افغانستان کے دارالحکومت قابل کے رہائشی زاہدہ صدیقی باختر یونیورسٹی قابل میں بزنس ایڈمنستڑیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتی تھی۔ لیکن تین سال قبل افغانستان میں طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کی گھروں سے باہر نہ نکلنے اور خاندان والوں کو جان سے مارنے کے دھمکیوں کی وجہ سے وہ اپنے خاندان سمیت پاکستان کے شہر پشاور میں تعلیم جاری کرنے کی امید سے آئی لیکن یہاں پر مالی مشکلات اور قانونی اسناد نہ ہونے کی وجہ سے اس کی پڑھائی کا خواب ادھورہ رہ گیا۔
تین سال قبل افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نے ہزارہا افغان والدین کو پاکستان ہجرت پر مجبور کر دیا۔ لیکن اپنی بچیوں کے لیے تعلیم کے متلاشی والدین کا خواب پاکستان میں بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار کے چالیس سالہ سید آغا بھی نے بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے خاطر پاکستان ہجرت کیا ہے، وہ ایک امدادی ادارے میں نوکری کرتے تھے۔ اگست 2021 میں طالبان کے بر سر اقتدار آتے ہی ان کے ادارے کو اپنا کام سمیٹنا پڑا اور اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت اُنہیں بھی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔
چند ماہ کے انتظار کے بعد سید آغا پر یہ واضح ہو گیا کہ طالبان کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم پر لگائی گئی پابندی ہٹائے جانے کے مستقبل قریب میں کوئی آثار نہیں اور اُنہوں نے اپنے خاندان سمیت پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے طورخم کے راستے پشاور پہنچے اور وہاں سے پشاور کے علاقے تاج آباد میں بورڈ بازار میں ڈیرہ لگایا۔
بورڈ بازار کو چھوٹا کابل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کی زیادہ تر آبادی افغان مہاجرین پر مشتمل ہے۔ یہاں زیادہ تر کاروبار بھی افغانیوں کا ہے اور بورڈ بازار آتے جاتے آپ کو افغانستان کی دری زبان بھی سننے کو ملے گی۔
نا صرف بورڈ بازار پشاور کے قریب ہے بلکہ یہاں افغان بچوں کے لیے کئی پرائیویٹ اسکول بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود سید آغا کو اپنے بچوں کے تعلیمی مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا کیونکہ باقاعدہ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے سید آغا ان پرائیویٹ اداروں کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔
زاہدہ صدیقی کے والد حیات صدیقی قابل میں محکمہ جیل و خانہ جات میں ملازم تھے، حیات صدیقی کے تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں جو پہلے افغانستان میں پڑھتے تھے لیکن اب اس کے دس سالہ بیٹی عائشہ صدیقی، آٹھ سالہ بیٹا عزیز صدیقی پشاور کے بورڈ بازار میں افغان ماہجرین کے پرائیوٹ سکول میں پڑھتے ہیں جبکہ بیس سالہ زاہدہ صدیقی اسی ادارے میں بہت کم اجرت پرپڑھاتی ہیں اور ایک بیٹا بورڈ بازار میں ایک دوکان میں مزدوری کررہا ہے۔
حیات صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا تھا لیکن اب یہاں پر مالی مشکلات کی وجہ سے اس کے دو بچوں کے تعلیم حاصل کرنے خواب ادھورہ رہ گیا۔ کیونکہ یہاں پر کمائی بہت کم ہے جس سے وہ بامشکل زندگی گزار رہے ہیں جبکہ تعلیم حصول کیلئے اس کو بھاری رقم کمانے کی ضرورت تھی۔
زاہدہ صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ بزنس اور فنانس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد بینک میں نوکری کی خواہش مند تھی لیکن ان کی ماسٹر ڈگری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواب ادھوارہ رہ گیا اب وہ صرف اپنے بھائی اور بہن پر پڑھائی کیلئے اسی ہی سکول میں پڑھائی رہی ہے۔
پشاور میں افغان مہاجرین بورڈ بازار، تاج آباد، حاجی کیمپ سمیت 54 افغان کیمپوں یا بستیوں میں آباد کیا گیا ہے ان کیمپوں میں صورتحال اور بھی گھمبیر نظر آتی ہے۔ یہ بستیاں پاکستان میں مقیم لاکھوں افغان باشندوں کی ایک تہائی آبادی پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہاں موجود تعلیمی سہولیات اِن کی ضروریات کے لیے قطعی ناکافی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کے بچوں کیلئے حکومت پاکستان نے یو این ایچ سی آر کے تعاون سے خیبر پختونخواہ میں 105 اسکول قائم کئے ہیں جن میں تقریباً 55 ہزار افغان بچے پڑھتے ہیں۔ ان بچوں میں لڑکیوں کی تعداد محض ساڑھے بارہ ہزار ہے۔ اس کے علاوہ، پشاور کے افغان پرائیوٹ سکول یونین کے عہدیدار ناصر حسین کا کہنا ہے کہ پشاور میں پندرہ کے قریب ایسے پرائیوٹ سکول ہیں جہاں ایک اندازے کے مطابق پندرہ ہزار افغان بچے پڑھ رہے ہیں۔
لیکن مقامی امدادی اداروں کے اندازوں کے مطابق، تعلیم کی متلاشی افغان لڑکیوں کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔
ٹائم لائن اردو کی تحقیقات کے مطابق پاکستان میں افغان لڑکیوں کی تعلیم کے راستے میں ایک نہیں، کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اِن رکاوٹوں میں سے سب سے پہلے تو افغان بستیوں میں موجود روزگار کے مواقعوں کی شدید کمی ہے، جس کی وجہ سے اکثر افغان مہاجرین کو اِن بستیوں سےنکل کر قریبی شہری علاقوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ تاہم، اگر شہری علاقوں میں اُن کو روزگار ملتا بھی ہے تو وہاں کم خرچ اسکول نا ہونے کے برابر ہیں۔
پشاور حاجی کیمپ کی رہائشی فاطمہ نے سال 2020 میں اپنی سیکنڈری سکول کی تعلیم مکمل کی۔ لیکن اب اُن کی زندگی گھر کی چاردیواری تک محدود ہو کے رہ گئی ہے۔ فاطمہ کا کہنا ہے اُن کے والد حاجی کیمپ اڈے میں ریڑھی پر تازہ میوہ فروخت کرتے ہیں جس سے بمشکل گھر کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ اعلی تعلیم کے اخراجات کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
روزگار کی قلت کے ساتھ ساتھ سرکاری کاغذات کی عدم دستیابی بھی ایسی افغان لڑکیوں کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ پشاور کے افغان پرائیوٹ سکول یونین کے عہدیدار ناصر حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود بہت سے افغان مہاجرین کے پاس پی او آر کارڈز یا شناخت کی دیگر دستاوزات نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلے نہیں دیئے جاتے۔
تاہم، خیبرپختونخوا کے محکمہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے ایڈشنل سیکرٹری جنرل عبدال اکرم کا کہنا ہے کہ افغان بچوں کے پاکستانی پرائمری سکولوں میں داخلے کے لیے اِن کے یا اِن کے والدین کے کسی قسم کے دستاویزات کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی بچوں کیلئے بورڈ امتحان دینے میں کوئی مسئلہ ہے۔
لیکن افغان مہاجرین کے مالی حالات کے پیش نظر، تین سے چار ہزار کی ماہانہ فیس لینے والے پرائیویٹ اسکول تاحال افغان مہاجرین کی بچیوں کی پہنچ سے باہر نظر آتے ہیں۔ایک اور اہم مسلہ معاشرتی رویّوں کا بھی ہے۔ ڈاکٹر محمد نُور نے پبلک ہیلتھ میں اپنی ماسٹرز ڈگری کے لیے اپنے تھیسس کے لیے ”پاکستان میں سکول جانے والی افغان لڑکیوں کیلئے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل” کا موضوع چُنا۔ اُن کا کہنا ہے کہ بہت سے پاکستانی اسکولوں میں افغان بچوں کو ہمدردی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اُن کے والدین مقامی آبادی کے مہاجرین کی جانب سخت رویے کے پیش نظر اپنے بچوں کو پاکستانی اسکولوں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی کُل تعداد کا درست تعین ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پاکستان میں پروف آف رجسٹریشن کارڈ (پی او آر کارڈ) رکھنے والے افغان مہاجرین کی تعداد تقریباً 14 لاکھ ہے جبکہ افغان سیٹزن کارڈ رکھنے والے افغانیوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق آٹھ لاکھ پچاس ہزار کے قریب ہے۔ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے علاوہ لگ بھگ چھ لاکھ سے زیادہ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین بھی پاکستان میں قیام پزیر ہیں۔
پاکستان میں موجود اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان مہاجرین کے ترجمان قیصر آفریدی کا کہنا ہے کہ اِن میں سے تقریباً 30 فیصد یا ایک تہائی افغان 54 افغان کیمپوں یا افغان بستیوں میں رہتے ہیں جبکہ 70 فیصد لوگ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کی پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی کُل تعداد کا یہ تخمینہ کِس حد تک درست ہے۔
پشاور کے علاقے تاج آباد میں رہائش پذیر افغان مہاجرین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے اور افغان قومی کمیٹی کے سربراہ میاں خیل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین غیر قانونی طریقے سے پاکستان آچکے ہیں جن کی کُل تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
تاہم، میاں خیل کے اندازے کے مطابق، یہ تعداد پچاس لاکھ تک ہو سکتی ہے اور اِس کی ایک اکثریت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ اس سے بھی زیادہ مشکل کام اِن مہاجرین میں اسکول جانے کی عمر والے بچوں کا حساب لگانا ہے۔
شمس صافی پچھلے 25 برسوں سے بین الاقوامی ادارے یونیسف کے ساتھ مختلف منصوبوں پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ یونیسف اور ڈبلیو ایچ او نے کسی بھی آبادی کی کُل تعداد کی بنیاد پر اُس میں سے دس سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں کی تعداد معلوم کرنے کے لیے ایک فارمولہ بنایا ہے جو اِن حالات میں مہاجرین بچوں کی تعداد معلوم کرنے میں کافی مدد کرتا ہے۔
اس فارمولے کے تحت پاکستان میں آباد کُل افغانوں میں سے تقریباً ایک تہائی آبادی دس سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ اور اگر بچوں کی عمر کی حد پندرہ سال رکھی جائے تو اُن کی کُل تعداد تقریباً پچاس فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
اگر میاں خیل کا اندازہ درست ہے اور پاکستان میں موجود کُل افغان آبادی پچاس لاکھ کے قریب ہے تو شمس صافی کے مطابق اس میں پندرہ سال سے کم عمر کے تقریباً ساڑھے بائیس لاکھ بچے شامل ہیں جِن میں سے لگ بھگ بارہ لاکھ لڑکیاں ہیں۔
پشاور یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والی افغان مہاجر جینا جو اب اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری ادرے میں افغان مہاجرین کی فلاح و بہبود سمیت ان کی قانونی دستاوزات میں مدد فراہم کرنے پر کام کرتی ہے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان لڑکیوں میں 20 فیصد سے بھی کم لڑکیاں سیکنڈری سکول تک کی تعلیم حاصل کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد فارسی بولنے والوں کی ہیں۔
بورڈ بازار میں ڈاکٹر محمد نُور نے پبلک ہیلتھ میں اپنی ماسٹرز ڈگری کے لیے اپنے تھیسس کے لیے ”پاکستان میں سکول جانے والی افغان لڑکیوں کیلئے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل” کا موضوع چُنا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی 10 فیصد تک لڑکیاں سکول جاتی ہیں باقی سکول نہیں جاتی۔ انہوں نے کہا پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے علیحدہ تعلیمی نظام نہ ہونے کی وجہ سے پشتون قوم کے زیادہ تر مرد اپنے بیٹیوں کو سکول نہیں بھیجتے ہیں۔
درسی زبان بھی پچھلے چند برسوں میں ایک نئے مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ لگ بھگ چار سال قبل، پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے قیام کی ممکنہ طوالت کے مد نظر یو این ایچ سی آر نے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کے اسکولوں میں پاکستانی نصاب پڑھایا جائے گا۔ اس حوالے سے پشاور ناصر باغ روڈ پر موجود ایک افغان پرائیوٹ سکول کے پرنسپل امان اللہ نصرت کا کہنا ہے کہ پہلے افغان اسکولوں میں نصاب پشتو، دری اور فارسی زبان میں پڑھایا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کی جگہ اردو زبان میں نصاب پڑھایا جاتا ہے جس کو سمجھنے میں افغان بچوں کو مشکل پڑتی ہے اور اسی وجہ سے بہت سے طلباء نے سکول آنا چھوڑ دیا ہے۔
نوشین اورکزئی پشتون علاقوں میں خواتین کے حقوق اور خواتین میں تعلیم کے شعور کی بیداری کیلئے کام کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسائل صرف افغان لڑکیوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستانی لڑکیاں بھی اکثر اِن مسائل کا شکار نظر آتی ہیں۔ اُن کے مطابق پاکستانی لڑکیوں کیلئے بھی اسکول ضرورت سے کہیں کم ہیں جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے کم آگاہی اور معاشی مسائل کی بناء پر بھی بڑی تعداد میں پاکستانی لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں۔ اُن کے مطابق، افغان لڑکیوں کیلئے یہ سب مسائل دوگنا ہو جاتے ہیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا کے محکمہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل عبدال اکرم کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کے لئے خیبرپختونخوا کے سکولوں میں کوئی مخصوص کوٹہ یا بجٹ مختص نہیں کیا گیا ہے۔ اُن کے مطابق، صوبے کا تعلیم نظام ہر کسی کے لیے ہے جس میں بنیادی تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔
پاکستانی حکام کا یہ رویہ، جو بظاہر لاکھوں افغان بچیوں کے تعلیمی مسائل سے آنکھیں چُرانے کے مترادف ہے، کسی حد تک بین الاقوامی برادری میں بھی نظر آتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد روزانہ، بلا ناغہ، افغان بچیوں کی افغانستان میں تعلیم پر پابندی کے خلاف ٹوئٹ تو کرتے ہیں لیکن پاکستان میں موجود افغان بچیاں ابھی اُن کی توجہ کا مرکز نظر نہیں آتیں۔ پاکستان میں افغان لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ٹائم لائن اردو نے ملالہ فنڈ سے بھی رابطہ کیا۔ لیکن انہوں نے اس حوالے سے حکومت پاکستان یا کسی اور ادارے کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں معلومات دینے سے معذرت کر لی۔
پاکستان میں موجود افغان سفارتی اہلکار بھی اس معاملے میں فعال نظر نہیں آتے۔ پشاور میں قائم افغان قونصلیٹ کے تعلیمی اتاشی مولوی عبدالقدیر کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اپنے طلبہ کی مدد کیلئے پاکستانی حکام اور دیگر اداروں سے تعاون کیلئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں موجود افغان بچوں کے لیے افغانی نصاب بحال کیا جائے۔
لیکن اُن کی یہ کاوشیں کس قدر مخلص ہیں اِس کی ایک جھلک ہمیں حال ہی میں افغان قونصل جنرل مولوی محب اللہ کی اُس تقریر میں نظر آتی جو اُنہوں نے ستمبر سے نئے نصابی سال شروع ہونے کی تقریب میں کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے لئے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کی بھی ضرورت ہے لیکن افغان لڑکیوں کے لیے مخلوط نظام تعلیم مناسب نہیں۔
مولوی محب اللہ کے مطابق افغان حکومت ان کے لئے الگ تعلیمی نظام بنانے کی کوشش کر رہی ہے اور جلد ہی ان کیلئے اس نظام کے تحت تعلیم حاصل کرنے کے لئے سازگار ماحول فراہم کر دیا جائے گا۔
اسی طرح نائب افغان قونصلر مفتی نوراللہ ہوتک نے خیبر میڈیکل کالج میں افغان طلبہ کی ایک تقریب میں کہا کہ امارت اسلامی کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی محض پروپیگنڈہ ہے۔ اُن کے مطابق افغانستان میں تعلیمی نصاب کی اصلاح پر کام جاری ہے، نویں جماعت تک نصاب تبدیل کر دیا گیا ہے اور جوں ہی یہ عمل مکمل ہو گا طالبات پر تعلیم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ امارتِ اسلامی افغانستان خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندی کے حق میں نہیں ہے۔ یہ محض ایک عارضی فیصلہ ہے جو ہر قسم کے پروپیگینڈا کا نشانہ بن گیا ہے لیکن حالات سازگار ہوتے ہی طالبات کے تمام تعلیمی ادارے کھول دیئے جائیں گے۔
ایسے دعوں سے قطع نظر موجودہ حقیقت یہ ہے کہ افغان لڑکیوں کی افغانستان میں تعلیم پر پابندی کو دو برس ہو چکے ہیں اور یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ افغان حکومت کی رائے میں سازگار حالات کیا ہوتے ہیں اور اُنہیں معرضِ وجود میں آنے میں ابھی کتنا وقت لگے گا۔ لیکن پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی بچیوں کی تعلیم میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ محض پلاننگ اور توجہ کا فقدان ہے۔