خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑکے تحصیل خار کے گاؤں بتائی علیزو کے رہائشی اڑتھالیس سالہ فقیرگل اپنے سترہ سالہ بیٹے فواد عالم کے قبر پر اشکبار آنکھوں کے ساتھ کھڑے دعا مانگ رہا ہے۔ ان کا بیٹا فواد پینتالیس دن پہلے غیر قانونی طریقے سے یورپ جاتے ہوئے ایران میں ٹریفک کے ایک ناخوشگوار حادثہ کا شکار ہوئے تھےجس میں وہ ایک ساتھی سمیت جابحق ہوگئے تھے۔
فقیرپیشے کے لحاظ سے پلمبر ہے اور محنت مزدوری سے گھر کے اخرجات بمشکل پورا کررہے ہیں۔اُنہوں نے آفسردہ لہجے میں اپنے بیٹے فوادکےبارے میں کہا کہ محدود کمائی کے باجود بھی اپنے خاندان کو کسی چیز کی کمی نہ ہونے کے باجوود بھی فواد موبائل فون پر دوستوں کے ساتھ یورپ میں مقیم اپنے گاؤں کے لڑکوں اور باجوڑ کے دوسرے لوگوں کے لائف سٹائل کے حوالے سے ویڈیوز دیکھتا تھا کہ وہاں پر اُن کی زندگی بہتر گزر رہی ہے ۔ دوسری طرف یورپ میں مقیم باجوڑ کے کمیونٹی کے لوگ گھروں کو بھی اچھی خاصی رقم بھیجتے ہیں ۔
ان چیزوں سے متاثر ہوکر میرے بیٹے ستیگ گاؤں کے چند دوسرے نوجوان لڑکوں نے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان کے معاشی حالت میں بھی بہتری آسکیں لیکن یہ ان کی خام خیالی تھی ۔ مجھ سمیت اپنے بڑے بھائیوں اور خاندان کے دوسرے افراد سے چھپکے اُنہوں نے ایک ایجنٹ سے اپنے ساتھیوں کے گروپ کے ہمراہ فی کس بارہ لاکھ روپے میں ترکیہ تک پہنچنے کی بات کی تھی۔ گھر میں کچھ بتائے بغیر دوسرے ساتھیوں کے ساتھ وہ اس پرخطرغیرقانونی سفرپرروانہ ہوگئے تھے۔
فقیر کے بقول ” فوادمیٹرک کا سٹوڈنٹ تھا انہوں نے اس کے لئے سکول میں داخلہ لیا تھا ۔ لیکن گھر سے نکلنے کے پانچ دن بعد ان کو اطلاع ملی کہ فواد ایران کے علاقے سروان میں ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہو چکا ہے ولمحہ ان سمیت پورے خاندان والوں کے لئے قیامت صغرٰ ی سے کم نہیں تھا”۔
فواد کے چچا نظیر گل نے بتایا کہ فواد ان کا بھتیجا ہونے کے علاوہ ایک اچھا دوست بھی تھا وہ ہر بات میرے ساتھ شیئر کرتا تھا لیکن اس نے کبھی یورپ کے اس مشکل سفر کے بارے میں بات نہیں کی تھی شاید وہ جانتا تھا کہ میں اس کو روک لونگا ۔ اگر وہ مجھے بتاتے تو میں اس کو ضرور اس مشکل سفر سے روک لیتا ۔ فواد ایک سپورٹس مین تھا کرکٹ کا اچھا کھیلاڑی اور ایک اچھا انسان بھی تھا۔ اس کے ناگہانی موت نے سب خاندان کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ان کی والدہ ہر وقت اس کی غم سے نڈھال رہتی ہے ۔
اگرایک طرف فقیر کا جوان سالہ بیٹا اس غیر قانونی سفر کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو دوسری طرف اس کے لاش لانے میں بھی اس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ فقیر کے مطابق ” اپنے بیٹے کی لاش تین لاکھ روپے خرچ کرکے بڑی مشکلات کے بعد ایران سے گھر لایا جس میں اس ایجنٹ نے اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کیا جس نے ان کے بیٹے کو یورپ جانے کے لئے ورعلایا تھا”۔
بتائی علیزو گاؤں کی آبادی تقریبا 1000 نفوس پر مشتمل ہیں جس کے زیادہ تر نوجوان یورپی ممالک جانے کے خواہشمند ہیں۔ یہ باجوڑ کا وہ بدقسمت گاؤں ہے جس کے پچھلے چھ سالوں میں پانچ نوجوان غیر قانونی طریقے سے یورپ جاتے ہوئے راستے میں مختلف حادثات کے وجہ سے وفات پا چکے ہیں اور چند زخمی بھی ہوئے ہیں۔لیکن پھر بھی غربت اور شعور کی کمی کی وجہ سے یہاں کے نوجوان اس پر خطر غیر قانونی سفر سے باز نہیں آتے ۔
باجوڑسے یورپی ممالک کوغیرقانونی طریقے سے جانے کا سلسلہ سن 2000 میں شروع ہوا لیکن 2015 کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ ان غیر قانونی سفر کرنے والے افراد کے بارے میں کوئی مستند ڈیٹا موجود نہیں ہے لیکن ایک انداز کے مطابق ہرسال باجوڑ سے 1500 کے لگ بھگ نوجوان غیرقانونی طریقے سے یورپ جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ ہزاروں تک پہنچ گیا ہے۔ جس میں اکثر ڈی پورٹ ہوتے ہیں اورکچھ تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے اس رجحان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے۔
بتائی علیزو کے انیس سالہ اسد اللہ جو فرسٹ ائیر کا طالبعلم تھا وہ بھی ان بد قسمت نوجوانوں میں شامل تھے جنہوں نے یورپ جانے کے غیر قانونی سفر میں جان کی بازی ہاری ہے۔ اسد کی وفات کے بعد اس کے والد کی زندگی بدل چکی ہے اس میں اب بات کرنے کی سکت نہیں رہی اس لئے اس کے چچا نواب خان نے اس دردناک واقعہ کے بارے میں بتایا کہ ا سد اس سے پہلےبھی ایک بار اس غیر قانونی سفر پر روانہ ہوئے تھے لیکن اس کے والد نے اس کو کوئٹہ سے واپس کیا تھا۔ لیکن اس دفعہ اس نے سب گھروالوں کو راضی کیا تھا اور باہمی مشورہ سے ایجنٹ سے دس لاکھ پچیس ہزار میں ترکیہ پہنچنے پر بات فائنل کردی تھی۔ 21 ستمبر کو وہ گھر سے روانہ ہوئے تھے اور 25 ستمبر کو ایران میں ٹریفک حادثے میں جاںبحق ہو گئے تھے۔
غیرقانونی طریقے یورپ جانے والوں کو راستے میں درپیش مشکلات
چالیس سالہ فرمان اللہ نے دوفعہ غیر قانونی طورپریورپ جانے کی کوشش کی لیکن وہ راستے میں پکڑے گئے اورپاکستان ڈی پورٹ ہوئے۔ فرمان نےاپنےاس غیرقانونی سفر کے دوران اپنے مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بارانہوں نےایجنٹ کی ساتھ دولاکھ روپے پربات کی کہ وہ ان کو ترکی تک پہنچائے گا۔ جبکہ وہاں سے یورپ تک سفر کے لئےالگ پیسےدینے تھے۔
انہوں نے کوئٹہ جاکر وہاں سے ایرانی سرحد تک سفرکیا اس کے بعد سفرکےمشکلات شروع ہوئے کیونکہ اُن کے بقول وہاں سے ایجنٹ نےغیرقانونی طورپرایران پہنچانا تھا۔ جب ہم ایرانی سرحد پہنچ گئے تو وہاں پرسخت سیکورٹی تھی اور ریگستان کا علاقہ تھا۔ ہم نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے۔ ہمیں واپس لایا گیا اوردوسری دن پھر ایرانی سرحد لےگئے۔ اس بارریت کے طوفان میں ہمیں سرحد پارکرایاگیا ہم پرشدید فائرنگ بھی ہوئی لیکن بچ نکلیں۔
زاہدان سے تہران تک موٹرکار اوردوسرے گاڑیوں کے زریعے کچے راستوں سےپہنچایا گیا۔ تاہم تہران سے ترکی کی سرحد تک سفر اوربھی مشکل تھا کیونکہ ایک موٹرکارمیں بارہ بارہ بندوں کو بٹھایا جاتا تھا جس میں سانس لینا بھی مشکل تھا لیکن ہمیں وہاں پراسی طریقے سے لے جایا گیا ۔ اس میں کوئی جانے سے انکار بھی نہیں کرسکتا کیونکہ پھروہاں پرچھوڑ دیتا ہے۔
راستے میں اتنا خوارک دیا جاتا ہے تاکہ بس انسان صرف زندہ رہے۔ اور پانی تو بس صرف اتنا کہ حلق گیلا رہے۔ خیراس مشکل کے بعد ہم ترکی کے سرحد وان پہنچ گئے لیکن وہاں پرسرحد پارکرنا اور ایک مشکل ترین کام تھا کیونکہ صرف رات کے وقت سفرہوسکتاتھا اوروہ بھی پہاڑپرپیدل ۔ اس میں گرنے کا زیادہ خدشہ تھا اورکئی ساتھی گرگئے جس کو اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہاں پر بس قیا مت جیسا منظر ہوتا ہے ہر ایک اپنی جان بچانے اورآگے جانے کے سوچ میں ہوتا ہے۔ ہمیں وہاں پرانسانی ڈھانچے بھی ملے شاید یہ ان افراد کے تھے جو راستے میں جاں بحق ہوئے تھے۔
دودن پیدل سفر کرنے کے بعد ہم وان پہنچ گئے وہاں پر ہمیں ایک کچے مکان میں ٹھہرایا اوراس کے بعد پھراستنبول کا سفرشروع ہوا۔ جب ہم استنبول پہنچ گئےتو وہاں پر بد قسمتی سے مجھے ترکی پولیس نے پکڑکرچند دنوں میں پاکستان ڈی پورٹ کیا۔
جب واپس گاؤں آیا توچند مہینے بعد دوبارہ جانے کا ارادہ کیا کیونکہ باجوڑمیں کوئی روزگار نہیں تھا اورامن کے صورتحال بھی ٹھیک نہیں تھے۔ جب اسی طرح دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس بارمشکلات اوربھی زیادہ تھے اورایران بارڈر پر بہت زیادہ سختی تھی۔ ہمارے ساتھ جو دوسرے لڑکے تھے وہ راستے کے مشکلات دیکھ کرروتے تھےاورمجھے کہتے تھے کہ آپ کو ہمارا سلام ہے کہ آپ نے ایک باریہ سب مشکلات دیکھ کردوبارہ آنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس دفعہ ہمیں ایران کے پولیس نےپکڑا اورجیل بھیج دیا وہاں پربہت سخت دن گزارے کسی قسم کی سہولت نہ تھی اورہم یہی دعا کرتے تھے کہ کاش ہم ایک دفعہ اپنے ملک واپس جا سکیں۔
ایران میں 25 دن جیل کاٹنے کے بعد ہمیں واپس پاکستان بھیج دیا گیا۔ فرمان نے کہا کہ میں نے موت کو دوبار اپنےآنکھوں سے دیکھا ہے ۔ اس لئے میں باجوڑ کےتمام نوجوانوں سےاپیل کرتا ہوں کہ وہ غیرقانونی راستوں سے یورپ جانے کے بجائے قانونی طریقہ کاراختیارکریں تاکہ کسی بھی مشکل سے بچ سکیں۔
یونانی حکام کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کے اعداد و شمار میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ملک کئی مسائل کا شکارہے۔ پچھلےسال سات فروری کو یونان کے ایک اعلی قیادت نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ملاقات میں غیرقانونی پاکستانیوں کے آمد کے روک تھام کے لئے پاکستانیوں کو پانچ سال کے ویزے جاری کرنے کا اعلان کیاگیا تھا۔ یونانی وفد نے بتایاکہ اس وقت میں ملک میں 60ہزار سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ پاکستانی موجود ہے جو کہ غیر قانونی طریقے سے یورپ کے دوسرے ممالک جانے کے لئے انتظار کررہے ہیں۔
تاہم اب غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں نے یونان کے بجائے لیبیا کے راستے کا انتخاب کیا ہے اور اسی راستے سے بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین اٹلی میں داخل ہورہے ہیں ۔جس میں اکثر میڈٹرینین سمندر میں کشتیاں الٹنے کے واقعات پیش آتے ہیں جس میں ہر سال سینکڑوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس میں دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاوں کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ جبکہ باجوڑ کے تین افراد لیبیا میں ایک ماہ سے لاپتہ ہے جس کا ابھی تک گھر والوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
باجوڑ کے ممتاز ادیب ، تاریخ دان اور سماجی امور کے ماہر محمد انور نگار نےباجوڑ کے نوجوانوں کے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے عمل کو ایک تشویشناک امر قراد دیا اور کہا کہ اس کے کئی وجوہات لیکن سب سے اہم بدامنی اور معاشی جمود ہے۔ جب معاشرہ جمود کا شکار ہوتا ہے تو نوجوانوں میں اسی طرح کے رجحان فروغ پاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان بڑی تعداد میں ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دیگر قوام کے مقابلے میں پشتونوں میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی گاؤں میں ایک بندہ یورپ میں سیٹل ہوجاتا ہے تو دوسرا بھی پھر کوشش کرتا ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے یورپ پہنچ جائے تو پھر اس کے لئے غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتا ہے جو ہر لحاظ سے پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
باجوڑ کے مقامی صحافی احسان اللہ خان نے بتایا کہ مہینے میں ایک سٹوری ضرور غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک جانے والے افراد کے مشکلات پرکرتے ہیں کیونکہ باجوڑ سےغربت اورذہنی تناؤ کے وجہ سے لوگوں ان پر خطرسفرپرجانے کے لئے تیا رہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان واقعات کو مسلسل سوشل میڈیا ،اخبارات اور ٹی وی نیوز چینل پر رپورٹ کرتے ہیں لیکن بد قسمتی کی بات ہے کہ پھربھی غیرقانونی طریقوں سے یورپی ممالک کو نوجوانوں کے جانے میں کمی نہیں آئی۔
احسان کے بقول ان لوگوں میں بہت کم لوگ یورپ جانے میں کامیاب ہوتے ہیں لیکن پھر وہاں پہنچنے کے بعد بھی ان کو کئی طرح کے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کئی لوگوں کے والدین کو ہم نے دیکھا ہے کہ اب بھی وہ اپنے بچوں کو یہاں سے پیسے بھیج دیتے ہیں۔ ایک اورافسوسناک بات یہ ہےکہ یورپ جانے والے لوگوں کےوالدین سود پرلوگوں سے پیسے لیتے ہے۔ پھراس کی ادائیگی نہیں کرسکتے جس کی وجہ سے روزانہ کے بنیاد پرجھگڑے ہوتے ہیں ۔ جس سے تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔
نگار بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ادبی میلوں اور دوسرے پلیٹ فارمز پر نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے کئی پروپوزل اور تجاویز دئیے ہیں کہ نوجوانوں کے فلاح و بہبود کے لئے اپنے اپنے علاقوں میں سکلز پروگرام شروع کیا جائے تاکہ وہ مالی لحاظ سے خود کفیل بن جائے لیکن سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس پر کام نہیں ہوا۔ حکومت کو چاہئے کہ نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں اور اس حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے تاکہ غیر قانونی طورپریورپ جانے کی حوصلہ شکنی ہوسکیں۔
نواب نے کہا کہ ان کے خاندان میں پینتالیس دن گزرنے کے باوجود بھی غم کا سماں ہے ۔ اب وہ اپنے اس فیصلے پر پشیمانی اور افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ کاش وہ اسد کو غیر قانونی طریقے سے یورپ نہ بھیجتے تو اچھا ہوتا ۔ آج اسد ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا نہ ہوتا۔ انہوں نے تمام والدین کو پیغام دیا کے دولت کےخاطر اپنے بچوں کے مستقبل داؤ پر نہ لگائے اور غیر قانونی طریقوں کے بجائے قانونی طریقوں سے اپنے بچوں کو بیرونی ممالک بھیج دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم پر اپنی توجہ مرکوزکریں۔
فقیر نے بتایا کہ ان کا لخت جگر تو یورپ کے غیر قانونی سفر کے وجہ سے ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوا لیکن وہ چاہتا ہے کہ کسی دوسرے کا گھر اس غیر قانونی سفر کے وجہ سے برباد نہ ہوجائیں اس لئے انسانی سمگلروں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائیں اور نوجوان کا مستقبل محفوظ بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی اپنے بچوں کے حوالے سے بیدار رہنا چاہیے اور ان پر کھڑی نظر رکھا جائیں کیونکہ اگر میں لاپرواہی نہیں کرتا تو آج مجھ سے میرا نوجوان بیٹا ہمیشہ کے لئے جدا نہ ہوتا۔ جبکہ نوجوانوں سےبھی میرا اپیل ہے کہ اپنی زندگی خود موت کی منہ میں نہ ڈالیں اوراپنے ملک میں محنت مزدوری کریں لیکن غیر قانونی طریقے سے باہر کے ممالک جانے سے گریز کریں۔