ضلع کرم کے تحصیل سنٹرل کرم سے تعلق رکھنے والے اشرف خان 35 بکریوں کا ریوڑ اپنے قریبی پہاڑوں میں چروانے کیلئے صبح پانچ بجے کو گھر سے نکلتا ہے اور نو بجے سے پہلے گھر واپس آتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل اُن کی واپسی کا وقت دن کے بارہ بجے ہوا کرتا تھا، یہ سب کچھ شدید گرمی کی وجہ سے تبدیل ہوا۔ اشرف خان کے مطابق وہ گزشتہ بیس سالوں سے مال مویشیوں کا کاروبار کرتے ہیں پہلے وہ صبح مال مویشی کو نکال کر شام کو واپس لوٹ آتا تھا لیکن پچھلے دو سالوں سے گرمی کی شدت میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ مویشی کو دن کے نو بجے سے پہلے واپس لے کر پھر دن کے چار بجے دوبارہ مال مویشی کو چرانے کیلئے نکالنا پڑ رہا ہے۔

میٹرولوجیکل ریکارڈ کے مطابق جنوبی ایشیا اس وقت شدید اور غیر معمولی گرمی کی لہر کا سامنا کر رہا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی کا ایک واضح ثبوت ہے۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار اور افغانستان میں درجہ حرارت معمول سے 10 سے 20 فیصد تک زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بھارت کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 47.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے، جبکہ پاکستان کے شہروں سکھر، دادو اور سبی میں گرمی 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گئی ہے۔

جیالوجسٹ واجد الرحمن کا کہنا ہے کرہ زمین پر گرمی کی شدت میں اضافہ انسان نے خود پیدا کیا ہے اور سہولیات کی حصول کے آڑ میں ماحول کو نقصان پہنچایا گیا جیسا کہ ریفریجریٹرز، ایئرکنڈیشن، لکڑیوں کی استعمال کیلئے جنگلات کی کٹائی بنیادی عوامل میں شامل ہیں۔اُن کے بقول گاڑیوں، ائیرکنڈیشن، فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلی گیسز نے اوزون لئیر کو متاثر کیا ہے۔

گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے دیہاتوں کی نسبت شہروں میں زندگی گزارنے میں زیادہ مشکلات ہے۔ پشاور شہر پخہ غلام کے رہائشی عصمت خان کا کہنا ہے کہ دس سال پہلے اس کے اردگرد سرسبز کھیت اور درخت موجود تھے اور گرمی کے موسم ٹھنڈی اور تازہ ہواؤں سے موسم خوشگوار تھا لیکن اب اس کے اردگرد زیر کاشت زمین پر رہائشی سوسائٹی بنائے گئے ہیں درختوں کی کٹائی کی وجہ سے دور دور تک ایک درخت کا سائے نظر نہیں آتا جس کی چھاوں سے فائدہ حاصل کیا جائے۔

ماہرین کے مطابق یہ شدید گرمی نہ صرف انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ جانوروں، فصلوں، پانی کی قلت اور بجلی کے نظام پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ اشرف خان کا کہنا ہے ایک تو گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے دوسری جانب پہاڑوں میں مال مویشی کیلئے پانی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر تک چروانا مشکل ہوتا ہے جبکہ دو سال پہلے ہر جگہ چشمے ہوتے تھے اور پانی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

 گرمی کی شدت میں اضافہ کی وجوہات:

جیالوجسٹ واجد الرحمن کے طرح دیگر ماہرین کے مطابق جنگلات کی کٹائی (Deforestation) گاڑیوں، فیکٹریوں اور ٹھنڈک پیدا کرنے کیلئے ایئر کنڈیشن سمیت ریفریجریٹرز، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں اور گرین ہاؤس گیسز کی وجہ سے ماحول میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کی پھیلاؤ کی وجہ سے انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مختلف قسم کے ماحول پر برے اثرات رکھنے والے طریقوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صنعتی ترقی کے باعث ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی ہونے سے گرمی میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے اوزون لئیر کو نقصان مل رہا ہے۔

اوزون لئیر کیا ہے اور اس کا گرمی سے تعلق:

اوزون لیئر زمین کے اوپر فضا میں ایک حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں کو روکتی ہے۔ اگر یہ تہہ خراب ہو جائے تو سورج کی تیز شعاعیں زمین تک پہنچتی ہیں، جس سے گرمی کی شدت بڑھتی ہے اور جلد کی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کیلئے محقق ناظم مقبول کی سال 2024 میں ایک تحقیق کیمطابق ملک میں صحت مند ماحول کے لیے 25 فیصد جنگلات کا احاطہ ہونا چاہیے، تاہم، پاکستان میں سب سے کم ہے۔ دنیا میں جنگلات کی شرح پاکستان میں ہر سال تقریباً 27,000 ہیکٹر جنگلات کا صفایا کیا جاتا ہے، جس میں سے 50 فیصد گھرانوں میں کھانا پکانے اور گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی اندازوں کے مطابق 2021 میں صرف 4.8 فیصد (770.8 مربع کلومیٹر کے کل زمینی رقبے میں سے 36.9 مربع کلومیٹر) پاکستان کے رقبے پر جنگلات ہیں۔

حکومت اس مسئلے کی شدت کو تسلیم کرتے ہیں اور جنگلات کی کٹائی کے بڑھتے ہوئے اثرات سے لینڈ سلائیڈنگ، آلودہ پانی، موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی، آبادی میں تیزی سے اضافہ، بڑھتی ہوئی شہری کاری، اعلیٰ غربت اور توانائی کی کمی کے باعث ملک میں وقت کے ساتھ ساتھ جنگلات کی شرح میں کمی آئی ہے۔

عام لوگ جنگلات کے بے تحاشہ حصے کو کاٹ رہے ہیں۔ وہ لوگ، جن کے پاس بجلی نہیں ہے یا انہیں باقاعدگی سے نہیں ملتی، وہ لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ لاہور، پشاور، کراچی، فیصل آباد اور اسلام آباد جیسے بڑے شہری علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور تعمیرات انفرادی نقل و حرکت کے لیے سڑکوں کے بڑے ڈھانچے نے جنگلات کو نقصان پہنچایا ہے۔

رواں سال پاکستان اکنامکس سروے کے مطابق سال 2024 پاکستان کا گزشتہ 64 سالوں میں نوواں گرم ترین سال رہا، جس میں اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری اور بارش کی سطح تاریخی اوسط سے 31 فیصد زیادہ رہی۔

گرمی کم کرنے اور ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے اقدامات

ماہرین کے مطابق زیادہ سے زیادہ درخت لگانے، فیکٹریوں اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کو کم کرنا، شمسی توانائی اور صاف ذرائعِ توانائی کا استعمال، پانی کے ذخائر کا تحفظ اور استعمال میں احتیاط، شہری علاقوں میں سبزہ (Green Belts) بڑھانے سے گرمی کی شدت میں کمی واقعہ ہوسکتی ہے۔

پاکستان اکنامکس سروے کے مطابق وفاقی حکومت نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف اور آر ایس ایف کے تحت تقریباً 1.4 ارب امریکی ڈالر حاصل کیے ہیں۔

وفاقی حکومت نے اپنی حکمرانی کے فریم ورک کے ایک حصے کے طور پر ایک ماحولیاتی بجٹ کو ادارہ جاتی شکل دی ہے تاکہ پالیسی اور فیصلہ سازی کے عمل میں ماحولیاتی پہلوؤں کو شامل کیا جا سکے۔

پاکستان کی پہلی کاربن مارکیٹ پالیسی نومبر 2024 میں باکو میں COP29 پر متعارف کرائی گئی، جو کہ ایک اہم اقدام ہے۔

ری چارج پاکستان پروجیکٹ، جو ستمبر 2024 میں 77 ملین امریکی ڈالر کی مالی اعانت کے ساتھ شروع کیا گیا، کا مقصد ماحولیاتی نظام پر مبنی سیلاب کے انتظام کو نافذ کرنا، سیلاب سے نمٹنے، اور پائیدار پانی کے وسائل کے انتظام کو فروغ دینا ہے۔

ماحولیاتی بجٹ ٹیگنگ (CBT) کے ٹول کا استعمال کرتے ہوئے، 5,000 سے زائد وفاقی حکومت کے لاگت کے مراکز اور 40 چھوٹے ذیلی درجہ بندیوں کو کامیابی سے ٹیگ کیا گیا، جس سے ماحولیاتی اخراجات کی بہتر نگرانی میں مدد ملی۔

پاکستان کے پہلے گرین سکوک کا اجراء، جس کی قیمت 30 ارب روپے ہے، سبز مالیات اور پائیدار سرمایہ کاری کی طرف ایک ترقی پسند تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔

پلانٹ ڈاٹ پی کے پاکستان بھر میں درختوں اور پودوں کے کاروبار کرتا ہے۔ پلانٹ ڈاٹ پی کے کے چیف آپریٹر سجاد الحق کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ادارے کے بدولت ملک میں درختوں کیذریعے اچھا ماحول فراہم کرنے کیلئے کام کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافے سے بچنے کیلئے ہمیں فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے جس میں سب سے آسان، قدرتی اور پائیدار حل ”درخت لگانا” ہے۔ کیونکہ درخت سایہ فراہم کرتے ہیں، جس سے شہری علاقوں میں درجہ حرارت میں نمایاں کمی آتی ہے، درخت ہوا کو صاف کرتے ہیں اور فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے موسم خوشگوار رہتا ہے۔ اس کے علاہ درخت زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ رکھتے ہیں اور زمینی نمی کو برقرار رکھتے ہیں۔ درختوں کی موجودگی زمین کے درجہ حرارت کو کم کرتی ہے اور ماحولیاتی توازن کو بہتر بناتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اجتماعی طور پر ماحول کے تحفظ کے لیے قدم اٹھائیں، ہر فرد سال میں کم از کم ایک درخت ضرور لگائے، گھروں، سکولوں، دفاتر اور گلی محلوں میں پودے لگائیں اور موجودہ درختوں کا تحفظ کریں اور ان کی نگہداشت کریں۔ اگر ہم آج درخت نہیں لگائیں گے، تو آنے والی نسلیں صرف گرمی اور خشک زمین کا سامنا کریں گی۔

ریحان محمد
ٹائم لائن اردو سے وابسطہ نوجوان صحافی ریحان محمد خیبرپختونخوا سے ملکی میڈیا کے لئے کام کرتا ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں