قبائلی ضلع باجوڑ کے 42سالہ طارق رحیم پچھلے 32 سالوں سے اپنے گاؤں خار کے خوڑ (ندی) کے تالابوں اورنشیبی علاقوں میں اپنے خاندان کے بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ موسم سرما و بہار میں صبح سویرے مرعابیوں کا شکار کرتا تھا۔ جو نہ صرف ان کا اور ان کے دوستوں کا مقبول مشغلہ تھا بلکہ دوسرے علاقوں سے بھی لوگ یہاں پر شکار کے لئے آتے تھے۔ لیکن ندی میں پانی کی سطح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے وہ اب اس مشغلے سے محروم ہوگئے ہیں۔
طارق نے بتایا ” ان کے گاؤں خار دو ندیوں ماندل اور ماموندکے سنگھم پر واقع ہیں۔ ان دو ندیوں کی وجہ سے خار کی ندی میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ تھا۔ ان میں کئی نشیبی علاقے تھے جس کو مقامی زبان میں ہم (جبے )کہتے تھے۔ ان میں ہم نے مرغابیوں کے لئے 3 تالاب بنائے تھے۔جبکہ دوسرے شکاری لوگوں نے بھی مرعابیوں کے لئے اسی طرح کے تالاب بنائے تھے جس میں فروری سے لیکر اپریل کے اختتام تک مرغابیوں کے جنڈ آتے تھے اور ہم شوقیہ طور پر ان کا شکار کرتے تھے۔ ان کے مطابق ایسا دن بھی آیا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک تالاب والے نے تین سے لیکر پانچ تک مرغابیوں کا ایک دن میں شکار کیا تھا "۔
طارق کے مطابق ان کا داد جان اور والدمحترم بھی شکاری تھے اور یہی وجہ تھی کہ میں نے بھی بچپن سے شکار کرنا شروع کیاتھا کیونکہ جب میں 10سال کا تھامیں ان کے ساتھ شکار کے لئے جاتا تھا۔ ان کا گھرانہ ایک شکاری گھرانہ ہے اور علاقے میں اس وجہ سے ان کا ایک پہچان ہے۔
طارق نے کہا کہ مرغابیوں کے شکار کے لئے انہوں نے مخصوص قسم کے تالاب بنائے تھے جس میں لکڑی سے بنے مصنوعی مرغابیاں بھی چھوڑتے تھے اور منہ سے مخصوص آوازیں بھی نکالتے تھے۔ اس کے زریعے مرغابیوں کے جنڈ کو اپنے طرف راعب کرتے تھے۔
باجوڑ کے تمام شکاریوں نے متفقہ فیصلہ کیا تھا جس کے مطابق صبح سویر 5بجے سے لیکر8بجے تک شکار کی اجازت تھی اس کے بعد ہر قسم شکار پر پابندی لگائی تھی۔لیکن موجودہ وقت میں کوئی پابندی نہیں ہے کسی بھی وقت شکار کیا جاسکتا ہے۔
تحصیل خار کے گاؤں مامینزو سے تعلق رکھنے والا 45سالہ افتخار خان بھی 26سالوں سے مر غابیوں کا شکار کررہاہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا اپنے شکاری دوستوں کا ایک گروپ ہے اور وہ باقاعدہ اپنے گاؤں کے ندی میں سردیوں اور بہار کے موسم میں شکار کرتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
افتخار نے ہمیں بتایا ” اب شکار کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ندی میں پانی کی سطح انتہائی کم ہوئی اور مرغابیوں کا آنا بند ہوا ہے۔سال 2005 ء تک جب وہ شکار کے لئے جاتے تھے تو تالابوں پر مرغابیوں کے جنڈ در جنڈ آتے جس کا ہم بہت تسلی اور آسانی سے شکار کرتے تھے۔ کیونکہ ندی میں پانی کا بہاؤ زیادہ تھا۔ لیکن اب شکار کے لئے بنائے گئے تالاب خشک ہوگئے ہیں "۔
خشکی کے وجہ سے اگر ایک طرف مرغابیوں کا آنا انتہائی کم ہوا ہے تو دوسری طرف لوگ خود کار ہتھیاروں سے اس کا شکار کرتے ہے جو بہت تکلیف دہ بات ہے۔ حقیقی شکاری کبھی پرندوں کا اسی طرح شکار نہیں کرتا بلکہ وہ تو صرف اپنا شوق پورا کرتا ہے۔لیکن یہ لوگ تو اس کی نسل ختم کرنے کے درپے ہیں۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ غیر رجسٹر ڈ شکاریوں پر پابندی لگائی جائے۔
طارق کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا پورا شکار قانون کے دائر میں رہ کر کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ باجوڑ میں سب سے پہلے شکارکا لائسنس انہوں نے حاصل کیا تھا اور اس کے بعد اپنے دوستوں کو بھی لائسنس بنانے کے طرف راغب کیا۔ تاہم کچھ لوگ غیر قانونی شکار کے ساتھ شکار کے لئے خود کار مشین گنوں کا استعمال کرتے ہیں جس سے مرغابیوں کے ہوا میں اڑنا بھی محال ہوا ہے۔
محکمہ وائلڈ لائف ضلع باجوڑ کے ایک اہلکار عبیداللہ نے بتایاکہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے باجوڑ میں تین سال پہلے باقاعدہ کام شروع کیا ہے۔ اس مختصر عرصے میں انہوں نے شکار کو قانونی شکل دینے کے لئے باجوڑ میں لائسنس کا اجراء کیا ہے۔ غیر قانونی شکار پر پابندی لگائی ہے اور خلاف وارزی کرنے والوں کو جرمانہ بھی کیا ہے۔ جو 10000 دس ہزار سے لیکر 80000اسی ہزار تک جرمانہ عائد کیا ہے۔ اور چند کے خلاف عدالت میں کیس بھی چل رہے ہیں۔
عبید کا کہنا تھا کہ ” انہوں نے اب تک 250واٹر فال یعنی مرغابیوں کے شکار کے لائسنس جاری کئے ہیں جس کی فیس 5000 ہزار روپے ہیں۔ اسی طرح چکور، تنزرے،کالا تیتر، اوربٹیر کے شکار کے 150 تک دو طرح کے لائسنس جاری کئے جس میں ایک غیر محفوظ لائسنس ہے جس کی فیس 4500 روپے ہیں یعنی جس وقت ان پرندوں کے انڈوں کا سیزن نہ ہوں اور جب اندوں کا سیزن ہوں تو پھر اس کے لائسنس 9000 روپے میں ہم جاری کرتے ہیں۔ یہ تمام لائسنس ایک سال کے مددت کے لئے ہوتے ہیں اور ہر سال اس کی رینیول (تجدید ) ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈ یلینگ لائسنس جو لوگ وائلڈ لائف کی کاروبار کرتے ہیں تو اس کے لئے بھی 10 تک لائسنس جاری کئے ہیں جس کی فیس 16000ہزار اور رینیول فیس 10000 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے "۔
اس کے علاوہ باجوڑ میں مسافر پرندوں جس میں مرغابیاں سرفہرست ہیں کے اعدادوشمار جمع کیا ہیں۔ تو یہ بات ظاہر ہے کہ اس کی آمد میں کافی حد تک کمی آئی ہیں جو موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے نشیبی علاقوں کے کمی ہے۔ کیونکہ باجوڑ میں موجود ہ وقت میں صرف 103تالاب موجود ہیں جو یہاں کے لوگوں کے مطابق چند سال پہلے 500سے زائد تھے۔ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے لوگوں میں قانونی شکار اور پرندوں کو پالنے کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کے لئے باجوڑ کے مختلف علاقوں میں کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہے تاکہ جنگلی حیات کا تحفظ یقینی ہو سکیں۔
طارق کے بقول باجوڑ میں مختلف قسم کے مر غابیاں آتے تھے جس کو مقامی زبان میں ہم تارلک جبکہ انگریزی میں (پینٹائل) ، چورلک(ڈیل) اور سیندانئی (گڈویل) کہتے ہیں شامل تھے لیکن اب ان میں 90فیصد کمی آئی ہے۔ جس کی بڑی وجہ ندیوں کے پانی کی سطح میں انتہائی کمی ہے جس کے وجہ سے وہ تمام نشیبی علاقے خشک ہوئے ہیں جو مر غابیوں کے مسکن تھے۔ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ندی کے آس پاس آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
