ضلع باجوڑ کے تحصیل خار کے علاقہ گنگ کے پچپن سالہ شال پاچہ اپنے ڈیری فارم میں گائے کے دیکھ بھال میں مصروف ہے۔ وہ پچھلے بیس سالوں سے ڈیری  فارمنگ کے کاروبار سے وابستہ ہے  اور اس میں نہ صرف اپنے لئے حلال روزی کما رہا ہے بلکہ ان کے ساتھ پانچ لوگ اور بھی بر سر روزگار ہے۔  ان کے فارم میں موجودہ وقت میں  اٹھارہ  اعلی نسل کے گائے  ہیں جس سے روزانہ تین سو کلو دودھ کی پیداوار ہوتی ہے۔ شال پاچہ کوموسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کوئی آگاہی نہیں جس نے پوری جنوبی ایشیا سمیت پاکستان اور باجوڑ کو بہت متاثر کیا ہے لیکن  وہ کہتے ہیں کہ اس کی  گائے کے دودھ کی پیدوار میں کمی واقع ہوئی ہے ۔

شال پاچہ نے کہا کہ ہم پچھلے تیس سالوں سے دودھ فروشی کا کام کررہے ہیں اور بیس سالوں سے اپنا ڈیری فارم بنایا ہیں اس لئے ہمارا اس کام میں کافی تجربہ ہوا ہے۔ ہم اپنے گائے کا ہر طرح کا خیال رکھتے ہیں تاکہ اس کو کوئی بیماری نہ لگ جائے اور اس کی پیداوار متاثر نہ ہو۔ لیکن پچھلے تین چار سالوں سے پیداوار میں کمی آئی ہے کیونکہ گرمیوں کے موسم میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سرد ہوتی ہے جس کی وجہ سے گائے کو مناسب خوراک اور مناسب ماحول نہیں ملتا جو براہ راست دودھ کی پیداوار پر اثر کررہی ہے۔

شال پاچہ نے بتایا کہ اس ڈیری فارم پر ان کے اسی  لاکھ روپے  لاگت آئی  ہے تاہم حکومت کی طرف سے تین سال پہلے صرف پانچ گائے دئیے تھے جس وقت حکومت علاقے کے لوگوں کو ڈیری ڈیویلپمینٹ کے  مد میں گائے فراہم کر رہے تھے۔ حکومت نے اس مد میں باجوڑ میں بیس ڈیری فارم بنائے تھے اور ہر فارم مالک کو پانچ  پانچ گائے دئیے تھے لیکن اب اس میں صرف چار یا پانچ ڈیری فارم موجود ہے باقی ختم ہو چکے ہیں کیونکہ جن لوگوں کو فارم کے مد میں گائے دئیے گئے تھے ان کو اس کام میں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ موسم کے  منفی اثرات سے گائے کو بچانا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے ۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنے ڈیری فارم ختم کرکے گائے بیچ دئیے ہیں۔

ضلع باجوڑکےآبادی 2023 مردم شماری کےمطابق 12لاکھ87ہزار960ہےاورزیادہ ترلوگوں کی زراعت کےبعددوسراکمانےکاذریعہ لائیوسٹاک یعنی مویشی پالنےپرہے۔

محکمہ لائیوسٹاک باجوڑکےفراہم کردہ اعدادوشمار(بیس لائن سروے ) کےمطابق باجوڑمیں 2021 میں کی گئی مویشی سروےکےتحت باجوڑمیں تین لاکھ سے زائد گائےاوربیل،10ہزارسے زائد بھینس،74ہزارسےزائددنبےاورایک لاکھ58 ہزار سے زائد بکریاں تھے۔محکمہ لائیوسٹاک  باجوڑکےاعدادوشمارکےمطابق باجوڑمیں دودھ کی سالانہ پیداوارتین کروڑپچاس لاکھ لیٹرہیں جبکہ طلب13کروڑہیں۔

فواد خان گھر میں کراس نسل کے  ایک   گائے پالتی ہے  جو روزانہ چار کلو دودھ دیتی تھی۔ وہ ان میں ایک کلو فروخت کرتا تھا  اور باقی گھر میں خود استعمال میں لاتا تھا ۔ ان کے بقول   ایک کلو دودھ کے فروخت  کرنے سے وہ گائے کے ونڈا کا خرچہ پوراکرتا تھا ۔ لیکن  چار مہینے کے بعد اب  دودھ کی پیداوار بلکل ادھی ہوچکی ہے جس کی وجہ سے اب فروخت بند کی ہے اور صرف گھر  کے لئے دودھ بمشکل مل رہا ہے۔

فواد نے بتایا کہ ان کو کچھ پتہ نہیں کہ  ہمارے گائے  نےکیوں  دودھ کی پیداوار کم کی ہے اگرچہ ان کو وہ خوراک بھی  پورا دیتی ہے ۔ انہوں نے یہ گائے بڑی  پیار سے خریدی تھی لیکن اب اچانک دودھ کی کمی نے ان کو پریشان کیا ہے۔ اب وہ دوسری گائے کے  خریدنے  کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ شاید موجودہ  گائے کا یہ نسل اس علاقے کے لئے موزوں نہ ہو۔ لیکن اس حوالے سے بھی ان کو کوئی خاص آگاہی نہیں ہے۔

حاجی نعمت خان صدیق آباد پھاٹک بازار میں پچھلے  پندرہ سالوں سے دودھ  فروشی کا دوکان چلارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کو باجوڑ کے مختلف علاقوں سے روزانہ چھ سو کلو دودھ آتا ہے ۔ لیکن ان کے گاہکوں کے مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی کم پڑجاتا ہے۔

نعمت کے مطابق  سردیوں میں ان کو چھ سو میں سے تین سو کلو تک دودھ آتا ہے  ان کو معلوم نہیں کہ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے لیکن دودھ لانے والے بتاتے ہیں کہ ان کے گائے نے دودھ کی پیداوار کم کی ہے ۔

شال پاچہ کے مطابق ان کے ڈیری فارم میں اعلیٰ نسل کے گائے ہیں جو پندرہ کلوسے لیکر پچیس کلو تک  دودھ کی پیداوار  دیتی ہے لیکن اب اس میں سے ہر ایک نے اوسطا تین سے چار کلو دودھ کی پیداوار کمی کی ہے۔ پہلے سردیوں میں پیداوار کم ہوتا تھا لیکن اب گرمیوں میں بھی پیدوار پر اثر پڑا ہے۔  اس کے علاوہ گرمیوں میں  مچھروں  کی بڑے پیمانے پر افزائش ہوتی ہے جس سے گائے کے سکون  متاثر  ہوتی ہے جو گائے کے صحت کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ انہوں نے ان پر ہر طرح کے کیڑے مار اسپرے بھی کئے  ہیں لیکن اس میں کمی نہیں آتی۔

خیبر پختون خوا  میں  دودھ دینے والے مویشیوں کے مصنوعی نسل کشی کے ماہر ڈاکٹرقاضی ضیاء الرحمان کے مطابق  گائے اور دیگر دودھ دینے والے مویشیوں پر موسم کی آثرات سردیوں کے مقابلے میں گرمیوں کے موسم میں زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کے کہ ہر دودھ دینے والے جاندار کو ان کے وزن  کے دس فیصد کے حساب کے مطابق خوراک دیناچاہئے تو پھر اس سے مطلوبہ پیداوار حاصل کیا جاتا ہے۔  یعنی اس سے دودھ کا زیادہ  پیداوار حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ایک کلو دودھ کے بدلے میں اس کو دو کلو خوراک دینا چاہئے تو پھر اس سے پورا پیداوار حا صل ہو گی۔ خوراک دو قسم کی ہیں ایک سبز خوراک یعنی چارہ گھاس وغیرہ اور دوسرا ونڈا تو ان دونوں  طرح کے خوراک کا خیال رکھنا ہو گا۔ہمارے ملک میں اکثر دودھ کے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لئے  باہر ممالک  سے گائے لائے جاتے ہیں جس میں اسٹریلیاء سر فہرست ہے  جس فریزن اور جرسی نسل کے گائے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

شال پاچہ کے بقول باجوڑ میں سخت  سردی اور سخت گرمی  کے موسم میں ڈیری فارم میں   گائے کے لئے سائلج  اور دوسری ضروری خوراک کی بروقت دستیابی نہ کے باعث  دودھ  کے پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ جبکہ ہر سال  باجوڑ میں گرمی کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے گائے پر پانی کے فواروں سے سپرے کرنا پڑتا ہے  اور دوسری طرف  چھوبیس گھنٹے ان کو پنکھے بھی چلانے ہوتے ہیں  جس پر زیادہ اخراجات آتے ہیں جس کی وجہ سے  ان کو مالی مشکلات بھی درپیش ہیں۔

قاضی ضیا الرحمن نے کہا کہ جب اعلی  نسل کے گائے کو یہاں پاکستان میں لائے جاتے ہیں تو اس کے پیداوار اسی طرح نہیں ہو تی جس طرح اس کی وہاں اپنی ملک میں ہو تی ہے۔  اگر چہ وہ اچھی نسل کی گائے ہو تی ہے لیکن یہاں پر اس کی کم پیداوار کی بنیادی وجہ یہاں پر گرم موسم ہے کیونکہ اس جانداروں یعنی گائے کے لئے سرد موسم موزوں ہو تی ہے پیداوار کے لئے۔

جبکہ ہمارے ہاں گرمیوں میں سخت گرمی ہوتی ہے اور سردیوں میں سخت  سردی ہو تی ہے۔ اسی طرح اس کو گرم موسم میں خوراک بھی اسی طرح میسر نہیں ہوتی جس طرح اس کو ہو نی چائے یعنی جون،جولائی میں اس کو خوراک کی کمی کا سامنا رہتا ہے اور یہ سب موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے رونماہو نے والے واقعات ہے جس  انسانوں  کے ساتھ ساتھ جانور بھی سامنا کر رہے ہے۔

قبائلی علاقوں میں دودھ کے پیداوار بڑ ھانے  کے لئے حکومت نے قبا ئلی علا قوں میں  مصنوعی نسل کشی کیلئے   ضلع خیبر میں جمرود کے مقام پر ایک سنٹر بنایا ہے جس میں اچھی نسل کے باہر کے بیل رکھے ہیں جس سے مصنوعی نسل کشی کے زریعے نر کا مادہ لیا جاتا ہے اور پھر اس کو علاقائی گائے میں منتقل کرتے ہیں جس کو کراس نسل کشی کہتے ہیں یعنی ان دونوں نسل کو کراس کرتے ہے جس کے زریعے اچھی نسل کے گائے پیدا کر تے ہے۔ جس سے دودھ پیدا کرنے والے گائے کے نسل میں اِضافہ کیا جا تا ہے۔

دودھ دینے والے جانداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے  محفوظ رکھنے کا طریقہ کار

قاضی ضیا الرحمن  کے مطابق دودھ دینے والے مویشیوں کو  موسمیاتی تبدیلی کے منفی   اثرات سے محفوظ رکھنے اور اس اثرات  کو کم کرنے کے لئے کئی احتیاطی  تدابیر اختیار کرنے چاہئیں۔

۱)  جس طرح انسان اپنے اپ کو گرمی سے بچاتا ہے اسی طرح تمام جانداروں کو گرمی سے بچانا چاہئے  خصوصی طور پر دودھ دینے والے جانور گائے بھینس اور بکریاں۔

۲) اس کو گرم موسم میں روزانہ نہانا چاہئے تاکہ اس پر گرمی کے شدت کم ہو۔ اور اس کو گرمی کے سخت دباؤسے نکالا جائے۔

۳) گھروں میں اس کے لئے کمرے اسی طرح  بنایا جائے کہ اس میں ہوا کے آنے جانے کا مناسب انتظام ہوا یعنی اس میں تازہ ہوا بغیر کسی روکاوٹ کے داخل ہو۔

۴) جانورں کے رہنے کے جگہوں کو خشک رکھیں اور اس کے صفائی کا بھی خاص خیال رکھیں تاکہ اس کو موسمیاتی بیماریوں سے بچا جا سکیں۔

۵) جون اور جولائی میں خوراک  یعنی سبزہ کی کمی کے وجہ سے اس کو  ونڈا میں ٹانک دیا  جائے اور اس کے لئے جانوروں کے ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے اور اس کے مشورے پر عمل کیا جائے۔

۶) اس کی صحت کا اس خاص خیال رکھا جائے اور  اس میں کوئی غفلت  نہ برتی جائے۔

۷) جانوروں یعنی گائے بھینس کو موسمیاتی بیماریوں سے بچاؤ  کے ٹیکے اور ویکسین ضرور لگائے۔اور اس میں کسی قسم کی بے احتیاطی نہ کیا جائے۔

قاضی ضیاء الرحمن کے بقول اگر زمیندار ان  احتیاطی تدابیر میں سے ستر فیصد پر بھی عمل کریں تو اس کو بہت فائدہ ہو گی۔ اور موسمیاتی تبدیلی کے  منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد ملی گی۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں