عثمان خان

پاکستان آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں ریاست کی کمزوری، عدلیہ کی نااہلی، سیاست کی تباہی اور عوامی اعتماد کا ٹوٹنا مل کر معاشرتی بحران پیدا کر رہے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی ہر دن مشکلات اور خوف سے بھر گئی ہے، اور سوال یہ ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔

عدلیہ اور انصاف کا بحران پاکستان میں عدلیہ وہ ستون ہے جس پر عوام کا اعتماد ٹکا ہوتا ہے، مگر آج بہت سے فیصلے سیاست یا طاقت کے دباؤ میں آجاتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے نہ ماننا، یا ان پرعملدرآمد نہ ہونا، عام شہری کے لیے مایوسی اور خوف کی فضا پیدا کرتا ہے۔ لوگ اب قانونی چارہ جوئی سے گھبراتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ انصاف صرف طاقتور کے لیے ہے، غریب کے لیے نہیں۔

ایک قوم یا طبقے کو ٹارگٹ کرناجب ریاست ایک قوم یا مخصوص طبقے کو نشانہ بنا کر ذلیل کرتی ہے، نفرت پھیلتی ہے اور معاشرہ تقسیم ہوتا ہے۔ کوئی بھی ملک لمبے عرصے تک ایسے ماحول میں قائم نہیں رہ سکتا۔ تاریخی مثالیں واضح ہیں معاشرے تب تک مضبوط نہیں رہتے جب تک سب شہری برابر کے درجہ میں ہوں۔ سیاست عوام کی خدمت کے بجائے طاقت، انتقام اور ذاتی مفاد کی جنگ بن گئی ہے۔ نظریہ، اصول اور عوامی بھلائی پیچھے رہ گئی ہے۔ جب سیاست بیمار ہو، تو پالیسیز بھی بیمار ہو جاتی ہیں، اور براہِ راست نقصان عام عوام کو پہنچتا ہے۔

خواتین کی عزت اور ان کی چادر چار دیواری کی حفاظت کسی بھی معاشرے کی سچائی کو ظاہر کرتی ہے۔ بدقسمتی سے آج ہمیں ایسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں جہاں خواتین کی عزت پامال ہوتی ہے، انہیں محفوظ ماحول نہیں ملتا اور متاثرہ خواتین ہی سوالوں کے کٹہرے میں کھڑی کی جاتی ہیں۔ یہ صرف قانون کی ناکامی نہیں، بلکہ معاشرتی اخلاقیات کی بھی زوال کی علامت ہے۔

روزگار اور نوجوانوں کی ہجرت پاکستان کا سب سے بڑا سرمایہ اس کے نوجوان ہیں، مگر آج نوجوان تعلیم حاصل کر کے ملازمت نہ ملنے یا کم تر معیار کی ملازمتوں کی وجہ سے مایوس ہیں۔ ڈاکٹر، انجینئر، سرکاری ملازم اور تعلیم یافتہ لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ محض بہتر تنخواہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ مستقبل کی ضمانت اور تحفظ کا فقدان ہے۔

جب قابل لوگ ملک چھوڑ جائیں تو ریاست اندر سے کمزور ہو جاتی ہے۔ مہنگائی اور عوام کی زندگی مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی مشکل کر دی ہے۔ خوراک، بجلی، گیس، تعلیم اور صحت کی سہولتیں عوام کے بس سے باہر ہو چکی ہیں۔ روزمرہ زندگی میں بوج بڑھتا جا رہا ہے، مگر عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ غلط فیصلوں کا حساب کون دے گا۔

خوف اور عدم تحفظ آج عوام کھل کر اپنی رائے نہیں دے سکتے۔ اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھا جاتا ہے، سوال کرنے والے مشکوک ٹھہرتے ہیں اور عوام میں خوف کی فضا ہے۔ یہ خوف معاشرے کے لیے زہر ہے، کیونکہ خاموش قومیں ترقی نہیں کرتیں۔سرکاری ادارے اور رشوت جب سرکاری دفاتر میں رشوت عام ہو، فائلیں بغیر سفارش نہ چلیں، اور عوام اپنے حقوق کے لیےمسلسل جدوجہد کریں، تو عوام اور ریاست کے درمیان دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ رشوت صرف پیسے کا لین دین نہیں، یہ نظام پر عوام کا عدم اعتماد ہے۔

حل کی طرف ایک نظرپاکستان کو آج صرف نعروں یا جذباتی تقریروں کی نہیں، بلکہ انصاف، شفافیت، جواب دہی اور شہری عزت کی ضرورت ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ عدلیہ کے فیصلے بروقت اور شفاف عمل کے ساتھ نافذ ہوں۔سیاستدان عوام کی خدمت کو اپنی ترجیح بنائیں طاقت یا انتقام کو نہیں معاشرتی اخلاقیات، خواتین کی عزت اور عوام کی حفاظت کو اولین ترجیح دی جائے۔

نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ تعلیم یافتہ لوگ ملک میں رہیں۔پاکستان کا مسئلہ کسی ایک ادارے یا فرد کا نہیں، بلکہ نظامی کمزوریوں کا ہے۔ عوام کی آواز چھوٹی لگ سکتی ہے، مگر جب یہ آواز مسلسل اور مضبوط ہو جائے، تویہ تبدیلی کی بنیاد بنتی ہے۔ پاکستان کی مضبوطی یا کمزوری کا فیصلہ ہر شہری کے اقدامات، سوالات اور سچائی کے لیے اٹھنے والی آواز پر منحصر ہے۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں