تحریر: کائنات احسان
سماجی تشکیلیں وہ مشترکہ تصورات اور معیارات ہیں جو ہمارے معاشرتی رویوں، عقائد اور تعاملات کی تشکیل کرتی ہیں۔ یہ تشکیلیں افراد کے تجربات اور شناخت کو متاثر کرتی ہیں، اور یہ طے کرتی ہیں کہ معاشرتی طور پر کیا صحیح یا غلط، اچھا یا برا، قابل قبول یا ناقابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ ان تشکیلوں کا اثر نہ صرف فرد کی زندگی پر ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے پر بھی گہرا اثر انداز ہوتا ہے۔
سماجی تشکیلوں کی بنیاد انسانوں کے درمیان باہمی تعاملات پر ہوتی ہے۔ معروف سوشیالوجسٹ پیٹر برجر نے اپنی کتاب The Social Construction of Reality میں کہا ہے کہ "حقیقت سماجی طور پر تشکیل دی جاتی ہے، اور علم کی سوشیالوجی کو اس کے تشکیل کے عمل کا تجزیہ کرنا چاہیے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری دنیا کا سمجھنا بڑی حد تک اجتماعی انسانی معاہدوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے کے لیے مختلف معاشرتی اصولوں اور معیارات کو اپناتے ہیں، جو ہمیں زندگی میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
سماجی تشکیلوں کی ایک اہم مثال جنسی تشکیلات ہیں۔ یہ اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ مرد اور عورت کو کیسے برتاؤ کرنا چاہیے۔ معاشرتی توقعات جو مردانگی اور نسوانیت کے بارے میں ہیں، بڑی حد تک تشکیل دی جاتی ہیں، جو افراد کے کرداروں کو متاثر کرتی ہیں۔ مشہور فلسفی جڈت بٹلر نے اپنی کتاب Gender Trouble میں یہ دلیل دی ہے کہ "جنس ایک پرفارمیٹو عمل ہے؛ یہ ایک مستحکم شناخت نہیں بلکہ ایک متحرک اور متغیر عمل ہے۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی جنسی شناخت کو مختلف مواقع پر پیش آنے والے حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔
یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ روایتی نظریات جو مخصوص طرز عمل، ذمہ داریوں، اور ظاہری شکلوں کو مردوں اور عورتوں کے لیے درست سمجھتے ہیں، کیسے فرد کی شناخت اور خود اظہار پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کسی معاشرت میں یہ سوچا جائے کہ صرف مرد ہی کماتا ہے اور خواتین کو گھر کی دیکھ بھال کرنی چاہیے، تو اس سے دونوں جنسوں کی شناخت متاثر ہوتی ہے۔ مردوں پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ کامیاب بنیں، جبکہ خواتین کو اپنے خوابوں کو چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، سماجی تشکیلیں نسل اور قومیت کے بارے میں ہمارے سمجھنے کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ مختلف نسلی اور قومی گروہوں کی درجہ بندی اور ہیرارکی بڑی حد تک سماجی تشکیل ہوتی ہے۔ W.E.B. Du Bois نے کہا، "بیسویں صدی کا مسئلہ رنگ کی لکیر کا مسئلہ ہے۔” یہ بیان نسل کے گرد موجود سماجی تشکیلوں کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے، جو نظامی عدم مساوات اور امتیاز کا باعث بنتی ہیں۔ نسل کی تشکیل کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد، ہم اس تصور کو چیلنج کر سکتے ہیں کہ نسل ایک سائنسی حقیقت ہے، اور اس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان عدم مساوات کا خاتمہ کرنے کی کوششیں شروع کر سکتے ہیں۔
سماجی تشکیلوں کی طاقت فرد کی شناخت کے علاوہ، وسیع معاشرتی اصولوں اور اقدار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ تعلیمی ادارے، میڈیا، اور مذہب جیسے ادارے ان تشکیلوں کے پھیلاؤ اور چیلنج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ معروف فلسفی مائیکل فوکالٹ نے کہا، "علم طاقت ہے,” جو یہ واضح کرتا ہے کہ سماجی ادارے ہماری سماجی معیارات کی سمجھ کو کس طرح تشکیل دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، میڈیا اکثر مخصوص نسلوں، جنسوں، اور طبقات کے بارے میں روایتی تصورات کو تقویت دیتا ہے۔ لیکن مثبت میڈیا کی نمائندگی بھی سماجی تبدیلی کا ایک طاقتور ذریعہ ہو سکتی ہے، جس سے معمولی آوازوں کو نمایاں کیا جا سکتا ہے۔
سماجی تشکیلوں کے اثرات نہ صرف میڈیا تک محدود ہیں بلکہ یہ حکومتی پالیسیاں اور قوانین بھی متاثر کرتی ہیں۔ جب حکومت کسی مخصوص گروہ کو حقوق یا وسائل فراہم کرتی ہے، تو یہ سماجی تشکیلوں کو متاثر کرتی ہے۔ شہریت کی سماجی تشکیل یہ طے کرتی ہے کہ کون ایک سیاسی کمیونٹی کا رکن سمجھا جاتا ہے اور انہیں کن حقوق اور مراعات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس تشکیل پر مختلف عوامل جیسے قومیت، نسل، اور سماجی و اقتصادی حیثیت اثر انداز ہوتے ہیں، جس سے افراد کے وسائل اور مواقع تک رسائی متاثر ہوتی ہے۔
مزید برآں، سماجی تشکیلیں ذہنی صحت اور معذوری جیسے اہم سماجی مسائل کی تفہیم کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ ذہنی صحت کو عام طور پر ایک ذاتی ناکامی کے طور پر تشکیل دیا جاتا ہے، جو لوگوں کو مدد طلب کرنے سے روکتی ہے۔ ماہر نفسیات ایریک فروم نے کہا، "انسانی فطرت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ ہم اپنی مشکلوں کا سامنا نہیں کرتے۔” ذہنی صحت کی اہمیت کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگاہی بتاتی ہے کہ ہمیں زیادہ سمجھ بوجھ اور معاونت پر مبنی رویے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک اہم تبدیلی ہے جو سماجی تشکیلوں کے اثرات کی شناخت کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
سماجی تشکیلوں کی طاقت اس بات میں مضمر ہے کہ یہ ہمارے عقائد، رویے، اور تعاملات کو کیسے متاثر کرتی ہیں۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری کئی تفہیمات سماجی طور پر تشکیل دی گئی ہیں، تو ہم ایسے نقصانات کے خلاف چیلنج کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو عدم مساوات اور ناانصافی کو بڑھاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، یہ سمجھ بوجھ ہمیں موجودہ حالات کو چیلنج کرنے، تبدیلی کے لیے وکالت کرنے، اور شناخت اور کمیونٹی کی ایک زیادہ جامع تفہیم کو اپنانے کی طاقت عطا کرتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ سماجی تشکیلیں وہ طاقتور عناصر ہیں جو ہمارے معاشرتی معیارات اور اقدار کی تفہیم کو تشکیل دیتے ہیں۔ ان کا اثر فرد کی شناخت اور ان کے تعاملات پر ہوتا ہے۔ ان تشکیلوں کا تنقیدی جائزہ لے کر ہم ایک زیادہ منصفانہ اور برابر معاشرے کی تشکیل کی کوشش کر سکتے ہیں جو تنوع کی قدر کرتا ہے اور سب افراد کے درمیان سمجھوتہ کرتا ہے۔ جیسا کہ معروف فلسفی جان اسٹورٹ مل نے کہا، "آزادی کا اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال میں آزاد ہو، بشرطیکہ وہ دوسرے افراد کی آزادی میں خلل نہ ڈالے۔” اس فلسفے کے مطابق، ہمیں اپنے معاشرتی نظام میں تبدیلی کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہر فرد کو اپنی شناخت کے اظہار اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کا موقع مل سکے۔