خیبرپختونخوا میں 70 برس کا بدترین سیلاب: ماحولیاتی بحران، حکومتی غفلت اور انصاف کی جدوجہد
خیبرپختونخوا میں سال 2025 کے دوران آنے والا سیلاب گزشتہ سات دہائیوں کی سب سے بڑی قدرتی آفت قرار دیا جا رہا ہے۔ شدید بارشوں اور طغیانی نے درجنوں قیمتی جانیں لے لیں، سینکڑوں افراد زخمی ہوئے اور ہزاروں گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ کھیت کھلیان، اسکول، اسپتال، بازار اور سڑکیں بہہ گئیں جبکہ متاثرہ اضلاع میں پانی، بجلی اور صحت کی سہولیات کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہوگیا۔

عالمی انصاف کا مطالبہ

ماہرین اور ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ پاکستان خود ماحولیاتی آلودگی میں بہت کم حصہ ڈالتا ہے لیکن اس کے اثرات سب سے زیادہ بھگت رہا ہے۔ اس تناظر میں ماہر ماحولیات ڈاکٹر خان نے زور دیا کہ حکومت کو عالمی سطح پر بھرپور آواز اٹھانی چاہیے۔ ان کے مطابق امیر ممالک کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو کلائمٹ فنانس فراہم کریں کیونکہ “خیبرپختونخوا کی کمیونٹیز اس بحران کی ذمہ دار نہیں لیکن سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ ان کے نقصانات کا ازالہ ہو۔”

قومی ذمہ داری

اگرچہ عالمی امداد اہم ہے، لیکن ماہرین کے مطابق اصل ذمہ داری قومی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے بجٹ میں صرف ریلیف فنڈز نہیں بلکہ ڈیزاسٹر پریپیئرنیس کو بھی ترجیح دے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) کو مزید تربیت یافتہ عملے، جدید ریسکیو آلات اور ضلعی سطح پر مضبوط رابطہ کاری کی ضرورت ہے۔

سول سوسائٹی کا کردار

سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کا کردار بھی کلیدی ہے۔ ماہرین نے کہا ہے کہ صحت، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیات کو بنیادی حیثیت دی جائے۔ اسکولوں کے نصاب میں بچوں کو نہ صرف سیلاب کے خطرات بلکہ پانی کے تحفظ اور شجرکاری جیسے پائیدار اقدامات کی تعلیم دینا ناگزیر ہے۔سماجی کارکن شازیہ آفریدی کے مطابق "یہ کام حکومت اکیلے نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے دیہاتیوں، طلبہ، میڈیا، این جی اوز اور پالیسی سازوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔”

عوام کی گواہی

لنڈی کوتل کے ایک متاثرہ دیہاتی عبد الکریم نے اپنے گھر کے ملبے پر کھڑے ہو کر کہا "ہم بارش اور سیلاب کو روک نہیں سکتے لیکن اس کے لیے تیاری ضرور کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے سبق نہ سیکھا تو اگلا سیلاب مزید ہولناک ہوگا۔” ان کا یہ جملہ دراصل پورے صوبے کے متاثرین کی اجتماعی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

 ڈیم اور شجرکاری کی ضرورت

تعمیر کریئیٹو گروپ کے سی ای او حاجی ضیاء الحق آفریدی نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ
"2010، 2015، 2020 اور اب 2025 کے سیلابوں نے ملک کو بار بار تباہ کیا ہے۔ مکانات، اسکول، اسپتال اور کھیت کھلیان اجڑ گئے ہیں۔”

انہوں نے لنڈی کوتل جیسے پسماندہ علاقوں میں غربت اور سہولیات کی کمی کو حالات کی سنگینی کا سبب قرار دیا۔ ان کے مطابق لنڈی کوتل اور دیگر اضلاع میں بارانی ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ ملک بھر میں شجرکاری مہم کو تیز کیا جائے۔ پانی کے ذخائر محفوظ کر کے زیر زمین پانی کا بحران حل کیا جائے فلاحی ادارے، خصوصاً الخدمت فاؤنڈیشن، حکومت کے ساتھ مل کر متاثرین کی بحالی میں کردار ادا کریں۔

ماہرین کا انتباہ اور امید

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ مون سون میں آسمان دشمن، دریا قاتل اور بستیاں کھنڈر بن سکتی ہیں۔ تاہم ان کا ماننا ہے کہ یہ تباہی مستقبل کے لیے ایک موقع بھی ہے۔ اگر بروقت منصوبہ بندی، یکجہتی اور ہمت کے ساتھ اقدامات کیے گئے تو یہ المیہ خیبرپختونخوا کو ایک کلائمٹ ریزیلینٹ یعنی موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والا خطہ بنانے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

نتیجہ

خیبرپختونخوا کا یہ سیلاب صرف بارش یا طغیانی کی کہانی نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے—ماحولیاتی بحران، حکومتی غفلت اور اجتماعی لاپرواہی کا۔ لیکن اگر اس سانحے کو سنجیدگی سے لیا گیا تو یہی تباہی ایک محفوظ، پائیدار اور لچکدار مستقبل کی طرف پہلا قدم ثابت ہو سکتی ہے۔

ٹائم لائن اردو ٹیم
ٹائم لائن اردو کے رپورٹرز، صحافی، اور مصنفین پر مشتمل ٹیم

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں