ہرسال موسمیاتی تبدیلی کے حوالے اقوام متحدہ کا کانفرنس آف پارٹیز (کوپ) کانفرنس کا انعقاد نومبر کے مہینے  میں ہوتا ہے جس میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کو درپیش چیلینجز پر بحث ہوتی ہے ۔جس میں دنیا کی درجہ حرارت میں غیر متوقع طور اضافہ سرفہرست ہوتی ہے۔ اس سال بھی اس کانفرنس کا انعقاد نومبر کے مہینے میں برازیل  کے شمالی علاقے میں واقع بیلم  میں منعقد ہوا جہاں پر ایمازون دریا اٹلانٹک سمندر کے ساتھ ملتا ہے۔

بیلم میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے کانفرنس آف پارٹیز  کوپ 30 کا سربراہی کانفرنس منعقد ہوا جو 10نومبر سے21 نومبر تک جاری رہا۔ ہر سال اس کانفرنس کا ایک تھیم ہوتی ہے جس پر پوری سال پھر توجہ مرکوز ہوتی ہے۔ رواں سال کوپ 30 کا تھیم تھا ” منصوبہ بندی سے عمل درآمد اور عمل کی طرف منتقلی "۔

کوپ 30 میں دنیا کے 200ممالک کے سربراہان یا حکومتی نمائندہ وفود، قومی اورعالمی غیرسرکاری تنظیموں ،صنعتی اداروں کے نمائندوں ، ماحولیات کے ماہرین، کلائمیٹ چینج ایکٹیوسٹس اور اینوائرمینٹل صحافیوں سمیت  پچاس ہزار افراد  نے شرکت کی۔ کانفرنس میں پاکستانی وفد کی سربراہی پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز نے کی اورکانفرنس سے خطاب  کیا ۔ کانفرنس  کے شرکاء اور ماہرین موسمیاتی تبدیلی نے اپنےخیالات شریک کئے کہ کس طرح انسانی زندگی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہو رہی ہے اور اس کو کس طرح کم کیا جاسکتا ہے۔

کوپ 30 کے اس کانفرنس میں پاکستان کے نوجوان سماجی کارکن، کوفی عنان  فاونڈیشن کے فیلو اور  کلائمیٹ   چینج ایکٹیوسٹ  صابر علی نےپہلی بار  شرکت کی تھی۔ کانفرس سے  واپسی پر ٹائم لائن اردو  نے کوپ 30 کے حوالے سے صابر علی کے ساتھ خصوصی انٹریوو کی ہے اورسب سے پہلے ان سے کوپ سربراہی کانفرنس کی اہمیت  کے بارے میں معلوم کیا۔

صابر علی نے کوپ کے اہمیت کے حوالے سے بتایا کہ یہ بہت اہم پلیٹ فارم یعنی فورم ہے کیونکہ اس میں دنیا کے تمام ممالک کے نمائندگی ہوتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے پوری دنیا پر منفی اثرات پر تفصیلی بحث کرتی ہے  اورا س کے تدارک کے لئے پھر منصوبہ بندی کرتی ہے۔ اور جہاں پر زیادہ منفی اثرات ہوتی ہے وہاں پر خصوصی توجہ  اور پراجیکٹس  شروع کیا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کوپ 30 اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ یہ  دنیا کہ ایک ایسے جگہ پر منعقد ہوا تھا جس کو ایمزون فارست  ریجن  کہا جاتا ہے  اور جہاں پر جنگلات کی بحالی اور پانی کے تحفظ و اہمیت پر زیادہ بات ہوئی تو یہ بھی اس کی اہمیت تھی۔

چونکہ صابر علی ایک نوجوان کلائمیٹ ایکٹیوسٹ ہے اس لئے ہم نے اس سے کوپ 30 میں نوجوانوں کے شرکت اور موسمیاتی تبدیلی کے نوجوانوں کے زندگیوں  پر منفی اثرات کے حوالے اور مستقبل کی منصوبہ بندی پر بات کی   جس کی جواب میں  صابرنے امید کا اظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں عموما اور پاکستان مین خصوصا نوجوانوں کی آبادی زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ کوپ 30 میں دوسرے کوپس کانفرنسز کے مقابلے میں بڑی تعداد میں فیمیل اورمیل نوجوانوں نےشرکت کی تھی اور مختلف پینلز ڈیسکشنز میں حصہ لیا جس کا وہ خود شاہد ہے۔

اگرچہ نوجوان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے لئے آسان شکار ہے کیونکہ نوجوان زندگی کے ہر شعبہ میں کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن کوپ 30 میں نوجوان کے حوالے سے کوئی خصوصی بات نہیں ہوئی لیکن کانفرنس کے شرکاء نے اپنے تقاریر اور پینلز ڈسکشنز میں نوجوانوں کو ضرور یہ احساس دلایا کہ نوجوان دنیا کے مستقبل ہے اور اس کے بغیر موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات پر قابو نہیں پایا جاسکتا اسلئے ان کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثر ہورہی ہے لیکن پاکستان میں خاص طور پر اس کے اثرات بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں سیلابوں ، ہیٹ ویو، کلاؤڈبرسٹ اور دوسری قدرتی آفات میں زیادہ تعداد میں نوجوان ،عمر رسید لوگوں، خواتین اور بچے سمیت ہر طبقہ متاثرہور ہا ہے۔ یہاں پرنوجوانوں کے معاشی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس سے صحت کے حوالے سے بھی ان کوکئی پیچیدگیوں کا سامنا ہے ۔ان سب مشکلات کا تانا بانا موسمیاتی تبدیلی سے ملتا ہے ۔

صابر سے کوپ 30 میں پاکستان کے  نقطہ نظر پیش کرنے کے حوالے سے  پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے کوپ 30 میں اپنا  نقطہ نظر دنیا کے سامنے موثر انداز میں پیش کیا کیونکہ پاکستان حال ہی میں ایک تباکن سیلاب کا سامنا کرچکے تھے تو اس لئے انہوں نے اپنے نقصانات اور اخراجات کے حوالے سے مفصل بات کی اور دنیا کو  پاکستان کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کے ازالے ، مستقبل کے منصوبہ بندی اور اس مدمیں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں عملی اقدامات کے لئے بھر پور تعاون کی اپیل کی کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔

صابر نے خود بھی کئی پینلز ڈسکشنز میں پینلسٹ اور ابزرور کے حیثیت سے شرکت کی جب ان سے اس ڈسکشنز کے حوالے سے معلوم کیا کہ انہوں نے وہاں پر کن موضوعات پر بات کی  تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایڈاپٹیشن اور گرین انرجی پر بات کی کہ کس طرح دنیا اس پر منتقل ہو جائیں اور یہی میں چاہتا تھا کہ اس پر موثر بات کر سکوں اور میں نے اپنی بات کی اور لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جس پر میں بہت خوش ہوں۔

اس نے مزید بتایا کہ ہمارے علاوہ بھی کوپ 30 میں زیادہ تربات اڈاپٹیشن پر ہوئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ  ہر ملک کو اڈاپٹیشن کی طرف آنا چاہئے اور رینیوبل انرجی کے شعبہ میں زیادہ سرمایہ کاری کیا جائے نہ کہ دوسرے زرائع جیسا کہ فوسل فیول وغیر میں۔ کیونکہ اس کے بغیر دنیا کہ پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کہ وہ کاربن ایمشن کو کم کریں۔ کوپ 30 کانفرنس ہال کے باہر دنیا بھر سے ائے ہوئے  کلائمیٹ ایکتیوسٹس بھی اپنے احتجاج میں گرین انرجی اور اڈاپٹیشن کے منصوبوں پرعمل درآمد کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

کوپ 30 برازیل بیلم کے اعلامیے کے چند اہم نکات

غریب ملکوں کی مدد: ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کی تیاری کے لیے جو پیسے دیے جاتے ہیں، انہیں تین گنا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اسے ‘Adaptation Finance’ کہتے ہیں۔

جنگلات کا تحفظ: دنیا کے اہم جنگلات، جیسے کہ ایمیزون (Amazon) کو بچانے کے لیے ایک بڑا نیا پروگرام شروع کیا گیا جسے ‘Tropical Forest Forever Facility’ کہتے ہیں۔

لوگوں کو آواز: مقامی قبائل (Indigenous Peoples) اور عام کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کے فیصلوں میں زیادہ اہمیت دی گئی اور ان کے زمین کے حقوق کے لیے بھی وعدے کیے گئے۔

تیل، گیس، اور کوئلے کا مسئلہ: سب سے بڑا مسئلہ فوسل فیولز (Fossil Fuels) یعنی تیل، گیس اور کوئلے کا استعمال ختم کرنا ہے۔ یہی چیزیں زمین کو گرم کرنے والی سب سے زیادہ آلودگی پھیلا رہی ہیں۔ 80 سے زیادہ ممالک نے مطالبہ کیا کہ ان کو مرحلہ وار ختم کرنے کا ایک واضح منصوبہ بنایا جائے، مگر تیل پیدا کرنے والے چند طاقتور ممالک کی لابنگ کی وجہ سے اس پر باضابطہ معاہدہ نہیں ہو سکا۔

صرف باتیں: کانفرنس میں یہ طے نہیں ہو سکا کہ فوسل فیولز سے چھٹکارا پانے اور جنگلات کی کٹائی روکنے کا واضح اور باضابطہ منصوبہ (Roadmap) کیا ہوگا؟

کوپ 30 میں جنگلات اور غریب ممالک کی مالی مدد کے لیے بڑی پیش رفت ہوئی ہے، جو خوش آئند ہے۔ لیکن سب سے اہم چیز، یعنی فوسل فیولز سے چھٹکارا پانے کا واضح راستہ، کانفرنس کے رسمی مذاکرات میں طے نہیں ہو سکا۔ یہی وہ چیز ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ لیڈر موسمیاتی تبدیلی کے خطرے پر کتنی زوردار تقاریر کرتے ہیں، لیکن جب اصل میں نقصان پہنچانے والی صنعتوں کے خلاف کھڑے ہونے کی باری آتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

گویا کانفرنس کے صدر (برازیل) نے اپنے طور پر ان منصوبوں کا اعلان تو کیا ہے، مگر یہ کوئی عالمی معاہدہ نہیں ہے جس پر تمام ممالک کو عمل کرنا لازم ہو۔ اب گیند برازیل کی کورٹ میں ہے کہ وہ ان وعدوں کو کتنا عملی جامہ پہناتا ہے۔

کوپ 30 میں پچھلے کوپس کی طرح ہر ملک اور مختلف ارگنائزیشن کے طرف سے اپنا ایک پویلین بنایا گیا تھا جس میں وہاں پر مختلف موضوعات پر ماہرین  نےبحث کیا گیا۔ پاکستان کے پویلین میں بھی پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات ، اس سے ہونے والے نقصانات اور اس کے روک تھام پر سیر حاصل بحث ہوئی اور اس حوالے سے مختلف تجاویز بھی سامنےآ ٰئے تھے۔

تاہم صابر کے بقول پاکستان کو اب اس بات سے نکلنا چاہئے کہ پاکستان میں ہر سال موسمیاتی تبدیلی کے وجہ سے  آنے والے قدرتی آفات سے کتنے نقصانات ہوئے ہیں اور اس کے بحالی کے لئے انہیں اتنے  فنڈز چاہئے بلکہ نقصانات کے پیشگی منصوبہ بندی پر کام کرنا چاہئے اور اس میں نوجوانوں کو موثر طریقے سے موبلائز کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان کے پاس پوری آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوان ہے اگر اس کو پوری طرح موبلائز کیا جائے تو موسمیاتی تبدیلی سے آنے والے نقصانات پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور پاکستان کو اس میں دیر نہیں کرنا چاہئے۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں