سرخ کپڑے پہنے اور دوپٹہ سر پر اڑھی پڑھائی میں مشغول ضلع باجوڑ کی تحصیل خارکے گاؤں کیمپ شاہ کے سات سالہ یتیم بچی روایت بی بی الہدیٰ یتیم خانے کے گرلز سیکشن خار میں پہلی کلاس کی طالبہ ہے۔ اسی یتیم خانے میں آج اس کا پانچواں دن ہے ۔ یہاں پر ان کو تعلیم کے ساتھ دیگر سہولیات بھی میسر ہے۔ وہ اپنی تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔
روایت کی والد چند سال پہلے خار بازار کے بم دھماکے میں شہید ہو چکا تھا ۔ اس کے بعد ان کی خاندان مالی مشکلات سے دوچار ہوئی جس کی وجہ سے ان کےتعلیمی اخرجات پوری نہیں کرسکتے تھے۔ روایت اپنی چھوٹی عمر کی وجہ سے روانی کے ساتھ بات نہیں کرسکتی لیکن انہوں نے وقفے وقفے سے ہم سے اپنی بات کی اور کہا کہ ” وہ الہدیٰ یتیم خانے میں داخلہ لینے پر خوشی کا اظہار کرتی ہے اور کہا کہ وہ اب پڑھ کرمستقبل میں ایک ڈاکٹربنی گی جو اس کی ایک خواب ہے” ۔
روایت کہتی ہے کہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف وہ پڑھائی سے محروم تھی بلکہ ان کی پڑوس میں بہت کم لڑکیاں سکول جاتی ہے ۔اس کی یہ خواہش تھی کہ وہ سکول جاکر اپنی پڑھائی کریں لیکن اگر ایک طرف اس کی گاؤں کی نزدیک سکول نہیں تھا تو دوسری طرف ان کی گھروالوں کی مالی حالت اس کی قابل نہیں تھی کی سکول کی اخراجات پورے کر سکیں لیکن اب ان کو امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ پڑھائی کریگی اور اپنی خواب کی تعبیر اس کو ملی گی ۔
الہدیٰ یتیم خانے باجوڑ کے منتظم اور بانی مولانا علی سردار کا کہناہے کہ الہدیٰ یتیم خانے گرلز سیکشن بنانے کا خیال اس وقت سے تھا جب انہوں نے ہوش سنبھالا کیونکہ وہ بچپن میں خود یتیم ہو گیا تھا۔ اگر چہ اس کے چچا اور خاندان کے دوسرے افراد نے اس کے تعلیم وتربیت میں کوئی کس باقی نہیں چھوڑی لیکن اس کے ساتھ ہر وقت ان دوسرے یتیم بچیوں کی تعلیم کا فکر لاحق تھا جس کا کوئی کفالت کرنے والا نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کے لئے کوئی ایسا ادارہ ہوں جس میں انہیں تعلیم اور دوسرے ضروریات زندگی مفت فراہم ہوں۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے الہدیٰ یتیم خانےگرلز سیکشن کا بنیاد رکھا اور ایک ہفتے پہلے اس میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے یتیم بچوں کے لئے بھی ایک سنٹر الہدیٰ بوائز سیکشن پشاور میں قائم کیا تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی سے چل رہا ہے۔ جس میں اس وقت پینتیس یتیم بچے زیر تعلیم ہے۔
چھ سالہ آمنہ بی بی کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ پانچ سال پہلے ان کی والد بجلی کی کرنٹ لگنے سے جاںبحق ہوا تھا۔ ان کا گھرانہ غریب ہے جو اس مہنگائی کے دور میں گھر کے اخراجات بھی پورے نہیں کر سکتے ۔ اس لئے ان کو پڑھائی کے عمر ہونے کے باوجود بھی سکول میں داخل نہیں کرایا تھا۔ لیکن آج الہدیٰ یتیم خانے میں ان کا پہلا دن ہے ۔ آمنہ کے مطابق آج وہ بہت خوش ہے کہ یہاں پر ان کو داخل کرایا گیا ہے ۔ اب وہ یہاں پر تعلیم حاصل کریگی اور وہ بھی ڈاکٹربنی گی۔
آمنہ کے مطابق ” الہدیٰ یتیم خانے میں وہ اس لئے بھی خوش ہے کہ یہ اس کے گھر کے قریب واقع ہے اور وہ کسی بھی وقت اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ مل سکتی ہے” ۔
قاری گل سعید باجوڑ تحصیل ماموند کے ایک سرکاری ہائی سکول میں استاد کے حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ وہ بھی آج یتیم بچیوں کے داخلے کے سلسلے میں الہدیٰ یتیم خانہ آیا ہوا ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف یہاں پر یتیم بچیوں کے داخلے کے لئے آیا ہے بلکہ ایک یتیم بچی جس نے دینی علوم حاصل کی ہے ۔ان کو یہاں پر مدرس کے حیثیت سے بھرتی کرنے آیا ہوں ۔ اگر ایک طرف یہاں پر یتیم بچیوں کو تعلیم وکفالت کی سہولت دستیاب ہے تو دوسری طرف ان کو یہاں پر روزگار کے مواقع بھی میسر ہور ہی ہے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ "باجوڑ میں یتیم بچیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس کی کئی وجوہات ہے لیکن سب سے بڑی وجہ ہے پر بدامنی کی حالات ہے۔ اس لئے یہاں پر اسی طرح کے یتیم خانوں کی بہت ضرورت ہے "۔ انہوں نے مولانا علی سردار کے اس کاوش کو قابل تحسین قرار دیا اور کہا کہ اب ان بچیوں کو بھی مفت تعلیم کی سہولیات میسر آئیگی جو پہلے اس سے محروم تھے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام نے یتیم کے حقوق کے تحفظ اور اس کے کفالت پر بہت زور دیا ہے۔ اس لئے بحیثیت مسلمان بھی ہمارا فرض بنتا ہے کہ یتیموں کی ہر قسم مدد کریں۔
ضلع باجوڑ کے یتیم بچوں اور بچیوں کے اعدادوشمار کا مکمل ڈیٹا کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔ اور نہ ابھی تک کسی نے اس کے اکٹھا کرنے پرکام کیا ہے۔ اس حوالے سے جب محکمہ سوشل ویلفیئر باجوڑ کے انچارج فضل آمین سے معلوم کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پندرہ سو بیواؤں اور ایک ہزار کے لگ بھگ یتیم لڑکیوں کا ڈیٹا ہے۔ جنہوں نے ہمارے ساتھ امداد کے لئےاب تک رجسٹریشن کرایا ہے جن کو ہم نے سلائی مشینیں اور چند یتیم طالبات کو وظائف دیئے جبکہ یتیم بچیوں کے بارے میں تو ہمارے پاس کوئی مکمل ڈیٹا نہیں ہے۔ جس کی بنیادی وجہ ہمارے پاس فنڈز کا نہ ہونا ہے کہ ہم اس کا سروے کریں۔ اگر مستقبل میں ہمیں اس مد میں فنڈ ملا تو ہم ضرور اس کا سروے کرینگے۔
الہدیٰ یتیم خانے کے حوالے سے ہم نے یتیم بچیوں کے ماؤں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن روایتی پشتون معاشرے اور سخت پردے کی وجہ سے انہوں نے بات کرنے سے انکار کیا لیکن اپنے پیغام میں ایک یتیم بچی کی ماں نے بتایا کہ اس یتیم خانے کے قائم کرنے پر وہ بہت خوش ہے اور ان کی بیٹی کو یہاں پر دینی اور دنیاوی دونوں علوم کے ساتھ تمام سہولیات دستیاب ہے۔ ان کی بیٹی کے چار دن ہوئے ہیں یہاں پر لیکن وہ ہر دو دن بعد اس کی ملاقات کی لئے آتی ہے کیونکہ یہ ان کے گھر کی نذدیک ہے اور اگر یہاں پر یہ یتیم خانہ نہ ہوتا تو میری بیٹی تعلیم سے محروم ہوتی۔
ساتویں مردوم شماری کے مطابق ضلع باجوڑ کی کل آبادی بارہ لاکھ ستاسی ہزار نو سو ساٹھ افراد پر مشتمل ہے۔ جبکہ علاقے میں الہدیٰ یتیم خانے کے علاقہ یتیم بچیوں کے لئے کوئی دوسرا یتیم خانہ موجود نہیں ہے۔
آٹھ سالہ مدیحہ بی بی کو بھی الہدیٰ یتیم خانے میں داخلہ مل چکا ہے۔ اس سے پہلے وہ اپنی گاؤں کی ایک سکول میں زیر تعلیم تھی لیکن وہاں پر مالی مشکلات اور پڑھائی اچھی نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ان کے بھائی نے یہاں پر داخل کرایا ہے۔ انہوں نے کہا ” کہ یہاں پر داخلہ لینے سے پہلے وہ کافی خفا تھی کہ وہ اکیلی یہاں پر کیسی وقت گزار ی گی لیکن اب یہاں پر دوسرے لڑکیوں کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہے”۔ یہاں پر تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ مختلف کھیلوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور ان کے ہر چیز کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ یہاں پر گھر جیسا ں ماحول ہے ۔
بائیس سالہ عثمان خان اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ الہدایٰ یتیم خانہ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا والد وفات پاچکا ہے ۔جس کے بعد گھر کی ساری زمہ داریاں ان کے کندھوں پر ان پڑی جس کی وجہ سے ان کے بہن بھائیوں کی پڑھائی کا سلسلہ روک گیا۔ وہ اپنی بہن کے پڑھائی کے لئے بہت فکرمند تھا ۔ لیکن جب ان کو الہدایٰ یتیم خانے کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر اپنی بہن کو یہاں آج لایا ہے تاکہ ان کو یہاں پر داخل کراسکوں۔ ان کی بہن پڑھائی میں اچھی ہے اور ان کو امید ہے کہ وہ پڑھائی کرکے مستقبل میں استانی بنی گی۔
عثمان نےکہا کہ اسی طرح کے تعلیمی ادارے یتیم بچیوں کے لئے بنانے چاہئے تاکہ ہمارے جیسے یتیم بچے پڑھائی سے محروم نہ ہوسکے۔” اگر اس طرح کے تعلیمی ادارے پہلے باجوڑ میں موجود ہوتے تو ہم تعلیم سے محروم نہ ہوتے”۔
چائلڈ پروٹیکشن آفس ضلع باجوڑ کے ایک اہلکار سلیم اللہ نے ہمیں بتایا کہ ان کے پاس بھی باجوڑ میں یتیم بچوں اور بچیوں کے بارے میں کوئی ڈیتا موجود نہیں کیونکہ وہ صرف چائلڈ لیبر پر کام کرتے ہیں ۔تاہم وہ جو سروے کرتے ہیں تو اس میں یتیم بچوں کا بھی کچھ نہ کچھ ڈیٹا ان کے پاس آتا ہے۔ جب کہ وہ مستقبل میں یتیم بچوں کا ایک مکمل سروے کرانے کا پلان رکھتے ہیں اور اس میں ان کو امید ہے کہ ان کے پاس ان ڈیٹا آئےگی ۔
قاری گل نے کہاکہ باجوڑ میں مزید اس طرح کے تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں یتیم بچیوں کو تعلیم کے مواقع میسر اسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے تعلیمی ادارے حکومت کو بنانا چاہئے لیکن حکومت اس میں ناکام ہوچکا ہے اس لئے تمام مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ اس کار خیر میں مولانا علی سردار کے ساتھ تعاون کریں۔
الہدیٰ یتیم خانے میں عصری و دینی تعلیم کے علاوہ دیگر سہولیات کے بارے میں روایت نے بتایا کہ یہاں پر ان کے ہر طرح کا خیال رکھا جاتا ہے ان کے رہائش ، خوراک ، صحت کے سہولیات کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور کراٹے کے کھیل کے لئے بھی خاص انتظام کیا گیاہے اور عصر کے وقت اور چھٹی کے دنوں میں ہم کھلتے ہیں جس میں ہم بہت خوش ہے۔
مولانا علی سردار کے مطابق انہوں نے ان تمام یتیم بچیوں کو خار کے بہترین پرائیویٹ سکول میں داخل کرایا ہے ان کے لئےٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا ہے ۔ جبکہ سکول کے آنے کے بعد الہدایٰ یتیم خانے میں ان کے رہائش، خوراک، دینی تعلیم ، صحت اور کھیل کود کے لئے بھی بہترین انتظام کیا ہے اور یہاں پر ان کی ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے لئے یہاں پر خواتین اساتذہ موجود ہے جو ان کے اپنے بچیوں کی طرح دیکھ بال کرتی ہے۔
مولانا علی سردار کے بقول ” الہدیٰ یتیم خانہ تمام قبائل اضلاع میں بچیوں کا پہلا یتیم خانہ ہے جس میں صرف یتیم بچیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات وہ مفت دے رہے ہیں”۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وقت میں ان کے ساتھ دس بچیاں داخل ہوچکی ہے ۔ جبکہ ہم ابتدائی طور پر پچاس یتیم بچیوں کو داخل کرائینگے تاہم آہستہ آہستہ اس تعداد کو بڑھا ئینگے۔ اس میں پہلی کلاس سے لیکر میٹرک تک ہم بچیوں کو داخلہ دے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں تمام قبائلی اضلاع کے یتیم بچیوں کو ہم داخلہ دے رہے ہیں اس لئے وہاں کے یتیم بچیاں بھی ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔
روایت کے بقول ان کے گاؤں میں کئی اور بچیاں ہے جن کے والدین وفات پاچکے ہیں اور ان کے کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔وہ سب یتیم بچیاں چاہتی ہے کہ وہ پڑھائی کریں لیکن پہلے تعلیم حاصل کرنے کی سہولت نہیں تھی تاہم اب وہ بھی یہاں الہدٰیٰ یتیم خانے میں داخلہ لے گی اور دل جمی سے تعلیم حاصل کریگی۔