قبائلی ضلع باجوڑ کے تحصیل خار کے پہاڑوں کے دامن میں واقع  سادات قبیلے کے تاریخی گاؤں بھائی چینہ میں واقع صدیوں پرانا تاریخی قدرتی چشمہ خشک ہوا ہے۔ اب یہ چشمہ خود پانی کے بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ یہ چشمہ ان چندچشموں میں سے ایک تھا جو ایک ایک ہو کر خشک ہو گئے ہیں۔ یہ کنواں نما چشمہ اپنے ایک دوسرے چشمے کاساتھ دے رہا تھا اور گاؤں کے لوگوں کا پیاس بجھارہاتھا لیکن آخر کار موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت نہ کر سکا اور خشک ہو گیا۔

اس چشمے کے صحیح تاریخی پس منظر (عمر ) کے بارے میں کسی کو صحیح اندازہ نہیں ہے کہ یہ کب سے رواں دواں تھا لیکن اس گاؤں کے ایک رہائشی محقق اور عالم دین نورمحمد بنوری جو سادات خاندان سے تعلق رکھتا ہے بیان کرتے ہے کہ ان کے آباوآجدا دسے انہوں نے سنا ہے کہ نہ صرف یہ چشمہ بلکہ اس گاؤں میں جتنے بھی چشمے تھے وہ صدیوں سال پرانے تھے۔ اس نے کہا کہ اس گاؤں کا نام بھی ان چشموں کے وجہ سے بھائی چینہ پڑا تھا کیونکہ پشتو میں چینہ (چشمے) کو کہتے ہے۔

نور محمد نے بتایا کہ یہاں پر بدھ مت تہذیب کے آثار بھی ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چشمے صدیوں پرانے ہیں۔لیکن اب ان میں سے زیادہ تر چشمے خشک ہو گئے ہیں اور یہ جو دو چشمے باقی تھے تو اس میں سے بھی یہ ایک تاریخی چشمہ تقریبا  ایک سال ہو گیا ہے کہ خشک ہوا ہے۔ اگر چہ اس میں پانی کی سطح  پچلے دس سالوں سے نیچے چلا گیا تھا اور اس میں بتدریج کمی ہو رہی تھی ۔

اس کے مطابق اس چشمے سے نہ صرف گاؤں کے 40 گھرانوں کی لوگوں کے گھریلوں ضرورت پوری ہوتی تھی بلکہ اس کے پانی وہاں پر موجود تاریخی گٹوجمات یعنی پتھروں والی مسجد  کے نام سے مشہور ہے کے درمیان سے ایک نالی میں گزرتی تھی جہاں پر یہ پانی نمازیوں کے وضو کے کام آتی تھی اور پھر یہ پانی مسجد کے نیچے  ایک عوامی عسل خانے سے ہوتے ہوئے ایک ٹینکی نما تالاب میں ذخیرہ ہوتی تھی جس کو گاؤں کے لوگ بعد میں باری باری آبپاشی کے لئے بھی استعمال میں لاتاتھا۔

نورمحمد مزید کہتے ہیں کہ بھائی چینہ ایک تفریحی مقام ہے جس کے لئے لوگ گرمیوں کے موسم میں اردگرد کے علاقوں سے آتے تھے اور اس چشموں کے ٹھنڈےپانی سے خود بھی پیاس بجاتے تھے اور واٹرکولر وغیرہ میں گھروں کو  بھی ساتھ لے جاتے تھے لیکن اب پانی کے کمی کے وجہ سے اس تاریخی گاؤں کا رونق ماند پڑگیا ہے۔  چشمے کے ایک  طرف پر  ایک بڑا تاریخی پتھر پڑا ہے جس پر گاؤں کے بزرگ لوگ بیٹھ کر تاریخی باتیں کر تے تھے جس سے نوجوان طبقہ فیض یاب ہوتا تھا اس کے ساتھ ساتھ یہ جگہ مسافروں کے لئے ایک انتظار گاہ کا کام بھی کررہاتھا۔  پانی کی کمی کے وجہ سے اب  زیادہ تر لوگوں نے یہاں سے نقل مکانی کی ہے اور نیچے میدانی علاقوں میں رہائش اختیار کی ہے اور جو چند گھرانے باقی ہے وہ پانی کے کمی کے وجہ سے اب مشکلات سے دوچار ہے۔

بھائی چینہ کے قدیمی رہائشی خلیل الرحمن  نے بتایا کہ گاؤں میں دو چشمے تھے۔ جس میں ایک اوپر تھا اور ایک نیچے  جس کو (کوز گودر اور بر گودر) کہتے ہیں اب نیچے والا چشمہ خشک ہوا ہے اور اوپروالے میں بھی پانی کا بہاؤ انتہائی کم ہوا ہے۔ اس پر گاؤں میں موجود گھرانوں نے متفقہ طور پر باری رکھی ہے کہ ایک دن ایک گھر انہ اس کا پانی استعمال کریگا اور دوسرے دن دوسرا گھرانہ  اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری ہے۔

تاہم اب اس میں بھی پانی انتہائی کم ہوا ہے اور اس کو ڈر ہے کہ اگر یہ بھی خشک ہوا تو وہ بھی نقل مکانی پر مجبور ہونگے۔ اگر چہ خلیل الرحمن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے واقف نہیں ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ جب سے گاؤں کے پہاڑ پر اس کے انداز کے مطابق سال  1998ء میں لاچی (یوکلپٹس) کے پودوں کا جنگل لگا ہے اس وقت سے چشموں میں پانی کا بہاؤ آہستہ آہستہ کم ہورہا تھا اور اب نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ بڑا کنواں نما چشمہ بھی خشک ہوا ہے۔  اگر چہ اس جنگل سے اس کے خاندان اور پورے گاؤں والوں کو معقول معاشی فائدہ ہوا ہے لیکن لوگ کہتے ہے کہ لاچی (یوکلپٹس)  زیادہ مقدار میں پانی جذب کرتا ہے جس سے چشمے خشک ہو ئے ہیں۔

باجوڑ کے کے وادی چارمنگ، ماموند، سلارزئی اور اتمانخیل کے پہاڑی علاقوں میں زیادہ تر قدرتی چشمے خشک ہو چکے ہیں جس کی بنیادی وجہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں اور برفباری میں نمایا کمی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پانی کے زخیرہ کرنے کے لئے بھی کوئی خاص انتظام موجود نہیں ہے۔ دوسری طرف باجوڑ کے  زیادہ تر لوگوں کے ذہن میں لاچی(یوکلپٹس) کے پودے کے بارے میں یہ سوال موجود ہے کہ جہاں پر بھی یہ موجود ہوں وہاں پر پانی کی سطح نیچے چلا جاتا ہے۔

اس تناظر میں جب  جنگلات کے ماہرحیات علی سے معلوم کیا تو انہوں نے اس تاثر کو سختی سے رد کیا کہ لاچی(یوکلپٹس) کے پودے کے وجہ سے پانی کا سطح نیچے چلا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نے نہ صرف اندرونی ملک بلکہ کئی بیرونی  ممالک کے مطالعاتی دورے کئے  اور مختلف ورکشاپس وسمینار میں شرکت کی ہے لیکن انہوں نے کہی پر بھی یہ بات نہیں سنی کے لاچی(یوکلپٹس)  کے پودے سے پانی کی سطح نیچے چلا جاتا ہے اور نہ خود اس کے مشاہدے میں اب تک یہ بات آئی ہے۔

حیات نے یہ بھی کہا کہ لاچی (یوکلپٹس)  واحد پودہ ہے جو خشکی اور پانی والے علاقوں میں یکساں نشونما پاتی ہے۔ اس لئے لوگوں کے ذہن میں لاچی (یوکلپٹس)  کے بارے طرح طرح کے سوالات اٹھتے ہیں۔ حیات  کے مطابق لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ موسمیاتی تبدیلی واقع ہوئی ہے جس سے بارشوں کے سلسلے متاثر ہوئے اور پچھلے  کئی سالوں سے اسی مقدار میں بارشیں نہیں ہوئے جو پہلے ہو تے تھے۔ اس لئے موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے نہ صرف پاکستان متاثر ہوا ہے بلکہ پوری دنیا میں اس کے اثرات واضح ہو چکے ہیں اور یہاں پر پانی کی کمی اس کی ایک واضح نشانی ہے۔

ان کے مطابق دوسری طرف آبادی میں بھی بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے  اور پانی کا استعمال اس کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے تو ان سب عوامل کے وجہ سے پانی کی کمی واقع ہوئی ہے۔  انہوں نے کہا کہ اگر چہ لاچی  (یوکلپٹس)  کے بارے میں عوامی تاثر بلکل غلط ہے لیکن پھر بھی عوامی رجحان کے وجہ سے  محکمہ جنگلات نے  لاچی (یوکلپٹس) کے پلانٹیشن میں نمایاں کمی کی ہے اور اب مقامی پودہ جات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاکہ لوگوں کے یہ غلط تاثر دور ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یوکلپٹس کے ڈیمانڈ میں کمی آئی بلکہ لوگ اب بھی اسی طرح اس کا ڈیمانڈ کررہے جس طرح پہلے تھا کیونکہ اس سے اس کو بڑا معاشی فائدہ ہو رہا ہے۔

حیات کے باتیں اپنی جگہ لیکن اگر دیکھا جائے تو لاچی (یوکلپٹس) پر نہ صرف عام لوگ بلکہ ماہرین موسمیاتی تبدیلی بھی سوالات اٹھا رہے ہیں کہ پانی  کے سطح نیچے جانے میں اس کا اہم کردار ہے ۔ اس لئے فارسٹ ڈپارٹمنٹ و ماہرین کو اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات کرنے چاہیے۔ تاکہ یہ تاثر مکمل طور پر دور ہو جائے۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں