محمد یونس
پاکستان میں تیل اور معدنی وسائل کی خبریں ہمیشہ سے عوامی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ جولائی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ پاکستان کے پاس “بڑی تیل کی ذخائر” موجود ہیں، ایک نئے خواب کی مانند تھا۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو اپنی ضرورت کا 80 فیصد تیل باہر سے خریدتا ہے اور زرمبادلہ کے بحران سے دوچار ہے، یہ بیان ایک خوش کن خبر لگتا تھا۔
لیکن ماہرین نے اس بیان کو محتاط نظروں سے دیکھا۔ توانائی کے شعبے کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا:
"ایسا کوئی ذخیرہ دریافت نہیں ہوا جو ہمارے مسائل کو راتوں رات ختم کر دے۔”
یہ الفاظ عام لوگوں کے لیے شاید مایوس کن ہوں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ وسائل کی دریافت اور ان کے کمرشل استعمال میں وقت لگتا ہے۔
تجارت اور سفارت کاری کی نئی راہیں
یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان نئی تجارتی ڈیل طے پائی، جس میں توانائی اور معدنیات کے شعبے میں تعاون کو بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اسے ایک اہم کامیابی قرار دیا۔
اس کے فوراً بعد عملی اقدامات شروع ہوئے۔ پاکستان رواں سال امریکی خام تیل کی پہلی کھیپ وصول کرے گا۔ اسی دوران ایک امریکی کمپنی نے پاکستان میں تانبے اور سونے کی ریفائنری لگانے کے لیے معاہدہ کیا۔ ریکو ڈک منصوبے کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی خطیر سرمایہ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
یہ سب خبریں بظاہر امید دلاتی ہیں کہ پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور معیشت میں بہتری آئے گی۔ مگر ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ تیل اور گیس کے تخمینے کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کئی سال درکار ہیں۔
خیبر پختونخوا اور قبائلی خطے , خواب اور حقیقت
پاکستان کے وسائل کی اصل تلاش زیادہ تر خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں جاری ہے۔ وزیرستان میں حالیہ گیس فیلڈز روزانہ لاکھوں مکعب فٹ گیس پیدا کر رہی ہیں جو ملکی معیشت کو کچھ سہارا دے رہی ہیں۔
لیکن وہاں کے لوگ اب بھی سوال کرتے ہیں”کیا یہ وسائل ہمارے بچوں کی زندگی بدلیں گے؟ یا پھر یہ سب بڑے شہروں اور اشرافیہ تک ہی محدود رہیں گے؟”
یہ سوال اہم ہے کیونکہ ان علاقوں نے برسوں بدامنی، نقل مکانی اور محرومی برداشت کی ہے۔ اگر وسائل کے ثمرات وہاں کے اسکولوں، اسپتالوں اور روزگار تک نہ پہنچے تو اعتماد کا بحران مزید گہرا ہوگا۔
عالمی دلچسپی اور پاکستان کی آزمائش
پاکستان کے معدنی اور توانائی کے ذخائر اب عالمی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ چین، ترکی اور اب امریکہ — سب اپنے حصے کے لیے میدان میں ہیں۔ یہ عالمی دلچسپی پاکستان کے لیے ایک موقع بھی ہے اور آزمائش بھی۔
حقیقی امتحان یہ ہے کہ کیا پاکستان ایسی پالیسی بنا سکتا ہے جو سرمایہ کاری کو فروغ دے اور ساتھ ہی مقامی آبادی کو اس ترقی میں شریک رکھے؟
توانائی کا بحران اور آگے کا راستہ
پاکستان کی تیل کی پیداوار 20 برس کی کم ترین سطح پر آ چکی ہے۔ گیس کی پیداوار بھی گھٹ رہی ہے جبکہ گھروں اور صنعتوں کی طلب بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں درآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا”جب تک کوئی ذخیرہ دریافت نہ ہو، ہم اسے اپنا نہیں کہہ سکتے۔ امید رکھنا اچھی بات ہے، لیکن حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔”*
یہ سوال سب کے ذہنوں میں ہے کہ آیا یہ نئے معاہدے اور سرمایہ کاری واقعی عوام کی زندگی بدلیں گے؟ کیا ان کے نتیجے میں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر پسماندہ خطوں میں اسکول، سڑکیں اور صحت کے مراکز بنیں گے؟
اگر یہ خواب حقیقت کا روپ دھار گیا تو پاکستان کی تاریخ بدل سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ موقع بھی ضائع ہوا تو عوام میں مایوسی مزید گہری ہو گی۔
پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ زمین کے نیچے چھپی دولت ترقی کا راستہ بھی دکھا سکتی ہے اور نئے بحران بھی پیدا کر سکتی ہے۔ فیصلہ پالیسی سازوں اور عوام دونوں کے ہاتھ میں ہے کہ یہ دولت سب کی خوشحالی میں بدلے یا چند ہاتھوں تک محدود رہ جائے گی۔