خیبرپختونخوا میں بچے کے ماں کے دودھ کی اہمیت کے حوالے سے آگاہی مہم کاافتتاح کردیا گیا ہے جوکہ پوری مہینہ صوبے بھر میں جاری رہیگا۔ تقریب میں محکمہ صحت کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ، طبی ماہرین بچوں کے عالمی ادارے ( یونیسف) اور دیگر سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

ڈائریکٹر نیوٹریشن محکمہ صحت خیبر پختونخوا کے ڈاکٹر فضل مجید نے ٹائم لائن اُردو کو بتایا کہ پوری دنیا میں آگست پہلا ہفتہ بچے کے لئے ماں کے دودھ کی اہمیت کے حوالے سے منایا جاتاہے تاہم خیبر پختونخوا میں یہ مہم پوری مہینہ چلایا جائیگا جس کی بنیادی وجہ والدین میں ماں کے دودھ کے حوالے موثر طریقے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سومیں ساٹھ فیصد خواتین اپنے بچوں کومختلف کمپنیوں کے تیار کردہ مصنوعی دودھ غذا کے طور پر مہیا کررہاہے جس کے بچوں کے صحت پر انتہائی برے آثرات مرتب ہورہے ہیں۔

تقریب میں شرکاء کو بتایا کہ مارکیٹ میں مختلف ناموں پر بچے کے لئے دودھ دستیاب ہے تاہم ماں کے دودھ کا نعم البدل ہرگز نہیں۔ تحقیق میں بتایاگیا کہ پاکستان میں ہرسال 114 ارب روپے کا فارمولا دودھ فروخت ہوتاہے تاہم یہ بچوں میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لینے کا سبب بن رہاہے۔ ماہرین نے گائے اور بکری کا دودھ بھی بچوں کیلئے غیر صحتمندقرار دیا۔

پاکستان پریڈیاک ایشویشن خیبر پختونخوا کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین نے اس موقع پر بتایاکہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کی ایک بڑی وجہ ماں کے دودھ کے غذا کے طورپر عدم دستیابی ہے جبکہ بیس فیصد سے کم بچوں کو اپنے ماں کی دودھ مہیا کی جاتی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ منصوعی غذا سے بچے کے ذہنی اور جسمانی نشونما بھی بری طرح متاثر ہورہاہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ میڈیا اشتہارت میں منصوعی دودھ کی انتہائی تشہیر کی جاتی ہے کہ جب ہمارے پاس بچے کے والدین آتے ہیں تو کہتے کہ ہمیں میڈیکل سٹور سے کسی کمپنی کے ڈبے والے دودھ لکھ دیں تاکہ ہمارے بچے کی بہتر نشونما ہوسکے باوجود اس کے کہ ماں میں اپنے بچے کو دودھ دینے کے تمام صلاحیت موجود ہوتے ہیں۔

ماہرین نے بتایاکہ جب ماں دودھ کے کمی کی بات کرتی ہے تو اس حوالے سے تحقیق کی کرنے اُن وجوہات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے ساتھ درپیش مسائل کو دور کرنے کے لئے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق ماں میں دودھ کی کمی بنیادی وجوہات میں نیند کی کمی، مناسب غذا کی عدم دستیابی، بچے کو دودھ پلالنے کا طریقے کے حوالے سے لاعلمی شامل ہیں۔

مدیحہ اقبال حیات آباد میڈیکل کمپککس میں زچہ بچہ شعبے کے سربراہ ہے۔ اُنہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کے ساتھ ماں اپنے بچوں کو ددوھ مہیا کرنے کے رحجان میں کمی پیش آرہی ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ اس میں بنیادی کردار میڈیا کے ہے جن پر منصوعی ددوھ کے حوالے سے ایسے تشہہیر کیاجاتاہے جو والدین آسانی ساتھ اپنے طرف راعب کردیتاہے۔ اُنہوں نے کہا کہ جن بچوں کو ماں کا دودھ مہیا نہیں کیاجاتاہے تواُن بچوں میں عام بیماریاں زیادہ ہوتے ہیں جبکہ الرجی کے خلاف قوت مدافغت کم ہونے کی وجہ سے بچہ بار بار اور جلد بیمار ہوتاہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ایسے بچوں میں کان کے درد کی بیماری بھی عام ہوتی ہے۔

تقریب میں بچوں کے عالمی ادارے یونیسف کے سلمہ خاتون بھی شریک تھی۔ اُنہوں نے کہاکہ جب خواتین اپنے بچوں کو چھاتی کے ددوھ فراہم نہیں کررہے ہیں تو وہ مختلف حوالوں سے اپنے بچوں کا نقصان کررہاہے جس سے بچہ کی ذہنی و جسمانی نشونما کے ساتھ علاج اور منصوعی دودھ کے خریداری پر ماہانہ ہزاروں روپے کے اخرجات قابل ذکر ہے۔ اُنہوں نے کہاکہ یونیسف صوبہ بھر کے پانچ سو ہسپتالوں اور صحت کے بنیادی مراکز میں ایسے اقدامات کررہے ہیں جن سے بچے کے بہتر نشونما اور علاج میں مدد گار ثابت ہورہاہے۔

مقررین کے مطابق پیدائش کے بعد پہلے ایک گھنٹے میں دو میں سے ایک بچے کو ماں کا دودھ پینے کو ملتا ہے۔ ماں کا دودھ پلانے سے عالمی سطح پرپانچ سال سے کم عمر 8 لاکھ سے زائد بچوں کو موت سے بچایا جاسکتا ہے جس میں 87 فیصد بچے چھ ماہ سے کم عمر کے ہیں۔ پیدائش کے دو ماہ بعد اسہال سے موت ہوجانے کی شرح بوتل کا دودھ پینے والوں بچوں میں ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی نسبت 25 فیصد زیادہ ہوتی ہے۔
فارمولا ملک کے زیادہ استعمال سے بچوں میں طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جن میں الرجیز، جلد کی بیماریوں، کان کا درد اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

ماں کا دودھ پلانے سے تین ماہ سے کم عمر انفیکشن سے مرنے والے 88 فیصد بچوں کے اموات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ماں کا دودھ پلانے سے بچوں میں اسہال کی شرح کو 54 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ مقررین نے یہ بھی بتایا کہ گائے اور بکری کا دودھ بھی بچوں کیلئے بالکل بھی صحتمند نہیں۔

شاہ خالد شاہ جی
شاہ خالد شاہ جی کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ اور پچھلے 15 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہے۔ وہ ایک ایوارڈ ہافتہ تحقیقاتی جرنلسٹ ہے اور مختلف نیوز ویب سائٹس، اخبارات، جرائد اور ریڈیوز کے لئے رپورٹینگ کا تجربہ رکھتا ہے۔ شاہ جی زراعت، تعلیم، کاروبار۔ ثقافت سمیت سماجی مسائل پر رپورٹنگ کررہا ہے لیکن اس کا موسمیاتی تبدیلی ( کلائیمیٹ چینج ) رپورٹنگ میں وسیع تجربہ ہے۔ جس کے زریعے وہ لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصرف ہے۔

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں