بتیس سالہ سفیر اللہ قبائلی ضلع باجوڑ میں اپنے تحصیل نواگئی کے دور افتادہ گاؤں کمانگرہ میں لوگوں کو مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی سیشنز میں مصروف ہے۔ وہ اس مہم میں صرف ایک مقصد اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں کا اس کے علاقے کے تمام لوگ ان احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو کر بیماریوں سے بچ سکیں۔ پچھلے 3سالوں سے وہ ہلال ا حمر پاکستان باجوڑ برانچ کے ساتھ ایک رضاکار کے حیثیت سے کام کررہا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی کسی مشکل کو اپنے کام میں آڑے نہیں آنے دیا۔
وہ اس کام کو ایک مقدس فریضہ کے طور پر کر رہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اس نے تمام تر اپنی توجہ ان بیماریوں کے ٓگاہی پر مرکوز کر رکھا ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے سے پھیلتی ہے۔ تاکہ کوئی فرد آگاہی کے بغیر نہ رہ جائے۔ اب تک اس نے اپنے تحصیل نواگئی کے گاؤں ناواگئی ،کمانگرہ،پڑمخئی،شیخ جہانزادہ کلے،برہ نواگئی،مامدگٹ اوردیگر مضافات کے گاؤں میں درجنوں آگاہی سیشنز کر چکے ہیں اور سینکڑوں لوگوں کو مختلف جان لیوا بیماریوں سے متعلق آگاہی دے چکے ہیں۔
سفیراللہ نے ہلال احمر پاکستان باجوڑ کے طرف سے کئی تربیتی کورس کئے ہیں۔ مختلف خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے آگاہی مہم سے پہلے وہ اپنے علاقے میں لوگوں کو کرونا وائرس اور بارودی سرنگوں سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی کے سیشنز میں مصروف تھا۔ لیکن اب اس نے انہوں نے بیماریوں کے متعلق لوگوں کو آگاہی دینا اپنا فریضہ سمجھا ہے۔ اس کو ہلال احمر پاکستان باجوڑ برانچ کے طرف سے بینر وغیرہ دیا گیا ہے جس پر بچاؤ کے احتیاطی تدابیر کے بارے میں جملے درج ہیں۔
ہلا ل احمر پاکستان ضلع باجوڑ برانچ کے فراہم کردہ معلومات کے مطابق موجود وقت میں ان کے ساتھ 1500 رضاکار رجسٹرڈ ہیں جس کا لسٹ انہوں نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ شیئر کیا ہے اور اب تک اس کے 700رضاکار فیلڈ میں موجود ہیں جو مختلف ایمرجنسی کے حالات میں مشکلات میں پھنسے ہوئے لوگوں کے مدد کرتے ہیں۔ ان کے مزید کہنا تھا کہ مختلف بیماریوں کے روک تھام کے حوالے سے ہمارے رضاکار با جوڑ کے گاؤں گاؤں میں جاکر لوگوں کو اس وبائی ا مراض کے متعلق اگاہی دے رہے ہیں۔ لوگ ان احتیاطی تدابیر پر عمل کر رہے ہیں جس کے بہت حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رضاکار فورس کسی بھی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈھی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک خواہ کتنا ترقیافتہ کیوں نہ ہوں وہ کسی بھی ایمرجنسی یعنی آفات کے دنوں میں بحالی کے کاموں کو رضاکاروں کے بغیر نہیں کرسکتا۔ اس لئے رضاکار کسی بھی معاشرہ کا ایک اہم جز ہوتا ہے۔
پاکستان میں پہلی بار روشنیوں کے آلودگی کم کرنے پر کام کرنے والے رضا کار تنظیم سٹاری نائٹ فاؤنڈیشن کے بانی و چیف ایگزیکٹیو آفیسر آئزہ زاہد نے کہا کہ وہ پاکستان میں روشنیوں کے بے جا استعمال یعنی روشنیوں کے آلودگی کم کرنے اور ستاروں کو بچانے پر کام کررہے ہیں ۔ کیونکہ ان مصنوعی روشنیوں کی وجہ سے ستارے کہیں کھور ہے ہیں ۔ اس کی تنظیم سٹاری نائٹ فاونڈیشن پورے پاکستان میں کام کررہا ہے ۔ موجودہ وقت میں ان کے ساتھ اس فاؤنڈیشن میں پچاس لوگ کام کررہے ہیں اور فخر کی بات یہ ہے کہ اس میں تمام سٹاف یعنی کام کرنے والے لوگوں رضا کار ہیں جن کو ان کے کام کا کوئی اجرت نہیں ملتا۔ ان رضا کاروں کے مدد سے ہماری تنظیم کے سارے امور چل رہے ہیں اس لئے میں رضا کاروں کی اہمیت سے باخبر ہوں ۔
آئزہ نے بتایا کہ اگر یہ رضا کار نہ ہوتے تو ہمارے فاؤنڈیشن کے امور ٹھپ ہو کر رہ جاتے کیونکہ نہ کسی کو تنخواہیں یا کام کے پیسے دے سکتے ہیں ہمارےنہ پاس تخواہوں کے لئے کوئی بندوبست ہے ۔ ہمارا فاؤنڈیشن کا کام لوگوں میں سوشل میڈیا سمیت مختلف پلیٹ فارمز کے زریعے آگاہی پھیلانا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اپنے رضاکاروں کو جو بھی ٹاسک حوالہ کیا ہے تو انہوں نے اس کو بروقت مکمل کیا ہے اور اس میں کسی قسم کے کوتاہی کا مظاہر نہیں کیا ہے۔اس لئے میں سمجھتی ہوں کے کسی بھی ادارے کے کامیابی یا ناکامی کا انحصار ان میں موجود رضاکاروں پر ہوتا ہے کیونکہ وہ بغیر کسی لالچ کے لوگوں کے خدمت کے لئے اپنا قیمتی وقت صرف کرتا ہے۔
