سے شروع ہوتا ہے جبکہ راستے میں شمالی افغانستان کے صوبے پنجشیر سے آنے والے پانی کیساتھ مل کرآگے سیاختی مقام پغمان سے ہوتے ہوے کابل شہر میں داخل ہوتا ہے۔

گرمیوں کے موسم میں پغمان میں موجود گلیشر کی پگھلنے کی وجہ سے دریا میں پانی کا مقدار زیادہ ہوتاہے۔ کابل جاتے ہوئے راستے میں دریا پر سروبی کے مقام پر ایک بجلی گھر قائم کیاگیا ہے جس سے کابل کے آبادی کے ضروریات پوری کئے جاتے ہیں جبکہ قریب کے علاقوں کے زرعی زمینوں کے لئے پانی یہاں سے ہی مہیاکی جاتی ہیں۔

لوگر صوبے سے نکلنے والا دریا بھی دریا ئے کابل میں شامل ہوکر ننگرہار یونیوسٹی کے قریب دورنٹہ کے قریب پر ایک چھوٹا بجلی گھر بنایا گیا ہے جو کسی حد تک جلال آباد اور قریبی علاقوں کے بجلی اور زرعی زمینوں کے آبپاشی کے ضروریات پورا کرتے ہیں۔جلال آباد شہر کے قریب بھسودو کے مقام پر دریائے کابل کے کنارے ہوٹل بنائے گئے ہیں اور شہرسے دریا گزر کرچالیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے دریاکنڑ کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان کے سرحد قبائلی علاقہ شلمان کی طرف نکلتاہے۔

کئی دہائی پہلے کابل شہر میں دریا کے بہنے کا خوبصورت اندازانتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اور مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کے بناء پر موجود ہ وقت میں شہر کا سب سے زیادہ گنداسی دریا میں ڈالا جاتاہے جس کی وجہ سے عام شہریوں کیلئے بڑی مصبیت کا باعث ہے اور دوسرے جانب مجموعی طو پرر دریامیں پہلے کے نسبت پانی کا مقدار بھی کم ہوچکاہے۔

افغانستان کے محکمہ آبپاشی کے مطابق دریا کابل آفغانستان کے حدود میں تقریبا 360کلومیٹر تک سفر طے کرتا ہے جوبہت بڑی آبادی کے مختلف ضروریا ت اس دریاسے ہی پورا ہوتی ہیں۔مقامی آبادی جگہ جگہ پر دریا میں مچھلیوں کا شکار بھی کرتے ہیں جبکہ کارغ ڈیم سے بڑے پیمانے پر آبپاشی کی جاتی ہیں۔

افغان پارلیمان کے سابق ممبر عبدالامین کا کہنا ہے کہ پانچ ملین سے زیادہ آبادی کا یہ شہر دوسرے مسائل کے ساتھ مقامی آبادی آبی اور فضائی آلودگی جیسے خطرناک مسائل کا سامنا کررہاہے۔اُن کے بقول کئی دفعہ پارلیمان میں اس پر بحث ہوئی کہ کابل دریا کے صفائی کے منصوبے پر کام ہوناچاہئے جس کے لئے تقریباً15 لاکھ ڈالر درکار ہوگی۔ لیکن بدقستمی سے اس پر کوئی غور نہیں کیا جارہاہے۔

سیدکمال ہمدرد جغرافیہ کے پروفیسر ہے اُن کے تحقیق کے مطابق دریا ئے کابل کے پانی کا بڑا مقدار پاکستان اور افغانستان میں حصہ ہندوکش کے سلسلے سے آتاہے جس کے اونچائی 3900سے 4500میٹر تک ہے۔دریا کابل صوبہ لغمان اور ننگرہار جو کہ افغانستان کے زرعی صوبے ہے اور دوسرے علاقوں میں 7ہزار پانچ سو نوے مر بع کلومیٹر علاقے کو سیراب کرتا ہے۔

دریا ئے کابل کی لمبائی افغانستان میں 360کلومیٹر ہے۔لگ بھگ 66ہزار مربع کلومیٹر کے مختلف علاقوں اور پہاڑوں سے پانی دریائے کابل میں شامل ہوتے ہیں جو چترال، کنڑ، کابل اور پاکستان کے مختلف پہاڑی اور میدانی علاقو ں سے چشموں اور بارش کے پانی شامل ہیں۔

پاکستان میں خیبر اور مہمند کے سنگم پر ورسک کے مقام پر کینڈین حکومت کے مالی اورتکنیکی معاونت سے پاکستان نے دریا ئے کابل پر پہلا ڈیم تعمیر کرایا جس کا پہلا مرحلہ 1960میں مکمل ہوا جس سے خیبر اور مہمند کے چند علاقوں سمیت پشاور کے شمال اور جنوب میں واقع زرعی زمینوں کے نہری نظام نئے سرے سے تعمیر کرایا گیا جبکہ ان علاقوں میں پہلے سے ایک پرانہ نظام بھی موجود تھا جو آج تک کارآمد ہے۔ڈیم کا دوسرا مرحلہ 1980-81میں مکمل ہوا جس کے تحت41.48میگاواٹ بجلی کا پیداور شروع ہوا۔

دریائے کابل پر پاکستان کے حدود میں پانی سے فائد حاصل کرنے کا یہ بڑامنصوبہ تھا جس کے تحت نہ صرف سیلابی صورت حال میں پانی کے روک تھام ہوسکتا ہے بلکہ پانی کو ضرورت کے مطابق ذخیرہ کرنے کابندوست کیاگیا۔

ڈیم اپنا پچاس سالہ مدت پورا کرچکا ہے اور پانی میں ریت اور مٹی کے زیادہ مقدار ڈیم میں جمع ہونے کی وجہ سے پانی کاذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوکر صرف پانچ فیصد رہ گیا ہے۔ سال 2010-11میں ملک سیلابی صورتحال میں پشاور،چارسدہ اورضلع نوشہر ہ کے کافی علاقے متاثر ہوئے۔

پاکستان میں دریا ئے کابل خیبر،مہمنداور پشاور سے ہوتاہوا ضلع چارسدہ میں سیاختی مقام سردریاب کے مشرق میں دریا سوات کے ساتھ ملکر 140کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اٹک میں کنڈ پارک کے مشرق میں دریا سندھ کے ساتھ شامل ہوجاتاہے۔

دریائےسوات میں سردیوں میں پانی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں جبکہ گرمیوں میں اس کے مقدار میں کافی اضافہ ہوتا ہے۔ دریائے کابل کے کنارے پر پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ میں جگہ جگہ پر سیاحتی مقامات اور ہوٹلز موجود ہے جوبڑی تعداد میں مقامی لوگوں کے لئے کمائی کا اہم ذریعہ ہے۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں