
محمد یونس
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھنگ صدیوں سے اُگتی رہی ہے۔ یہ فصل کسانوں کے لیے محض آمدنی کا ذریعہ نہیں بلکہ زندگی کا سہارا رہی پے۔ انہی کھیتوں کی کمائی سے گھر کا چولہا جلتا اور بچے اسکولوں میں پڑھنے جاتے ہے۔ لیکن اس سب کے ساتھ ہمیشہ خوف بھی جڑا ہوا ہے کیونکہ اُن کے پیدوار سے حاصل ہونے والے چرس نشے کے طور پر استعمال ہوتاہے اور پاکستان کے قانون کےمطابق چرس غیرقانونی ہے۔
فروری 2024 میں یہ صورتحال بدل گئی۔ وفاقی حکومت نے ایک تاریخی آرڈیننس منظور کیا جس کے تحت کینابس(بھنگ) کنٹرول اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی (CCRA) قائم کی گئی۔ یہ ادارہ بھنگ کی کاشت، پروسیسنگ اور فروخت کو ریگولیٹ کرے گا، مگر صرف طبی، سائنسی اور صنعتی مقاصد کے لیے۔ یہ قدم اقوام متحدہ کے ان معاہدوں کے عین مطابق ہے جن میں ریاستی نگرانی لازمی قرار دی گئی ہے۔
اصل چیلنج اب یہ ہے کہ کیا پاکستان اس ممنوعہ تجارت کو ایک شفاف اور منظم صنعت میں بدل سکے گا، جو غریب کسانوں کو سہارا دے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرے اور ناجائز استعمال کو روکے یا بیوروکریسی کی رکاوٹیں اور عالمی منڈی میں گرتی قیمتیں اس خواب کو ادھورا چھوڑ دیں گی؟
کینابس کی ریگولیشن
پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کے چیئرمین اور CCRA بورڈ کے رکن ڈاکٹر سید حسین عابدی کا کہنا ہے کہ بھنگ کو منشیات کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے نہیں بلکہ ایک شفاف نظام بنانے کے لیے ہے جو کسانوں کو فائدہ دے، محفوظ مصنوعات فراہم کرے اور ملک کے لیے آمدنی پیدا کرے۔
نئی پالیسی کے مطابق کسان اب پانچ سال کے لیے لائسنس حاصل کر سکیں گے۔بھنگ میں نشہ پیدا کرنے والے جز THC کو عالمی معیار کے مطابق 0.3 فیصد تک محدود رکھا جائے گا۔ خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانے ہوں گے جن کی مالیت 1 کروڑ سے 20 کروڑ روپے تک ہو سکتی ہے۔
عالمی دوڑ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
یہ پالیسی ایسے وقت میں آئی ہے جب عالمی CBD (بھنگ کے پودے کا ایک قدرتی جزو ہے جو نشہ پیدا نہیں کرتا) مارکیٹ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ 2022 میں اس کی مالیت 7 ارب ڈالر تھی اور اندازہ ہے کہ 2027 تک یہ 30 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔مگر ناقدین کے مطابق پاکستان یہ قدم لینے میں تاخیر کر بیٹھا۔
سابق وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”ہمارے پاس سبقت تھی، لیکن ہم نے چار سال ضائع کر دیے۔ اب ہمیں ان ممالک سے مقابلہ کرنا ہوگا جو پہلے ہی تحقیق اور برآمدات میں ہم سے آگے ہیں۔” جرمنی، کینیڈا، تھائی لینڈ اور کولمبیا جیسے ممالک بھاری سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ جب تک پاکستان مکمل طور پر مارکیٹ میں داخل ہوگا، قیمتیں مزید گر چکی ہوں گی اور منافع کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
قبائلی پٹی کا نقشہ
یونیورسٹی آف پشاور کی شعبہ فارمیسی کے تحقیق کے مطابق پاکستان میں بھنگ کی سب سے زیادہ کاشت خیبر، اورکزئی اور کرم اضلاع میں ہوتی ہے، جو تقریباً 49 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔ ان علاقوں میں ہر سال تقریباً 50 لاکھ کلوگرام چرس پیدا ہوتی ہے۔تحقیق میں سفارش کی گئی تھی کہ ان اضلاع میں چھ CBD آئل ایکسٹریکشن پلانٹس قائم کیے جائیں جو چھ ہزار براہِ راست ملازمتیں فراہم کریں گے اور سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر تک کی برآمدی آمدنی دے سکتے ہیں۔
کسانوں کی اُمیدیں اور خدشات
پاکستان میں بھنگ کی قانونی حیثیت سے متعلق حالیہ اقدامات مقامی کسانوں کے لیے ایک نئے دور کی نوید ہیں۔ وادی تیراہ کے کسان نعیم خان اس فیصلے کو اُمید کی کرن قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ”یہ ہماری زندگی ہے۔ ہم نے ساری عمر خوف کے سائے میں کاشت کی۔ اگر یہ تبدیلی حقیقت بن گئی تو شاید ہمارے بچے اب مجرم نہیں بلکہ قانونی کسان کہلائیں گے۔”
اسی طرح تیرہ دارس جماعت کے ایک کسان نے کہاکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم کئی دہائیوں سے بھنگ کاشت کر رہے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ مذہبی اور اخلاقی طور پر یہ ہمارے لیے درست نہیں۔ ہماری آمدنی اور خوف دونوں برسوں سے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اگر حکومت اس کو صحیح معنوں میں ریگولرائز کر دے تو ہمیں زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سال میری بھنگ کی فصل بہت اچھی ہوئی ہے اور مجھے امید ہے کہ اس بار میں زیادہ آمدنی کما سکوں گا اور وہ بھی عزت کے ساتھ۔”
دیہی خواتین بھی اس موقع کو معاشی خودمختاری کے ایک نئے دروازے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ گل مینا، جو ایک مقامی کسان کی بیوی ہیں، پرامید لہجے میں کہتی ہیں: ”اگر یہ کاروبار قانونی ہو جائے تو ہم اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیج سکیں گے اور اپنے خاندان کو بہتر زندگی دے سکیں گے۔”
مذہب اور اخلاقیات عوامی اعتماد کی ضرورت
پاکستان میں مذہب عوامی زندگی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، اس لئے بھنگ کی قانونی حیثیت پر بحث کو بھی اخلاقی اور شرعی زاویے سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر مذہبی علما اور مفتیانِ کرام کی آراء بڑھتی جا رہی ہیں۔
اسلامی سوال و جواب کے معتبر ذرائع کے مطابق CBD آئل، جس میں THC کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہو، اگر ڈاکٹر کے مشورے سے اور علاج کی حقیقی ضرورت کے لیے استعمال کیا جائے تو اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ 2023 میں معروف عالمِ دین شیخ ارشد علی نے لکھا کہ نشہ آور اشیاء اسلام میں حرام ہیں، لیکن جب علاج کے لیے کوئی جائز متبادل موجود نہ ہو تو ان کا محدود اور طبی استعمال جائز ہو سکتا ہے۔
عوامی رائے بھی بتدریج بدل رہی ہے۔ 2024 میں علاقائی جامعات کے ایک سروے کے مطابق خیبر، اورکزئی اور کرم کے زیادہ تر رہائشی بھنگ کی قانونی کاشت کے حامی ہیں بشرطیکہ اس سے مقامی روزگار کے مواقع پیدا ہوں، بنیادی ڈھانچے میں بہتری آئے اور سرمایہ کاری کا فائدہ مقامی کمیونٹی کو ملے۔ عمائدین اور مذہبی رہنما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شفافیت اور مقامی شمولیت ہی عوامی اعتماد قائم کرنے کا واحد راستہ ہیں۔
بھنگ کے لئے بنیادی ڈانحانچہ
پالیسی کا اعلان ایک بڑی پیش رفت تھی، مگر زمینی حقیقت ابھی بھی سست روی کا شکار ہے۔ مقامی لوگ پُرامید ہیں لیکن غیر یقینی فضا نے اُنہیں تشویش میں ڈال رکھا ہے۔
وادی تیراہ کے ایک کسان نے بات کرتے ہوئے کہا:”ہم برسوں سے یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ ہماری فصل قانونی ہو جائے اور ہم کھلے عام اپنی محنت بیچ سکیں۔ پالیسی آ چکی ہے، لیکن جب تک حکومت اگلا قدم نہیں اٹھاتی، ہم اپنی زمین کی بہتر منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ یہ انتظار ہمیں تھکا رہا ہے، مگر ہم امید نہیں چھوڑیں گے۔”
یہ تاخیر صرف کسانوں کو نہیں بلکہ مقامی معیشت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک قواعد و ضوابط پر عمل درآمد شروع نہیں ہوتا، چھوٹے کسان سرمایہ کاری سے ہچکچاتے رہیں گے اور اس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع اور مقامی ترقی بھی مؤخر ہو جائے گی۔
بھنگ کا مستقبل
کینابس کی قانونی حیثیت پاکستان میں محض معاشی قدم نہیں بلکہ ایک سماجی تجربہ بھی ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو یہ ایک بڑی غیرقانونی معیشت کو ایک شفاف صنعت میں بدل سکتا ہے جو ٹیکس دے کر اسکول، اسپتال اور روزگار پیدا کرے گی۔لیکن وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ اگر پاکستان نے جلد فیصلہ نہ کیا تو عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنانا مشکل ہو جائے گا۔تیرہ وادی کے کاشتکاروں کو کہنا ہے کہ ”ہم نے پوری زندگی خطرے میں گزاری۔ اب ہم بس ایک منصفانہ موقع چاہتے ہیں کہ کھیتی کریں، بیچیں اور بغیر خوف کے جی سکیں۔”