انہوں نے تمام نوجوانوں سے اپیل کی ” کہ وہ ضررو رضاکارانہ کاموں میں حصہ لیں اگر ایک طرف وہ اس سے لوگوں کی خدمت کرینگے تو دوسری طرف اس کو تجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ملے گی "۔
پوری دنیا سمیت غیر سرکاری فلاحی تنظیموں میں زیادہ تر کام رضاکاروں کے زریعے کیا جاتا ہے ۔ ضلع باجوڑ کے فلاحی تنظیم جبران ویلفیئر فاؤ نڈیشن کے چیئرمین نیک رحمان بھی پچھلے کئی سالوں سے ایک سماجی کارکن اور رضاکار کے حیثیت سے اپنے فاؤنڈیشن کے زریعے ضلع باجوڑ اور خیبر پختون خواہ کے مختلف علاقوں میں کام کررہے ہیں اور اس کے ساتھ باجوڑ کے علاوہ مالاکنڈ ڈویژن میں رضاکاروں کے شکل میں ایک نیٹ ورک کام کررہا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ نادار لوگوں ، یتیموں بچوں اور طلباء کے ساتھ مختلف شکلوں میں مدد کرتے ہیں اور یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ ان ضرورمند لوگوں کا صحیح ڈیٹا جمع کرنا اور پھر ان کو فوڈز پیکجز، نان فوڈز ائٹمز اور کیش رقم تقسیم کرنا ایک منظم ٹیم ورک کے بغیر ناممکن ہے ۔
لیکن یہ سب کام جبران ویلفیئر فاؤنڈیشن اپنے سینکڑوں رضاکاروں کے زریعے خوش اسلوبی سے سرانجام دیتا ہے ۔ جس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے علاوہ ہر عمر کے افراد ان کے ساتھ شامل ہے۔ تو اس لئے میرے خیال میں کسی بھی آرگنائزیشن کے لئے رضاکار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ آج کل سو شل سیکٹر میں جو انقلاب آیا ہے تو یہ صرف اور صرف رضاکاروں کے وجہ سے آیا ہے۔
5 دسمبر کو عالمی یوم رضاکار کے طور پر منانا اس بات کی دلیل ہے کہ رضاکاروں کی اہمیت وقت کے ساتھ مزید بڑ ھ گئی ہے ۔ اس لئے نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ ہر عمر کے لوگوں کو رضاکارانہ کاموں میں ضرور حصہ لینا چاہئے ۔
سفیر اللہ نے بوڑھوں،جوانوں،بچوں اور خواتین کو بھی کرونا وائرس سمیت دوسرے خطرناک اور وبائی بیماریوں سے بچاؤ کے بارے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے آگاہی دی ہے ۔ انہوں نے کرونا وائرس کے وبا ء کے دوران اگاہی سیشنز کے حوالے سے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ کرونا وباء کے دوران مامدگٹ کے علاقے میں کرکٹ گراؤنڈ میں گیا جہاں پر کرکٹ میچ ہورہا تھا اور کھیلاڑیوں کے ساتھ تماشائی بھی بلکل کرونا وائرس کے احتیاطی تدابیر کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے جب اس نے انہیں کرونا وائرس سے بچاؤ کے احتیاطی تدابیر کے بارے میں گراؤنڈ میں ایک آگاہی سیشن لیا تو تمام کھیلاڑیوں اور تماشائیوں نے اس پر عمل کیا اور اسی وقت کرکٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا جو اس کے لئے بڑی خوشی کا لمحہ تھا۔
سفیراللہ کچھ لوگوں کے روئیوں کے بارے میں گلہ بھی کرتے ہیں کہ وہ بغیر پیسوں کے نامساعد حالات میں لوگوں کے خدمت کے لئے سرگرم عمل ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے بھی ماں باپ ہیں خاندان ہے ہم بھی کسی کے پیارے ہیں لیکن کچھ لوگ ان احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کرتے اور اس کو بغض اوقات ایسے باتیں کرتے ہیں جس سے اس کے دل خفہ ہو جاتے ہیں۔سفیراللہ کہتے ہیں ” اس کو اس عظیم کام کے لئے پیسوں کے نہیں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے "۔
رضاکاروں کے کام کی اہمیت کی وجہ سے17 دسمبر 1985 کو پہلی بار اقوام متحد نے ایک قرارداد کے زریعے 5 دسمبر کو رضاکاروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کی منظوری دی ۔ اب ہر سال 5 دسمبر رضاکاروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں رضاکاروں کے کام کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے۔