وادی تیراہ کے علاقے ورسک میں قائم گورنمنٹ ہائی سکول کے پانچویں جماعت کا طالب علم وقاص خان روزانہ تین کلومیٹر پیدل سفر طے کرکے سکول پہنچتا ہے، تاہم حالیہ بدامنی نے نہ صرف اس کے تعلیمی سلسلے کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے پورے خاندان کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ علاقے میں کسی بھی وقت ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے، جس کا نشانہ کوئی بھی بن سکتا ہے۔

وقاص کے مطابق، اسکول کا راستہ خطرات سے خالی نہیں کیونکہ وادی میں سیکورٹی فورسز اور مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہتی ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ کئی بار دورانِ تدریس فائرنگ شروع ہو جاتی ہے جس کے باعث طلبہ کو شام تک کلاس رومز میں اکثر بھوکے پیاسے محصور رہنا پڑتا ہے۔

وقاص کے والد، جو پیشے کے لحاظ سے کاشتکار ہیں، کہتے ہیں کہ گذشتہ چند مہینوں سے وادی میں حالات بہت خراب ہو چکے ہیں، اور بہت سے والدین بچوں کو سکول بھیجنے سے گریز کر رہے ہیں تاکہ ان کی جان محفوظ رہے۔ ان کے بقول، حال ہی میں اسکول کے قریب جھڑپ کے باعث تمام بچے اسکول میں محصور ہو گئے تھے، جنہیں شام کے وقت فائرنگ رکنے کے بعد گھر بھیجا گیا۔

بدامنی کی لہر نے نہ صرف تعلیم کو متاثر کیا ہے بلکہ کئی بچے گھروں کے آس پاس کھیلتے ہوئے ڈرون یا گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ علاقے میں 95 فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے، جن میں نصف سے زیادہ خواتین بھی شامل ہیں۔ متعدد خواتین بھی حادثات کے نذر ہو چکی ہیں۔

45 سالہ رحمت اللہ، جو سڑی کنڈؤ کا رہائشی ہے، نے بتایا کہ چند دن قبل ان کی 65 سالہ والدہ صبح سات بجے گھر سے باہر نکلتے ہوئے فائرنگ کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے دوران نہ طبی امداد کا انتظام تھا، نہ ہی راستے کھلے تھے کیونکہ علاقے میں کرفیو نافذ تھا۔

وادی تیراہ، جو ضلع خیبر کا دورافتادہ علاقہ ہے، پشاور سے 130 کلومیٹر اور باڑہ بازار سے 120 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ 20 نومبر 2019 کو حکومت نے اسے باقاعدہ تحصیل کا درجہ دیا تھا، مگر عملی طور پر کوئی انتظامی بہتری نہ آ سکی۔ 2013 میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے باعث مقامی آبادی نے نقل مکانی کی، جبکہ 2014 میں واپسی شروع ہوئی۔ کچھ سال امن کے بعد اب دوبارہ صورتحال بگڑ چکی ہے، اور دوبارہ نقل مکانی کے خدشات منڈلا رہے ہیں، مگر مقامی لوگ مزاحمت کر رہے ہیں۔

محکمہ تعلیم کے مطابق، بدامنی سے قبل وادی میں 15 سرکاری سکولوں میں 5 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم تھے، مگر اب یہ تعداد نصف سے بھی کم ہو چکی ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول ورسک میں پہلے دو ہزار طلبہ تھے، جبکہ اب صرف 350 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایک استاد نے بتایا کہ اساتذہ بھی خوفزدہ ہیں اور جب حالات کشیدہ ہوں تو بچوں کو گھر بھیجنے کی اجازت نہیں دیتے۔انتہائی تشویشناک امر یہ ہے کہ نہم اور دہم کے طلبہ نے تعلیم ترک کرکے مسلح گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سرگرم سماجی کارکن عمران ٹکر کاکہنا ہے کہ بدامنی اور آفات میں سب زیادہ بچے، خواتین، بوڑے اور خصوصی افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اُن کے بقول مزکورہ افراد جسمانی طور کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں کرسکتے اور تشدد کے واقعات ان کے زندگی کے مختلف پہلوکو متاثر کردیتے ہیں۔اُنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پچھلے کئی دہائیوں سے خیبر پختونخوااور خصو صا ضم قبائلی اضلاع میں بدامنی اور آفت نے مقامی لوگوں کو جانی، مالی اور معاشی نقصان اُٹھنا پڑا جبکہ ریاست کی ذمہ دری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو ہرقسم کے تحفظ فراہم کریں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خیبر پختونخوا میں ڈرون حملوں اور شہری ہلاکتوں پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ تنظیم کی نائب ریجنل ڈائریکٹر ایزابل لا کے مطابق، 2025 کے آغاز سے اب تک مبینہ ڈرون حملوں میں پانچ بچوں سمیت 17 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ 20 جون کو ایک اور حملے میں ایک بچہ جاں بحق ہوا۔ ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور ان کی آزاد و شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔

پاکستانی حکام کی جانب سے تاحال اس بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ حکومتی ادارے اس قسم کے حملوں کی ذمہ داری قبائلی علاقوں میں سرگرم گروہوں پر ڈالتے ہیں، اور کئی بار کہا جا چکا ہے کہ یہ گروہ ڈرون اور کواڈ کاپٹرز ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے بھی ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا شہری ہلاکتوں سے کوئی تعلق نہیں۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی بدامنی بڑھ رہی ہے اور مسلح حملوں میں تیزی آئی ہے۔ حکومت کی جانب سے مقامی افراد کو دوبارہ نقل مکانی کا کہا گیا ہے، مگر ع1مائدین نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے لدھا میں حال ہی میں جرگہ منعقد ہوا جس میں پاکستانی سیکورٹی فورسز اور تحریک طالبان سے اپیل کی گئی کہ مسلح کارروائیاں بند کی جائیں کیونکہ ان کا نشانہ عام شہری بن رہے ہیں۔ ممکنہ فوجی آپریشن اور نقل مکانی کے خلاف جمعے کو شمالی وزیر ستان کے علاقے میرعلی میں بڑا عوامی اجتماج ہوا جن میں ہزاروں کے تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء نے احتجاجی مارچ کیا موقف اپنایا کہ مقامی آبادی کسی صورت نقل مکانی کے لئے تیار نہیں جبکہ ریاست سے تحفظ دلانے کی اپیل کی۔ اس پہلے مقامی عمائد، ضلعی انتظامیہ اور سیکورٹی حکام کے درمیان مزکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں تاہم تمام نشستیں بغیر کسی اتفاق رائے کے ختم ہوگئے تھے۔

پچھلے چند مہینوں کے دوران پاکستان میں دہشت گردی اور مسلح حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کی رپورٹ کے مطابق فروری 2025 میں ملک بھر میں 79 حملے ہوئے جن میں 55 شہری اور 47 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے، جبکہ جوابی کارروائیوں میں 156 عسکریت پسند ہلاک اور 66 گرفتار کیے گئے۔ مارچ 2025، نومبر 2014 کے بعد سب سے ہلاکت خیز مہینہ رہا، جس میں 105 حملے ہوئے اور 228 افراد مارے گئے، جن میں 67 شہری اور 73 سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں مزید 107 شدت پسند مارے گئے، یوں کل ہلاکتوں کی تعداد 335 رہی۔ جون 2025 میں 78 مسلح حملے ہوئے جن میں 100 افراد جان بحق اور 189 زخمی ہوئے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں شدت پسندحملوں میں شدت دیکھی گئی۔ خاص طور پر بلوچستان کے خضدار، شمالی وزیرستان، مستونگ، اور باجوڑ جیسے علاقوں میں خودکش حملوں، بم دھماکوں اور پولیس چوکیوں پر حملوں کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ حملے اکثر کالعدم تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان (TTP)، بلوچ لبریشن آرمی (BLA)، اور حافظ گل بہادر گروپ کی طرف سے کیے گئے۔ مارچ تا جون 2025 کے دوران شہری و سکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں نمایاں اضافہ اور ملک گیر سطح پر دہشت گردی کے پھیلاؤ نے سیکیورٹی چیلنجز کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔

اسلام گل
بانی و مدیر اعلٰی ٹائم لائن اردو، اسلام گل افریدی مختلف قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کےساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں