پاکستان میں نان-فار مل یاغیر رسمی تعلیم (Non-Formal Education – NFE) کا نظام ایک متبادل اور مؤثر تعلیمی ماڈل کے طور پر تیزی سے اُبھر کر سامنے آیا ہے، جس نے اسکول سے باہر بچوں (Out-of-School Children – OOSC) کے بحران سے نمٹنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن (PIE) کی جانب سے جاری کردہ ”نان-فارمل ایجوکیشن شماریاتی رپورٹ 2022-23” کے مطابق، اس وقت ملک بھر میں 31ہزار 522 نان-فارمل تعلیمی مراکز کام کر رہے ہیں، جن میں 33ہزار 733 اساتذہ تعینات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مزکورہ مراکز میں دس لاکھ 73ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً 26.2 ملین بچے اسکول سے باہر ہیں، جن کی تعلیم کے لیے نان-فارمل تعلیمی ادارے ایک اُمید کی صورت بن کر سامنے آئے ہیں۔ غیر رسمی تعلیم کے حصول کے لئے قائم مراکز میں 74 فیصد مراکزمخلوط نظام تعلیم فراہم کررہاہے۔۔ اعداد و شمار کے مطابق، نان-فارمل تعلیم میں مجموعی طور پر 57 مرد جبکہ 84 فیصد خواتین استاتذہ تعینات ہے۔ آزاد کشمیر میں خواتین اساتذہ کا تناسب سب سے زیادہ 93 فیصد جبکہ بلوچستان میں سب سے کم 51 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔

تعلیم کی اس لچکدار شکل کا سب سے نمایاں پہلو Accelerated Learning Program (ALP) ہے، جو پرائمری اور مڈل سطح پر 18 ماہ کے مختصر عرصے میں نصاب مکمل کروا کر بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتا ہے۔ سال 2022-23 میں غیررسمی تعلیم کے مراکز کی تعداد 1,442 ہو چکی ہے، جہاں 39,917 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ پچھلے سال یہ تعداد صرف 630 مراکز تک محدود تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بچوں کے مستقل اسکول آنے کی شرح 70 فیصد ہے، جب کہ روایتی نان-فارمل تعلیم (NFBE) میں یہ صرف 22 فیصد ہے۔

اسلام آباد میں جاری Zero OOSC Campaign کو اس ماڈل کی کامیاب مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں صرف چھ ماہ میں 87,000 بچوں کی نشاندہی کی گئی، اور 75,000 بچوں کو نان-فارمل تعلیم کے دائرے میں لایا گیا۔ اس مہم کو JICA-AQAL کی تکنیکی معاونت حاصل تھی، جس نے مقامی حکومت، نجی شعبے، اور مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر موثر نگرانی اور داخلہ مہم چلائی۔

رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ نان-فارمل تعلیم کے 95.5 فیصد مراکز NFBE/ALP پرائمری سطح کے ہیں، جبکہ صرف 4.5 فیصد مراکز بالغ خواندگی کے لیے مختص ہیں۔ ان مراکز میں صرف 32,932 بالغ افراد تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ ملک میں 10 سال اور اس سے زائد عمر کے 67 ملین ناخواندہ افراد موجود ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بالغ خواندگی کے شعبے کو زیادہ وسائل اور توجہ کی ضرورت ہے۔

اعداد و شمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ نان-فارمل تعلیم میں 0.7 فیصد طلبہ غیر ملکی ہیں، جن میں 99.6 فیصد افغان اور 0.4 فیصد برمی بچے شامل ہیں۔ اسی طرح 0.61 فیصد طلبہ غیر مسلم ہیں، جن میں سے 64 فیصد ہندو، 35 فیصد مسیحی اور دیگر اقلیتیں شامل ہیں۔ ان غیر مسلم طلبہ میں بھی 56 فیصد بچیاں ہیں، جو صنفی برابری کی ایک مثبت علامت ہے۔

رپورٹ کے مطابق نان-فارمل تعلیم کے شعبے میں 91 فیصد کردار سرکاری اداروں کا ہے، جب کہ نجی و ترقیاتی شعبہ صرف 9 فیصد حصہ رکھتا ہے، جو کہ گزشتہ سال کے 19 فیصد کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔ رپورٹ اس پہلو پر زور دیتی ہے کہ نجی و غیر سرکاری تنظیموں کو دوبارہ متحرک کر کے تعلیمی میدان میں شامل کیا جائے۔

سفارشات:

غیر رسمی تعلیم کو قومی سطح پر وسعت دی جائے؛بالغ خواندگی کے مراکز کی تعداد اور معیار میں اضافہ کیا جائے؛نان-فارمل تعلیمی مراکز میں فنی تعلیم کو شامل کیا جائے؛غیر سرکاری اداروں کی شراکت داری میں اضافہ کیا جائے تاکہ تعلیم سب کے لیے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو۔

نان-فارمل تعلیم کا بڑھتا ہوا دائرہ اس بات کی گواہی کرتا ہے کہ اگر وسائل کو مؤثر انداز میں استعمال کیا جائے، اور پالیسی سازی میں ڈیٹا کو بنیاد بنایا جائے، تو پاکستان اسکول نہ جانے والے بچوں کے مسئلے سے نہ صرف نجات پا سکتا ہے بلکہ شرح خواندگی میں بھی انقلابی بہتری لا سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست، سماج اور ادارے نان-فارمل تعلیم کو قومی ترجیح بنائیں۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں