• تحریر: اصغر آفریدی

    ‎آج ہم جس موضوع پر بات کرنے جا رہے ہیں، وہ ایک ایسا حساس اور نازک مسئلہ ہے جس پر بات کرنا اکثر لوگ “آ بیل مجھے مار” کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ موضوع بظاہر فلاحی لگتا ہے، لیکن اس کے پیچھے ایک تلخ سچائی چھپی ہے جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

    ‎گزشتہ کچھ عرصے سے ضلع خیبر، خاص طور پر تحصیل باڑہ میں ایک نیا سوشل میڈیا ٹرینڈ زور پکڑ رہا ہے، جسے عرفِ عام میں ’’ڈیجیٹل بھیک‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس میں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس، نادار اور مجبور خاندانوں کی مجبوریوں کو ویڈیوز یا تصاویر کی صورت میں سوشل میڈیا پر نشر کرتے ہیں اور پھر ایزی پیسہ یا دیگر ذرائع سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے۔ بظاہر یہ عمل ہمدردی کا مظہر ہے، لیکن درحقیقت یہ ان غریبوں کی عزت نفس کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے۔

    ‎سوشل میڈیا صارفین بھی بنا سوچے سمجھے، محض جذباتی ردعمل کے تحت ان ویڈیوز کو شیئر کرتے ہیں اور یوں چند گھنٹوں میں یہ ویڈیوز ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد تک پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن ان ویڈیوز میں صرف غربت نہیں دکھائی جا رہی ہوتی، بلکہ ایک پورا خاندان برہنہ عزت کے ساتھ پورے معاشرے کے سامنے پیش کیا جا رہا ہوتا ہے۔

    ‎حیران کن طور پر ان ویڈیوز میں بچوں اور بچیوں کا استعمال زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے، کیونکہ بچے معصوم ہوتے ہیں اور ان کو یہ شعور نہیں ہوتا کہ کیمرے کے سامنے ان کی روتی شکل، گِڑگڑاتی آواز، اور معصومانہ فریاد آنے والے کل میں ان کے لیے کتنے طعنوں، زخموں اور احساسِ کمتری کا سامان پیدا کرے گی۔

    ‎ادھر "امداد” دینے والے مالدار افراد اور خودساختہ فلاحی شخصیات ان مواقع کو کیش کروانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف امداد دیتے ہوئے ویڈیوز بناتے ہیں بلکہ اس پورے عمل کو اپنی PR مشینری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور جس ایکٹیوسٹ نے سب سے پہلے اس “کیس” کو دریافت کیا ہوتا ہے، وہ بھی اپنے "حق” کا دعویٰ پیش کرتا ہے۔

    ‎سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی غریبوں کی مدد کر رہے ہیں یا محض اپنی تشہیر اور فالوورز کے چکر میں ان کی مجبوریوں کو بیچ رہے ہیں؟ ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ یہ ویڈیوز امداد کی راہ ہموار کرتی ہیں، مگر کیا کوئی بھی مدد، جو عزت نفس کو روند کر دی جائے، واقعی "مدد” کہلانے کے قابل ہے؟

    ‎پشتو کی ایک کہاوت ہے: "شکونڑ حلال دَے، خو شکل ئے مردار دَے” — مطلب کہ کام اگرچہ درست ہو، لیکن طریقہ کار اتنا بدنما ہو کہ وہی کام اپنی افادیت کھو دے۔

    ‎اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پھر ہر غریب سوشل میڈیا پر اپنے دکھ کی کہانی سنا کر چند ہزار یا لاکھ روپے حاصل کرنے کو کامیابی سمجھے گا۔ سفید پوش افراد بھی لاچاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر "آن کیمرہ” آنسو بہانے پر مجبور ہوں گے، اور یوں پیشہ ور بھکاری بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگیں گے۔ اس وقت ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم حقیقی مستحقین کی مدد کر رہے ہیں یا ایک نیا “ڈیجیٹل بھکاری کلچر” تخلیق کر رہے ہیں۔

    ‎ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا عزت نفس کی قربانی دے کر امداد حاصل کرنا واقعی مدد کہلانے کے قابل ہے؟ کیا ہم ایک غریب کے دکھ کو کیمرے کے فریم میں قید کر کے اس کی روحانی تذلیل نہیں کر رہے؟

    ‎اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مخیر حضرات اور سوشل ایکٹیوسٹس اپنے طریقہ کار پر نظرثانی کریں۔ غربت کا مذاق بنائے بغیر، بغیر کیمرے کے، عزت نفس مجروح کیے بغیر بھی کسی کی مدد کی جا سکتی ہے۔ بس نیت خالص ہو، اور مقصد فالوورز نہیں بلکہ خالق کی رضا ہو۔

    اہلِ قلم بھائیوں سے شکوہ:
    ‎خدارا! وہ موضوعات بھی قلم بند کریں جو معاشرتی بگاڑ کو جنم دے رہے ہیں۔ اگر قلم کا مقصد صرف اختیارات کے ایوانوں میں رسائی بن جائے تو تاریخ ایسے قلم کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ آج صحافی، دانشور اور ادیب کو چاہیے کہ وہ معاشرے کی آنکھ اور کان بنے، اور خاص طور پر نوجوان نسل میں شعور بیدار کرے۔

    ‎سچ تو یہ ہے کہ اگر ہم نے اس “ڈیجیٹل بھیک” کے بڑھتے ہوئے کینسر پر بروقت قابو نہ پایا تو وہ دن دور نہیں جب عزت نفس، غربت، فلاح اور مدد — سب الفاظ اپنا مطلب کھو بیٹھیں گے، اور ہمارے معاشرے کی اخلاقی قبر پر صرف سوشل میڈیا لائیکس کا کتبہ باقی رہ جائے گا۔
ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں