دبلا پتلا 65 سالہ الحاج بخت بیدارایک ایسے کام کے بارے میں تفصیلات بیان کررہے جس کے آغاز سے پہلے پرلوگ انکو پاگل کہتے تھے لیکن جب کام کا باقاعدہ آغازہوا توپھرآہستہ آہستہ علاقے کے لوگ ان کے ساتھ شامل ہونا شروع ہوگئے اورچند مہینوں کے انتھک محنت اورہمت سے اس بڑے منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچایا۔

بخت بیدار کا تعلق ضلع باجوڑ کے پسماندہ تحصیل سلارزئی کے علاقے ماندل سے ہے جو ضلعی ہیڈ کوارٹرسول کالونی خارسےبمشکل 4 کلومیٹرکے فاصلے پرواقع ہے. لیکن یہ علاقہ صحت، تعلیم، اوردیگربنیادی سہولیات سے محروم تو ہے ہی لیکن یہاں پرآمد ورفت کے لئے سڑکوں کےمخدوش حالت کے ساتھ ساتھ ماندل خوڑ پر پل کی نہ ہونے کے وجہ سے علاقے کے مکین عرصہ دراز سے مشکلات سےدوچارتھے۔

علاقے کے لوگوں کے بقول منتخب نمائندوں اوردیگراعلی سرکاری حکام نے ان کے ساتھ پل کے تعمیرکے بارباروعدے کئے لیکن اس کو پورےنہیں کئے۔

بخت بیدارنے بتایا کہ اس نے ایک دن علاقے کے لوگوں کوکہا کہ اب وقت ہے کہ ہم ہمت کریں اورپل کی تعمیرخود شروع کریں۔ جب یہ بات میں نے اپنے علاقے کے لوگوں سے کی تو جواب میں انہوں نے کہا کہ تم پاگل ہوئے ہوں کیونکہ پل بنانا حکومتوں کا کام ہوتا ہے ہم یہ نہیں کرسکتے اس پر بہت بڑا لاگت آتی ہےجو ہمارے بس کی بات نہیں۔لیکن میں نہ ارادہ کیا تھا کہ لوگوں کو اس بات پر قائل کرونگا کہ اگرہم ہمت کریں تو کوئی کام مشکل نہیں ہے۔

لوگوں کے ساتھ بارباربات کرنے کے بعد آخرکارمیں اس میں کامیاب ہوا کہ لوگوں نے کام شروع کرنے کے لئے ابتدائی چندہ کرنے کے لئے علاقہ ماندل کے ہرشادی شدہ جوڑے کے حساب سے 200 سو روپے چندہ دینے کا آغاز کیا۔ اورپل کی تعمیر کے انتظامات کے لئے ایک پل تعمیر کمیٹی کے نام سے میرے سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اسی طرح پل کی تعمیر پرکام شروع ہوا۔ پل کے تعمیر میں علاقے کے لوگوں نے رضاکارانہ طور پر بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔

بخت بیدار کے مطابق علاقہ ماندل کی آبادی تقربا 30ہزارنفوس پرمشتمل ہیں۔ یہ راستہ نذدیک ہونے کے وجہ سے ہمسایہ ضلع مہمند کے تحصیل آمبار کے لوگ بھی آمد ورفت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح اس راستے پرآمد ورفت کرنے والے علاقے کے لوگوں کی آبادی 50 ہزار افراد تک پہنچ جاتی ہے۔ پہلی فرصت میں ہم نے 2 لاکھ روپے چندہ اکھٹا کیا تھا۔ اس کے بعد پھر پل تعمیر کمیٹی نے مختلف بازاروں میں چندہ کرنے کے علاوہ مخیر حضرات سے چندے کے لئے ملاقاتیں کیں اور چندہ جمع کرنا شروع کیا جس میں دن بدن اضافہ ہوا۔

تاجمیرخان کیمل خیل قوم ماندل کی طرف سے خزانچی مقرر ہوا تھا جو قوم کے طرف سے چندہ جمع کرتا تھا اوراس کے پائی پائی کا حساب رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس 10 دس لاکھ  تیس ہزار روپے جمع ہوئے جس کا انہوں نے پورا ریکارڈ محفوظ کیا ہے اوراس کو پل تعمیر کمیٹی کے حوالے کیا ہے۔ اگرچہ اس پر کئی الزامات بھی مختلف لوگوں کے طرف سے لگے لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اوراپنا کام جاری رکھا کیونکہ اسی طرح کے فلاحی کاموں میں اس طرح کے الزامات لگنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

تاجمیرنے مزید بتایا کی اس پرقوم نے جواعتماد کیا اس پرپورا اترنے کی بھر پورکوشش کی اوریہی وجہ ہے کی پوری کیمل خیل قوم اس سے مطمئین ہے۔ میں نے ہرفرد کی طرف سے دئیے گئے چندے کا پورا ریکارڈ رکھا ہے اوراگرکوئی یہ معلومات چیک کرنا چاہتا ہے تو وہ کسی بھی وقت چیک کرسکتا ہے۔ میں انشاء اللہ ہروقت احتساب کے لئے تیارہوں ۔

اس پل کے نہ ہونے کے وجہ سے کئی لوگ سیلابی پانی کے نذر ہوئے اور اپنے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے اورکچھ لوگ سیلابی پانی کے تیزموجوں کے شکارتوہوئے لیکن اللہ تعالی نے ان کوموت سے بچایا۔

35 سالہ نورحمید گل ایک ڈرائیورہے اورپچھلے پندرہ سالوں سے ماندل کے روٹ / سڑک پر ٹیکسی چلا رہا ہے۔ انہوں نے ایک دل خراش واقع کے بارے میں بتایا کہ ایک دن وہ ماندل خوڑ کے سیلابی پانی میں اپنی موٹر کار جس میں اس کے ساتھ سواریاں بھی تھیں پھنس گیا تھا اوران کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ زندہ نہیں بچ سکتا کیونکہ پانی کا بہاؤ اتنا تیزتھا کہ ان کی گاڑی کو ساتھ لے گیا تھا ۔ لیکن پھر گاڑی ایک بڑی چٹان کے ساتھ اٹک گئی اور ریسکیو 1122 نے علاقے کے لوگوں کے تعاون سے ہمیں بچایا۔ یہ واقع پل نہ ہونے کی وجہ سے پیش آیا تھا اگر یہاں پر پل ہوتا تو ہم اس حادثہ کا شکار نہ ہوتے۔ اسی طرح کئی اورلوگ بھی پل کے نہ ہونے کے وجہ سے مختلف حادثات کا شکار ہوئے تھے۔

پل کے نہ ہونے سے زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔ ان میں ایک22 سالہ طالبعلم ہارون الرشید بھی ہے۔ جس سے پل نہ ہونے کی وجہ سے ڈی آئی ٹی کے امتحان کا ایک پرچہ مس(ضائع) ہوئی تھی اوراس کا ایک قیمتی سال ضائع ہوچکا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ گھر سے جب پرچے کے لئے روانہ ہوا اور اس خوڑکوپہنچا تویہاں پرسیلاب آیا ہوا تھا اس کے ساتھ دوسرے طالبعلم بھی تھے ۔ ہم سب اس پار رہ گئے کیونکہ ہمارے پاس خوڑ کو سیلاب میں پار کرنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔

ہارون الرشید نے مزید بتایا کہ اس طرح کے واقعات طالبعلموں کے ساتھ ہرسال امتحانوں کے دوران پیش آتے تھے۔ اس لئے صاحب استطاعت طالبعلم ہاسٹلوں میں رہائش پذیر ہوتے تھے اورغریب طلباء اس طرح کے مشکلات کا شکار ہوتے تھے۔

ماندل خوڑ کا منبع نواگی ڈوڈا خوڑ(دریا) اوروادی چارمنگ کے خوڑ ہیں ۔ یہ دونوں دریا اب وہاں پر خشک ہیں لیکن جب وہاں پر بارش ہوتی ہے تو سارا پانی ماندل خوڑ میں اکٹھا ہوتا ہے اور اس کا بہاؤ یہاں پر بہت تیز ہو جاتا ہے جو زراعت کے تباہی کے ساتھ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔

68 سالہ حاجی محمد جمیل کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی میں کئی افراد اپنے اۤنکھوں کے سامنے دیکھے ہیں جو ماندل خوڑ میں سیلابی پانی کے نذر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن میٹرک کا ایک  طلبعلم سکول جارہا تھا جب اس نے اس خوڑ کو پار کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کے سیلابی پانی کے تیز موجوں کے نذر ہو گیا۔ اسی طرح ایک دن ایک چھوٹے بچے کے حلق میں جوار کا دانہ پھنس گیا تھا  اس کے والد اس کو ہسپتال لے جا رہا تھا لیکن جب اس خوڑ کو پہنچا تو سیلاب کے وجہ سے وہ خوڑ کو پار نہ کر سکیں اور وہ بچہ اس دانے کی وجہ سے جابحق ہوا۔ اب ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم اس قابل ہوگئے کہ ہم نے اپنی مدد آپ کی تحت اس پل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

ہمارے معاشرے میں اپنی مدد اۤپ کے تحت کام کرنے کا رواج بہت کم ہے ۔ ہرکوئی چاہتا ہے کہ اس کا کام حکومت یا کوئی دوسرا امداد ادارہ کریں اگرچہ ان کا خود اس کام کرنے کی استطاعت ہوں ۔ لیکن باجوڑ میں ماندل قوم نے یہ حوصلہ افزا ء اقدام اٹھاکر دوسرے لوگوں کے لئے مثال قائم کردی۔

سابق ہیڈماسترالحاج نوبت خان نے پل کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ماندل اتمانخیل قوم میں بڑا بھائی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ماندل کا علاقہ ابھی تک بنیادی سہولیات سے محروم ہے جس کی طرف کسی منتخب نمائندے نے توجہ نہیں دی ۔ لیکن اب ماندل قوم نے ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس سے پورے قوم کا سر فخر سے بلند ہوا ہے ۔ اب ان کو امید پیدا ہوئی ہے کہ اب انشاء اللہ ماندل ترقی کی راہ پر گامزان ہوگی اوراس سے نہ صرف باجوڑ کے بلکہ دوسرے علاقوں کے لوگوں میں جذبہ پیدا ہوگی اور وہ اپنی علاقے کے ترقی کے لئے اپنی مدد اپ کی تحت اپنے مشکلات کی حل کے لئے اقدامات اٹھائینگے۔

بخت بیدارنے کہا کہ پل کے تعمیر سے پہلے باقاعدہ طور پر انجینئرز کے خدمات حاصل کئے گئے تھے اوراس کے ہدایات کے مطابق پل کی تعمیر مکمل کی کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ پل پائیدار بھی ہواوردورجدید کے تقاضوں کے عین مطابق بھی ہوں۔ ماندل پل پراب تک 29 لاکھ 30 ہزار روپے لاگت آئی ہے جس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے چندہ دیا تاہم اس میں قوم ماندل کے سعودی عرب میں محنت مزدوری کرنے والے مسافر بھائیوں کا اہم کردارہے۔

انہوں نے بتایا کہ پل کو باقاعدہ آمد ورفت کے لئے کھول دیا ہے جبکہ اس کے دونوں اطراف سڑک کو پختہ کرنے پر کام جاری ہے جو چند ہفتوں میں مکمل ہو گی۔ اس کے بعد ہم ان تمام لوگوں کے نام کا ایک اغزازی بورڈ اس پل کے ساتھ لگائینگے جنہوں نے اس پل کی تعمیرمیں چندہ دیا ہو خواہ وہ سو روپے کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ ہم چاہتے ہیں کے چندے کے استعمال کے بارے میں کسی کو کوئی ابہام نہ ہوں اور سب کچھ لوگوں کے سامنے اۤجائے۔

پل کے افتتاح کے دن کسی سرکاری افسران یا سیاسی لوگوں کو مدعو نہیں کیا تھا کیونکہ علاقہ ماندل کے لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ان سے مایوس ہو چکے ہیں ۔ اس لئے اس پل کا افتتاح علاقے کے عمائدین کے موجودگی میں مولانا خالد اور دیگرعلماء نے کیا جبکہ اس موقع پر کمیٹی کے ممبران کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے تھے۔

ماندل پل کے افتتاح کے دوران ممتازعالم دین مولانا خالد نےپل تعمیر کمیٹی کےکوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ اس سے علاقے میں ترقی اورخوشحالی اۤئیگی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اۤپ انفاق کیا کریں۔ نبی کریم ص کا بھی ارشاد ہے” کہ اۤپ صدقے دیاکریں کیونکہ صدقہ ایک ایسا عمل ہے جو مرنے کے بعد بھی انسان کو اس کا اۤجر پہنچتا ہے”۔ تو اس طرح کے رفاہ عامہ کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ صدقے کرنے کی ضرورت ہے۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں