
چالیس سالہ سعید اللہ وزیر خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع لوئر وزیر ستان کے علاقے انگور اڈہ کے رہائشی ہے۔اُنہوں نے سرحد پار افغانستان میں بڑے بھائی کے جنازے میں تو شرکت نہیں کی البتہ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ اُنہوں نے سرحد پر آخری دیدار کی۔ اُنہوں نے کہاکہ یہ پورا عمل انتہائی تکلیف دہ تھا کہ بھائی موت کے اس بڑے سانحے پر خاندان سے دور ہوں۔ یہاں پر سیکورٹی حکام کے جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور ویزے کے شرط لازمی قرار دیئے جانے سے نہ صرف جنوبی وزیر ستان کے احمد زئی وزیر جوکہ ایک بڑا قبیلہ ہے کو دو حصو ں میں تقسیم کردیا ہے بلکہ مقامی افراد کے یہی شرط مانے سے انکار پر پچھلے بائیس مہینوں سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت بھی بند کردیا گیا ہے۔
انگوار اڈہ جنوبی وزیر ستان کے مرکزی شہر وانا سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کے جانب افغان سرحد پر واقع ہے۔جنوبی وزیرستان کے چمبر آف کامرس اینڈ انٹرسٹری کے جانب سے سرحدی گزرگاہ انگورآڈہ کو تجارتی سرگرمیوں کے لئے کھولنے کے لئے حکومت کو تیس جون کی مہلت دیاگیا تھا کہ اگر مقرر مدت تک راستہ نہیں کھلا گیا تو وزیر ستان سمیت دیگر اضلاع میں شٹرڈوان ہڑتال شروع کردیا جائیگا۔ ہڑتال کی کال کی حمایت مقامی سیاسی جماعتوں اور عمائدین نے بھی کردی ہیں تاہم محرم الحرم کے احترام میں ہڑتال کی کال دس جون تک ملتوی کردی گئی ہے۔
جنوبی وزیرستان کے چیمبر آف کامرس اینڈ انٹرسٹری کے صدر سیف الرحمان کاکہنا ہے کہ انگوار اڈہ پر آنے اور جانے کے لئے پاسپورٹ اورویزے کے شر ط کے خلاف مقامی آبادی نے احتجاج شروع کردیا تھا جس کے وجہ سے احتجاجا سرحدی گزرگاہ بند کردیا گیا تاہم بعد میں مشاورت کے ساتھ حکام کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ انگور اڈہ کو تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھول دیا جائے گا جبکہ مقامی قبائل کے آمد ورفت کے لئے وہی پالیسی نافذکیاجو طورخم، خرلاچی، علام خان اور چمن کے لئے ہے۔اُن کے بقول رواں سال جنوری کے مہینے میں حکام نے انگور اڈہ کھولنے کا وعدہ کیا تھا تاہم پانچ مہینو ں سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی تاحال اس میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوسکا۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رابطہ سیکرٹری اشفاق خان کاکہنا ہے کہ میں علاقے کے تمام سیاسی جماعتوں ، تاجر برادری اور انگواراڈہ کے مقامی آبادی کے موقف کے تائید کرتاہے۔اُنہوں نے الزام لگایاکہ ریاستی مشنری جان بوجھ کر لوگوں کے ذریعہ معاش چھین رہاہے جوکہ ایک غیر قانون وغیر آئینی اقدام ہے۔ اُن کے بقول انگواراڈہ کھولنے کے حوالے سے حکومت کبھی ایک تو کبھی دوسرا موقف پیش کرتاہے جن پرعمل کے لئے نمائندہ جرگہ کے یقین دہانی کے باوجود سرحدی گزرگاہ نہیں کھول رہا۔
جنوبی وزیرستان کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے اعداد شمار کے مطابق پچھلے بائیس مہینوں میں انگور اڈے کے بند ش کے وجہ سے مقامی تجارت کو ستر ارب جبکہ قومی خزانے کو اس سے کئی گنا زیادہ نقصان پہنچ چکا ہے۔چیمبر کے مطابق بیس ہزار کے قریب لوگوں کو سرحد پر تجارتی سرگرمیوں کی وجہ سے روزگار کے مواقعیں میسر تھے لیکن موجودہ وقت میں مقامی آبادی شدید معاشی بحران کا شکارہے۔
سیف الرحما ن کے مطابق پاک افغان تجارت کے لئے دیگر سرحدی گزرگاہوں کے نسبت انگوراڈہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان بلکہ وسطی ایشائی ریاستوں کے ساتھ تجارت کے لئے تین سو کلومیٹر مختصر اور آسان راستہ ہے۔اُنہوں نے کہاکہ پاکستان کے اہم تجارتی شہروں جن میں ڈیر ہ اسماعیل خان، لاہور، فیصل آباد، بھکر اور کراچی کے لئے قریب ترین مقام ہے جبکہ سرحد پار افغانستان کے صوبے پکتیا او ر غزنی واقع ہے۔اُنہوں نے کہاکہ سرحدی گزرگاہ کے بندش سے پہلے گرمی میں تازہ سبزی اور میوے کا سیزن ہوتاہے جس کے بدولت ساڑھے تین مال برادری گاڑیوں کے آمد ورفت ہوتاہے جبکہ کسٹم ڈیوٹی کے مد میں یومیہ بارہ کروڑ ْقومی خزانے میں جمع ہوتاتھا جبکہ موجودہ ڈیوٹی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ اُن کے بقول مقامی تجارت کے مد میں چار سے چھ کروڑ روپے کا کاروبار ہوتاتھا۔
جنوبی وزیرستان لوئر کے ضلعی اور سیکورٹی حکام کے ساتھ انگور اڈہ کے کھولنے اور اس میں تاخیر کے حوالے سے موقف جانے کی کوشش کی۔ حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کے شرط پر بتایا کہ نیشنل ایکشن پلان اور نگران حکومت میں افغانستان کے ساتھ بعض اقدامات کے وجہ سے دیگر سرحدی گذرگاہوں کے ساتھ انگور اڈہ پر بھی آمد و رفت کے لئے پاسپورٹ اور ویزے کے شرط لازمی قرار دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی سطح پر ویزے کے شرط پر عمل درآمد کے حوالےسے سخت ردعمل سامنے آنے کی وجہ مجبوراً سرحدی گاہ کو بند کرنا پڑا۔ حکام نے موقف اپنایا کہ موجودہ وقت میں پاکستان کے جانب سے تجارت اور لوگوں کے آمد و رفت میں کوئی روکاٹ نہیں البتہ افغان طالبان کے جانب سے مسائل درپیش ہیں۔
علاقے کے سیاسی رہنما ء تاج وزیر نے بھی اس بات کی تائید کی کہ سرحد کھولنے کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ اور سیکورٹی حکام غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کررہاہے۔ اُنہوں نے کہاکہ حکومت کے جانب سے جتنے بھی قانونی شرائط رکھیں گئے تو اُن پر عمل درآمد کے یقینی دہانی کے باوجودبھی نئے نئے شرائط سامنے لائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی آبادی شدید مایوسی کے شکار ہوچکے ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ تاجر برادری اور مقامی عمائدین کے وفد نے افغانستان جاکر وہاں پر افغان طالبان کے ساتھ انگور آڈہ کے حوالے پاکستانی حکومت کا موقف سامنے رکھا گیا ہے۔
اُن کے بقول افغان طالبان نے کہاکہ افغانستان کے جانب سے سرحد پر کسٹم اوردیگر ضروریات کے لئے تمام تر انتظامات کرلی ہیں اور اُن کے جانب سے کوئی روکاٹ نہیں البتہ سرحد پا ر حکام نے بھی پاکستان کے جانب سے ا نگوراڈہ کے کھولنے میں عدم تعاون کی شکایت کی گئی۔
حکام کے جانب سے انگور اڈہ سرحدی گذرگاہوں پر سمگلنگ کے الزام کے حوالے سے سیف الرحمان نےکہاکہ یہ انتہائی بے بنیاد الزام ہے کیونکہ پچھلے بائیس مہینوں کے احتجاج اور مذکرات میں کہی پر اس بات کا ذکر نہیں کیاگیا کہ مقامی آبادی کو سمگلنگ یا غیر قانونی طریقے سے تجارت کی اجازت ہوناچاہیے۔ اُنہوں نے کہاکہ غیر قانونی تجارت کے روک تھام کے لئے ماضی کی طرح مستقبل میں حکام کے ساتھ ہرممکن تعاون کے لئے تیارہے۔
سرحد نے کیسے مقامی آبادی کو تقسیم کردیا ہے
مولانا تسبح اللہ انگور اڈہ کھولنے کے لئے جاری احتجاجی دھرنے کا نہ صرف منتظمین میں سے ہیں بلکہ اُن کا آدھا خاندان سرحد پار افغانستان میں ہیں۔ اُنہوں نے کہاکہ پاک افغان سرحد پر وزیر قبیلے کا بڑا ذیلی شاخ احمد زئی وزیر رہائش پذیر ہے تاہم سرحد پر باڑ لگانے اور سابق نگران حکومت بعض پاک افغان پالیسوں کے بدولت مقامی لوگوں کے آمد ورفت اور تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سرحد ایک کے طرف ایک بھائی جبکہ دوسرے جانب دوسرا بھائی رہتاہے۔
اُن کے بقول یہاں کے مقامی لوگوں کے سرحد پر مساجد، مہمان خانے، جنگلات، زرعی زمیین اور تجارت مشترک ہے۔اُن کا مزید کہنا تھا کہ سرحدکے دونوں جانب پانچ پانچ کلومیٹر تک ایک ہی لوگ آباد ہے جن کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ ہے اور ان کے آبادی پچیس سے تیس ہزار ہیں۔ تمام دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہاکہ دنیا کا کونسا سرحد ایسا ہے جہاں پر اتنے مشترکات موجود ہوں وہاں پر لوگوں کواپنے گھر جانے کے لئے ویزے یا پاسپورٹ کے شرط لازمی ہوں۔
مقامی لوگوں کے مطابق سال 2020تک سرحد پر مقامی آفراد کو بغیر شناختی کارڈ اور سفر ی دستاویز کے بغیر آنے جانے کی اجازت تھی تاہم سال 2021میں مقامی افراد کو سرحد پار آنے اور جانے کے لئے نظام متعارف کرایا گیا جس کے بدولت باسانی لوگ سفر کرسکتے تھے۔ یہی نظام ایک مہینے کے بعد بند کردیا گیا اور سال 2022میں بغیر سفری دستاویز کے سفر پر پابندی لگا دی گئی اور نگران حکومت اس فیصلے پر سو فیصد عمل درآمدیقینی بنانے کے لئے اقدامات شروع کردئیے۔
سعید اللہ وزیرنے بتایاکہ سرحد کے اُس پار وہ اپنے خاندان کے غم اور خوشی میں شرکت تو دور کی بات ہے مریض کو بھی آنے کی اجازت نہیں دیا جاتا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کے حدود میں مقامی آبادی کو صحت، تعلیم، روزگار، پینے صاف سمیت بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اُنہوں نے کہاکہ حکومت کے اس فیصلے سے مقامی لوگوں کو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
مولانا تسبح اللہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اُن کے زرعی زمین اور جنگلات سے چلغوزے کے قیمتی پیدوار کو پاکستان کوبغیر کسٹم ڈیوٹی لانے پر پابندی۔اُنہوں نے کہاکہ پاکستان میں اپنے زرعی پیدوار میں گندم اور مکئی آگرکوئی اپنے گھر کے ضروریات کے لئے افغانستان لے جاناچاہے تو ٹیکس کے ادائیگی کے بغیر اجازت ممکن نہیں۔اُن کے بقول مقامی آبادی کو سرحد پار آنے جانے میں افغان طالبان کے جانب س کوئی پابندی یا شکایت نہیں البتہ پاکستانی حکام مختلف مسائل کھڑے کرکے مقامی آبادی کے مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان میں افغان مال برادر گاڑیوں کے ڈائیوروں کو سو ڈالر پر ایک سال کے لئے آسان شرائط پر ملٹی پیل ویزہ جاری کرنے کا اعلان کردیا ہے۔افغان طالبان نے پاکستان کے اس اقدمات کا حیرمقدم کیا ہے اور موقف اپنا یا ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔
مالی سال 2024-25 (جولائی 2024 تا مارچ 2025) میں دوطرفہ تجارت 1.575 بلین ڈالر تک پہنچ گئی،جو کہ پچھلے سال اسی عرصے کےمقابلےمیں27فیصدزیادہ ہے۔ اس میں پاکستان کی افغانستان کو براہِ راست برآمدات 1.05 بلین ڈالر اور افغانستان سے پاکستان کی درآمدات 0.524 بلین ڈالر شامل ہیں۔
افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کے راستے شدید متاثر ہوئی ہے۔ نومبر 2023–نومبر 2024 کے دوران اس کا حجم تقریباً 1.2 بلین ڈالر رہا، جو پچھلے سال کے 7.48 بلین ڈالر سے 84٪ کم ہے۔ جولائی 2024 تا فروری 2025 میں ٹرانزٹ ٹریڈ کا حجم صرف 754 ملین ڈالر رہ گیاتھا جوکہ پچھلے سال کے 2.24 بلین ڈالر کی نسبت 66 فیصد گراوٹ آئی ہے۔