طارق باجوڑ سے باہر بھی شکار کے لئے اپنے دوستوں کے ساتھ جاتا ہے جس میں تور ڈھیر آباسین، سندھ کے لاڑکانہ، کوئٹہ بلوچستان اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ جہاں پر انہوں نے مرغابیوں کے ساتھ دیگر موسمی پرندوں کا شکار کیا ہے۔ لیکن پچھلے ایک سال سے شکار کرنے سے کنار کشی اختیار کی ہے کیونکہ اب باجوڑ کے ندیوں میں نہ اسی طرح کاپانی ہے اور نہ مر غابیا ں آتی ہیں۔
افتخار نے کہا کہ نشیبی علاقوں کے خشکی اور ندی میں پانی کی سطح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اب ان کے لئے اپنا شوق پورا کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اس لئے وہ صبح شکار کے لئے جاتے تو ہیں لیکن واپس خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں۔ بس اب ہم صرف اپنا عادت پوری کرتا ہے۔افتخار نے تجویز دی کے پانی کی تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائی جائے۔
ڈسٹرکٹ واٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ باجوڑکے ضلعی آفیسرمحمد کریم اللہ نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے وجہ سے باجوڑ میں نہ صرف یہ کہ ندیوں میں پانی انتہائی کم ہوئی ہے اور زیادہ تر خشک ہو گئے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح میں 50فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس لئے پانی کی تحفظ اور صحیح استعمال پر وہ کام کررہے ہیں۔ باجوڑ کے مختلف علاقوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ہم واٹرٹینک بنانے کے ساتھ ساتھ آبپاشی کے دوران پانی کی ضیاع روکنے کے لئے واٹرچینل بھی بنا رہے ہیں اور لوگوں میں اس بارے شغور پیدا کیا جا رہا ہے کہ پانی احتیا ط کے ساتھ ضرورت کے مطابق استعمال کریں اور اس کی ضیاع سے اجتناب کریں۔
باجوڑ سمیت پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے ویٹ لینڈ (نشیبی علاقوں ) میں کمی کی وجہ سے وائلڈ لائف کے تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے بلکہ قانونی شکار کرنے والے شکاریوں کو بھی اب اپنا شوق پورا کرنا مشکل ہوا ہے۔ لوگوں میں ویٹ لینڈ کی اہمیت اجاگر کرنے کے عرض سے ہر سال 2 فرورہی کو ویٹ لینڈ کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ اس کا تحفظ کیا جاسکیں۔ رواں سال ویٹ لینڈ کے دن کا تھیم ” ویٹ لینڈ اور انسانی بہبود” تھا۔ کیونکہ ویٹ لینڈ انسانی زندگی کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے جس سے لوگوں کو اگاہی دینا ضروری ہے۔
عبید کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے برف باری اور بارشوں میں کمی کی وجہ سے پانی کی سطح نیچے جارہی ہے جبکہ اکثر ندیاں اور نشیبی علاقے خشک ہو گئے ہیں اور یا اس میں پانی کی مقدار انتہائی کم ہوئی ہے۔ اس لئے ان کہ ڈی ایف او کاموسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کرنے کیلئے دوسرے متعلقہ محکموں اور ماحولیات پر کام کرنے والے دوسرے غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ میٹنگز ہوئی ہے تاکہ مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کیا جائے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکیں۔