آج کل بہت سے لوگ اوزون تہہ یا اوزن لیر کے نام سے واقف ہونگے اور انہوں نے یہ نام سنا ہو گا لیکن اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے کہ اوزون تہہ کا کام کیا ہے اور یہ کہا پر واقع ہے۔
اوزون تہہ یا لیر کیا ہے؟:
خیبر پختون خوا کے ممتاز ماہر کیمادان ڈاکٹر اختیار خان اوزون تہہ کے حوالے سے ٹائم لائن اردو کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے۔
اختیار خان کے مطابق اللہ تعالی نے ہماری لئے فضامیں ایک گیس پیدا کیا ہے۔ جو زمین سے دس کلومیٹر کے انچائی سے شروع ہو کر پچاس کلو میٹر تک جو حصہ ہے اس میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک باریک سبز رنگ کا گیس ہے جس کو اوزون تہہ یالیر کہتے ہے۔ اوزون تہہ زمین کے اردگرد ایک چادر یا لحاف کے مانند پھیلا ہوا ہے اور سورج سے جو شعائیں زمین کو آتی ہے تووہ اس اوزون تہہ سے گزرتی ہے۔ اس میں مختلف قسم کے شعائیں ہو تے ہیں اس میں کچھ مہلک بھی ہو تی ہے۔
اوزون تہہ کا مہلک شعاوٗں کی روک تھام میں کردار:
اوزون گیس سورج سے جو مہلک شعائیں یا روشنی خارج ہو تی جس میں کچھ بہت طاقتور ہوتی جس میں ایکسرے شعاع اورگاما رے شعاع شامل ہے جبکہ اس میں اولٹراوائیڈشعائیں یاروشنی کم طاقتور ہے لیکن پھربھی وہ جانداروں کے جسم پر جب پڑتی ہے تو اس کو نقصان پہنچاتی ہے کیونکہ یہ بھی خطرناک ہے۔ تو اوزون تہہ اس کوزمین کے طرف آنے سے روکتی ہے اور اس کو فلٹر کرتی ہے یعنی جذب کرتی ہے اور زمین پر پڑ نے سے روکتی ہے۔اور جو شعائیں یعنی روشنی کم طاقتور ہیں جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں اور جانداروں کے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہو تے ہیں جس کو ہم دیکھنے کی شعاع بھی کہتے جس میں ہم دیکھ سکتے ہیں تو وہ اس کو زمین کے طرف بلا روک ٹوک کے آنے دیتی ہے۔
اوزون گیس کی یہ جو باریک چادر زمین کے اردگرد پھیلا ہوا ہے اگراس کو لپیٹ لیا جائے اور اس سے ایک ٹھوس چیز بنایا جائے تو اس کی لمبائی نصف انچ تک ہوگی یعنی اس کی جسامت اتنی کم ہو گی۔ لیکن اس کو اللہ تعالی نے پوری زمین کے اوپر پھیلایا ہے جس کے وجہ سے زمین کی حفاظت ہوتی ہے اور زمین پر جو جاندار اور پودے ہے تو اس کی بھی حفاظت کررہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اوزون تہہ کو کتنا نقصان پہنچا:
دنیا میں موسمی تبدیلیوں کے وجہ سے دوسرے مسائل کے ساتھ ساتھ اوزون تہہ کو بھی نقصان پہنچا ہے اور یہ نقصان پچھلے تیس سالوں سے ہیں اس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ چھ سال پہلے انٹرنیٹ پر ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اوزون تہہ میں جو سراخ ہے جس کو سائنسدان اوزون ہول کہتے ہے۔ کہ اس سوراخ کے سائز میں جو اضافہ ہوا ہے وہ تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا سائنسدانوں کے مطابق اس سوراخ کی سائز پورے ہندوستان کے برابر ہیں اگر چہ اب اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے لیکن اگر اس کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے تو مستقبل میں اس میں اضافہ کا خطرہ ہے۔
اوزون تہہ کو جو نقصان ابھی تک پہنچا ہوا ہے تو وہ جنوبی قطب پر ہوا ہے یعنی اوزون تہہ میں سوراخ قطب جنوبی پر ہوا ہے۔ اور جیساکے میں نے پہلے کہا کہ یہ ابھی سے نہیں بلکہ یہ1983ء میں دریافت ہوا تھاجوسائنسدانوں نے کہا تھا کہ یہ قطب جنوبی پرہوا ہے۔اور وہاں پر انسانوں کے جسم پر اس کے منفی اثرات بھی ہوئے ہیں۔
انسانی جسم پر مہلک شعاؤں کی اثرات:
جتنا انسان کے جسم پر الٹراوائیڈ شعائیں پڑتے ہیں تو اتناہی اس کو سکن کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس سے آنکھوں کے پردے کی بیماری جس کو دھندلا پن بھی کہتے ہیں وہ بھی الٹرا وئیڈ شعاؤں کے وجہ سے ہیں اور اس کے بڑھنے کا خدشہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ہم اکثر مارکیٹوں میں سن بلاک کریم دیکھتے ہیں تو وہ بھی اس مقصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ سورج کے مہلک اثرات کو روکا جاسکے اور اس کے مہلک شعائیں جو انسانی جسموں پر پڑ تی ہے تو اس سے اس کو بچایا جا سکیں۔
یہ تو تھی اس کے انسانی جسموں پر اس کے اثرات اس کے ساتھ اب فصلوں اور پودوں پر بھی اس کے مہلک اثرات ہیں اور وہ یہ ہے کہ جتنا اولٹرا وئیڈ شعائیں زمین پر پڑتی ہے تو اس سے فصلیں کمزور ہوتی ہے جس سے اس کے پیداوار کم ہوتی اسی طرح پودے بھی اس کے اثرات سے متاثر ہوتی ہے اور پھلدار پودوں کی پیداوار میں اگر ایک طرف کمی واقع ہوتی ہے تو دوسری طرف اس میں مطلوبہ وٹامنز کی مقدار بھی حاصل نہیں ہوتی۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ زمین پر کوئی بھی جاندار اس کے مہلک اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ پاکستان میں اگرچہ اس کے اثرات اب اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی جنوبی قطب پر ہے۔
پاکستان میں مہلک شعاؤں کی منفی اثرات:
پاکستان پر اس کے منفی اثرات اگرچہ دیر سے پڑی گی لیکن پاکستان بھی اس سے محفوظ نہیں ہوگا اور اس کے منفی اثرات یہاں پر پڑی گی۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہو گی یہ الگ بات ہے کہ کچھ ممالک میں اس کے اثرات زیادہ ہوگی اور کچھ پر کم لیکن کوئی بھی ملک اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہو گی۔
اوزون تہہ کے منفی اثرات سے عام لوگ کس طرح محفوظ رہ سکتے ہیں:
یہ بات کہ کس طرح اوزون تہہ کے نقصانات سے عام لوگ اپنے اپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔توعام لوگوں کو چاہئے کہ وہ سورج میں زیادہ نکلنے سے پرہیز کریں۔لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے زیادہ تر لوگ عریب ہے اور وہ زیادہ تر کام کاج کھلے دوھوپ میں کرتے ہیں تو اس بارے میں ماہرین کے مطابق کہ اس کو چاہئے کہ وہ سورج میں کا م کرنے کے دوران اپنے سر اور جسم کو سورج کے شعاعوں سے محفوظ رکھے یعنی اچھی طرح ڈھانپ لیں۔ اسی طرح گرمیوں کے موسم میں پوری آستینوں والے کپڑے پہنیں اس کے ساتھ کیپ ٹوپی کا استعمال کریں اور ساتھ ہی سن بلاک کریم جسم کے اس حصوں پر لگا ئے جس پر سورج کی شعائیں پڑتی ہے۔ یہ تو انفرادی طور پر اس سے بچنے کے تدا بیر ہیں۔
حکومتی سطح پر کونسے اقدامات ضروری:
اب ملکی سطح پر اس کے اثرات سے بچنے کے لئے حکومتی سطح پر کونسی تدبیریں ہونی چائیں تو اس میں سب سے پہلے ان گیسوں کا اخراج کم سے کم کرنا چائے جو اوزو ن تہہ کو نقصان پہنچارہی ہے۔ تو اس میں ایک گیس ماہرین کے مطابق سی ایف سیز یعنی کلورفلورو کاربن گیس ہے جس کا اخراج کم سے کم کیا جائے کیونکہ اس سے اوزون تہہ کو نقصان پہنچتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ان تمام گیسوں کا اخراج کم سے کم کیا جائے
جو ماحولیات کو متاثر کرتی ہے۔
اوزون تہہ کی دن منانے کی تاریخ :
اقوام متحد نے 1994میں پہلی بار 16ستمبر کو اوزون تہہ کے تحفظ کے دن کے طور پر منایا اوزون کا عالمی دن 1987 میں اس تاریخ کو یاد کرتا ہے، جس پر اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے مادوں سے متعلق مونٹریال پروٹوکول پر دستخط کیے گئے تھے۔ اب ہر سال16 ستمبر کو اوزون کا عالمی دن ایک خاص تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے اسی سال کا تھیم تھا (موحولیاتی کاروائی کا اگے بڑھانا)۔ اوزون تہہ کے عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں اس کے تحفظ کے حوالے سے شعور اوجا گر کیا جائے کیونکہ ماحولیات کو صاف رکھنا ہر ایک کی زمداری ہے اس سے کوئی بھی اپنے اپ کو بری لذمہ نہیں سمجھ سکتا۔ تو حکومت کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو اس میں اپنا اپناحصہ ڈالنا چاہئے۔